ہاکی کے میدان میں عام طور پر شہرت سینٹر فارورڈ پوزیشن پر کھیلنے والے سٹرائیکرز کو حاصل ہوتی ہے، مگر ریاست بھوپال میں پیدا ہونے والے انور احمد خان عرف ’انو‘ ایک ایسے کھلاڑی تھے جنہوں نے سینٹر ہاف پوزیشن سے کھیلتے ہوئے نام کمایا۔اولمپکس کی ویب سائٹ پر ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ انہوں نے پاکستانی قومی ٹیم میں 12 سال تک خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 1960 کے اولمپکس میں سونے، 1956 اور 1964 میں چاندی، اور 1958 و 1962 کے ایشین گیمز میں سونے کے تمغے جیتنے میں اہم کردار ادا کیا۔ہم آج انور احمد خان کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ 92 برس قبل، 24 ستمبر 1933 کو غیر منقسم ہندوستان کی ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے ہاکی کھیلنا بھوپال میں سیکھا، لیکن تقسیم ہند کے بعد 1951 میں ان کا خاندان پاکستان منتقل ہو گیا۔ پاکستان جانے سے قبل ہی وہ ہاکی میں اپنے جوہر دکھا چکے تھے۔ بھوپال کے ماڈل سکول گراؤنڈ اور عیش باغ کے میدانوں میں ان کا کھیل بہت متاثر کن تھا۔ یہاں تک کہ 17 برس کی عمر میں انہیں بھوپال کی ٹیم میں منتخب کر لیا گیا۔
خیال رہے کہ اس وقت بھوپال کی ٹیم ہندوستان کی مضبوط ترین ٹیموں میں شمار ہوتی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے عبید اللہ گولڈ کپ میں بھی شرکت کی، جہاں ان کی ٹیکلنگ، ریکوری اور موبلٹی نے ماہرینِ ہاکی کو بہت متاثر کیا۔پاکستان منتقل ہونے کے بعد بھی کھیل سے ان کی دلچسپی کم نہ ہوئی۔ وہ کرکٹ اور ہاکی سمیت مختلف کھیلوں میں مہارت رکھتے تھے، تاہم وہ ہاکی کا دور تھا، اور ان کی دلچسپی بھی اسی کھیل میں زیادہ تھی۔ ان کی کارکردگی نے نوآزاد ملک کی سلیکشن کمیٹی کو متاثر کیا، اور 1954 میں انہیں پاکستان کی قومی ٹیم کے ملائیشیا کے دورے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ تاہم، پاؤں کی انجری کے باعث وہ اس دورے میں شرکت نہ کر سکے۔ اس وقت ان کی عمر محض 21 سال تھی۔ان کا تعلق بھوپال کی ایک معزز ریاستی فیملی سے تھا۔ ان کے والد ریاست بھوپال میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے جبکہ والدہ نورجہاں بیگم کرنل نواب نصراللہ خان بہادر کی بیٹی تھیں۔’راک آف جبرالٹر‘ کا خطابان کے کھیل کا سب سے نمایاں پہلو ان کا دفاع تھا۔ اسی مضبوط دفاعی کردار کی بنیاد پر انہیں ’راک آف جبرالٹر‘ یعنی ’جبل الطارق کی چٹان‘ کا خطاب دیا گیا۔1958 کے ٹوکیو ایشین گیمز میں جب پاکستان نے طلائی تمغہ جیتا، تو اس کامیابی میں انور احمد خان کا کردار کلیدی تھا۔ (فوٹو: ہاکی سپورٹس کلب کندیاں فیس بک)یہ لقب ان کی قوت، استحکام اور مستقل مزاجی کی علامت تھا۔ ٹیم میں ان کی موجودگی کچھ ویسی ہی تھی جیسے آبنائے جبرالٹر پر موجود ناقابلِ تسخیر قلعہ، میدان میں وہ دفاع کی چٹان بن کر کھڑے رہتے تھے۔جس طرح جبرالٹر کا قلعہ برطانوی طاقت کی پائیداری کی علامت سمجھا جاتا ہے، اسی طرح انور احمد خان پاکستانی ہاکی ٹیم کے مضبوط ترین ستون سمجھے جاتے تھے۔1958 کے ٹوکیو ایشین گیمز میں جب پاکستان نے طلائی تمغہ جیتا، تو اس کامیابی میں انور احمد خان کا کردار کلیدی تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان نے ہاکی میں انڈیا کی بالادستی کو سنجیدگی سے چیلنج کیا۔1960 کے اولمپکس میں جب پاکستان نے فائنل میں انڈیا کو شکست دی، تو انور احمد خان نے سینٹر ہاف اور فل بیک پوزیشن سے کھیلتے ہوئے انڈین ٹیم کو گول کرنے کا کوئی موقع نہ دیا۔اسی اولمپکس کے گروپ بی کے ایک میچ میں پاکستان نے جاپان کو 0-10 سے شکست دی، جس میں انور احمد خان نے بھی ایک گول کیا۔انور احمد خان 24 ستمبر 1933 کو غیر منقسم ہندوستان کی ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے۔(فوٹو: ہاکی سپورٹس کلب کندیاں فیس بک)1962 کے جکارتہ ایشین گیمز میں بھی انور احمد خان کی دفاعی مہارت عروج پر تھی۔ 3 ستمبر 1962 کو جکارتہ کے سینیان ہاکی سٹیڈیم میں پاکستان نے انڈیا کو 0-2 سے شکست دی، اور انڈین ٹیم مسلسل حملوں کے باوجود کوئی گول نہ کر سکی۔ اس کا سہرا انور احمد خان کی زبردست دفاعی حکمت عملی کو جاتا ہے۔12 سال تک قومی ٹیم کی نمائندگی کے بعد، 33 برس کی عمر میں انہوں نے فیلڈ ہاکی سے ریٹائرمنٹ لے لی، لیکن وہ ہاکی سے مکمل طور پر کبھی الگ نہیں ہوئے۔1955 میں کھیل کی بدولت انہیں پاکستان کسٹمز میں ملازمت ملی، مگر بعد ازاں وہ قومی ہاکی ٹیم کے مینیجر، سلیکٹر اور کوچ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔انور احمد خان کے زیرِ تربیت پاکستان نے 1974 کے ایشین گیمز میں سونے کا تمغہ، 1975 کے ورلڈ کپ میں چاندی کا تمغہ، 1986 کے ایشین گیمز میں چاندی کا تمغہ جیتا، جبکہ 1982 میں ان کی نگرانی میں جونیئر ٹیم نے ورلڈ کپ میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔وہ 1993 میں کسٹمز سے بطور اسسٹنٹ کلیکٹر ریٹائر ہوئے۔ زندگی میں انہیں کوئی بڑا سرکاری اعزاز نہ مل سکا، لیکن 2 مئی 2014 کو کراچی میں 80 برس کی عمر میں وفات کے بعد، انہیں 2015 میں تمغۂ امتیاز (ایوارڈ آف ایکسیلنس) سے نوازا گیا۔انوار احمد کو 1955 میں کھیل کی بدولت انہیں پاکستان کسٹمز میں ملازمت ملی۔ (فوٹو: ہاکی سپورٹس کلب کندیاں فیس بک)جب تک وہ کھیلتے رہے، قومی ٹیم کی دفاعی لائن میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ تاہم، پاکستان میں کرکٹ کے عروج اور ہاکی کے زوال نے انہیں بہت دل گرفتہ کیا۔ اس کے باوجود وہ ہاکی کی دنیا میں اپنی لگن، مہارت اور شاندار میراث چھوڑ گئے۔آخری دورہ بھوپالاپنی وفات سے قبل انہوں نے اپنے آبائی شہر بھوپال کا دورہ بھی کیا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان کے دور اور آج کے دور میں بہت فرق آ چکا ہے۔ دنیا بھر میں کھیلنے کا انداز بدل چکا ہے، قوانین نئے سرے سے لکھے جا چکے ہیں، اور آج کی ہاکی تیز تر اور زیادہ مسابقتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’مصنوعی ٹرف کے آنے سے کھلاڑیوں کو جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہونا پڑتا ہے۔ آج کے کھلاڑی ہمارے دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ فٹ ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا ’ہمارے زمانے میں لوگ بڑے بڑے کھلاڑیوں کا کھیل دیکھنے آتے تھے، مگر آج کی ہاکی میں عملی طور پر کوئی ہیرو نہیں رہا۔‘