پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کے علاقے رنگو کے رہائشی رضا اللہ ایک خلیجی ملک میں کاروبار کرتے ہیں۔ وہ رواں سال جون اور جولائی میں چھٹیوں پر اپنے گاؤں آئے۔ وہ گھر پر ٹھہرے ہوئے تھے کہ اس دوران ایک رات انہیں اپنے گھر کے صحن میں کچھ آہٹ سنائی دی۔
انہوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو دیکھا کہ دو نامعلوم مسلح افراد ان کے صحن اور ڈرائنگ روم میں داخل ہو چکے ہیں، جبکہ گھر کے باہر بھی ان کے ساتھی موجود تھے۔
یہ گروہ ڈکیتی کی نیت سے گھر میں داخل ہوا اور 14 لاکھ روپے سے زائد نقدی، زیورات اور زمینوں کے کاغذات لے کر فرار ہو گیا۔
اسی طرح ضلع اٹک کے علاقے فتح جنگ میں بھی زیورات کی ایک دکان پر مسلح ڈکیتی کی واردات پیش آئی، جس میں ڈاکو تقریباً نو تولے سونا اور لاکھوں روپے مالیت کی نقدی لوٹ کر فرار ہو گئے۔
یہ صرف ایک یا دو وارداتیں نہیں ہیں بلکہ ضلع اٹک کے مختلف علاقوں، بالخصوص حضرو اور حسن ابدال میں اس نوعیت کی درجنوں وارداتیں پیش آئی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وارداتوں میں ایک افغانی گینگ ملوث پایا گیا جس کا سرغنہ سید آغا تھا۔
اس گروہ کے خلاف ضلع اٹک کے تھانوں میں درجنوں ایف آئی آرز درج تھیں۔ یہ گینگ گھروں، دکانوں اور ڈیروں میں ڈکیتی کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو تشدد کا نشانہ بھی بناتا رہا۔ اس گینگ کی جانب سے بنکوں کی کیش وینز کو بھی لوٹا جاتا رہا ہے۔
اٹک پولیس طویل عرصے سے اس گینگ کی تلاش میں تھی مگر کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ علاقے میں ان کی مسلسل وارداتوں کے باعث خوف و ہراس پھیل چکا تھا۔ تاہم پنجاب میں سی ٹی ڈی (کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ) کے قیام کے بعد جب بڑے گروہوں کی نشاندہی کی گئی تو ان میں سید آغا کا گروہ بھی شامل کر لیا گیا۔
سی ٹی ڈی نے خفیہ معلومات اکٹھی کرنے کے بعد اس گینگ کی تلاش شروع کی اور بالآخر ان کا سراغ لگا لیا۔ بعدازاں 15 ستمبر کو سی ٹی ڈی راولپنڈی اور اٹک پولیس کی ایک مشترکہ کارروائی کے دوران سید آغا اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہوگیا۔ اس واقعے کی تصدیق سی ٹی ڈی اٹک اور راولپنڈی کے حکام نے اردو نیوز سے گفتگو میں کی۔
متعلقہ افسروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کارروائی کے دوران جب گینگ کو ٹریپ کیا گیا تو فائرنگ کے تبادلے میں سرغنہ سید آغا اپنے ہی ساتھیوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوا۔
پولیس کو شبہ ہے کہ اس گینگ کے دیگر ملزمان بھی افغان ہیں جنہیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سی ٹی ڈی کو شبہ ہے کہ اس گینگ کے دیگر ملزم بھی افغان ہیں جن کا سراغ لگا لیا گیا ہے اور انہیں بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ افغان گینگ پشاور کے راستے ضلع اٹک میں داخل ہوتا تھا، وارداتیں کرنے کے بعد واپس وہیں فرار ہو جاتا تھا۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ضلع اٹک کی تحصیل حضرو خاص طور پر وہ علاقہ ہے جہاں بڑی تعداد میں مقامی افراد بیرونِ ملک ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ اسی وجہ سے ملزم زیادہ تر انہی کے گھروں کو نشانہ بناتے، جہاں سے وہ قیمتی زیورات اور نقدی چرا لیتے تھے۔
گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران اس گینگ کی وجہ سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل رہا تھا جبکہ مقامی آبادی کی جانب سے پولیس کے عدم تعاون کی شکایات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں ضلع اٹک کی تحصیل حضرو کے ایک رہائشی محمد خیام(فرضی نام) نے بتایا کہ ’ان کے علاقے اور اردگرد کی تحصیلوں میں بڑی تعداد میں ایسے گینگ متحرک رہے ہیں۔
ان کے مطابق ایک گروہ جس میں مبینہ طور پر افغانی بھی شامل تھے، عام شہریوں بالخصوص بیرونِ ملک رہنے والے شہریوں کے گھروں میں وارداتیں کرتا تھا۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق بعض اوقات پولیس مقابلوں میں مجبوری کے تحت فائرنگ کرنی پڑتی ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کی جانب سے اس گینگ کے سرغنہ کی موت کی خبر مقامی آبادی کے لیے اطمینان کا باعث ہے کیونکہ اس سے علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آنے کی امید ہے۔
سی ٹی ڈی راولپنڈی جہاں پنجاب بھر میں مختلف کارروائیاں کر رہی ہے، وہیں ضلع اٹک اور راولپنڈی میں بھی ایسے گینگز کے خلاف آپریشن جاری ہیں جو عرصہ دراز سے ڈکیتیوں اور شہریوں کے قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں۔
اردو نیوز نے سی ٹی ڈی کی ایسی کارروائیوں پر ماہرانہ رائے جاننے کے لیے پاکستان میں کریمنل پروسیڈنگز کو کور کرنے والے سینیئر وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم سے رابطہ کیا۔
انہوں نے اس بارے میں بتایا کہ جرائم میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اپنا عوامی امیج بہتر بنائے تاہم انہوں نے سی ٹی ڈی سے مقابلوں کے دوران ملزموں کی ہلاکت پر بھی سوال اٹھایا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’بعض اوقات پولیس مقابلوں میں مجبوری کے تحت فائرنگ کرنی پڑتی ہے لیکن ایسے تمام واقعات کی جوڈیشل انکوائری لازمی ہونی چاہیے تاکہ شفافیت برقرار رہ سکے۔‘
اُنہوں نے مزید بتایا کہ ’سی ٹی ڈی چوں کہ روایتی پولیس ڈھانچے سے نکلی ہے، اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس کی کارکردگی مکمل طور پر مؤثر اور بہتر ہے۔‘