اوسط پرفارمنس، کمزور کپتانی اور غلط فیصلے پاکستان کو ہرا گئے، عامر خاکوانی کا تجزیہ

اردو نیوز  |  Sep 22, 2025

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ انڈین ٹیم پاکستان سے بہت زیادہ تجربہ کار اور زیادہ بیلنس ہے۔ انہیں ایک مضبوط اور تجربہ کار بولنگ لائن دستیاب ہے، جس میں جسپریت بمرا جیسے دنیا کے بہترین ٹی20 بولر، کلدیپ یادو جیسے عمدہ مسٹری سپن، ورن چکرورتی اور اکثر پٹیل جیسے اچھے سپنرز اور ہاردک پانڈیا جیسے تجربہ کار آل راؤنڈر کی خدمات حاصل ہیں۔ آج کے میچ میں تو شیوم دوبے جیسا پارٹ ٹائم بولر بھی خاصا کارگر ثابت ہوا۔

دوسری طرف انڈیا کے پاس دنیا کی بہترین ٹی20 بیٹنگ لائن موجود ہے، اوپنرز کی بہترین جوڑی جن میں دنیا کا سب سے تیز سٹرائیک ریٹ رکھنے والا ہٹر ابھیشک شرما، کلاسی بلے باز شبھمن گل، جبکہ مڈل آرڈر میں سوریا کمار یادو، تلک ورما، سنجو سمیسن، پانڈیا، دوبے اور پھر اکثر پٹیل بھی شامل ہے، یوں نمبر آٹھ تک یہ چلی جاتی ہے۔ انڈین بیٹنگ کا یہ کمال ہے کہ وہ جارحانہ انداز سے کھیلتے ہیں، ہارڈ ہٹنگ کے ساتھ پراپر شاٹس بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس انڈین ٹیم کو ہرانے کے لئے ان سے بہتر کھیل کھیلنے کی ضرورت ہے، کم از کم ان جیسا ہی کھیل لیا جائے تاکہ میچ آخری اوورکی آخری گیند تک چلا جائے۔

پاکستانی ٹیم نے آج کے میچ میں اپنے پچھلے میچز کی نسبت بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا، مگر ہم انڈیا سے بہتر نہیں کھیل پائے۔ ویسے میچ کے آغاز ہی سے اندازہ ہوا کہ پاکستانی کھلاڑی مرعوب ہونے کے بجائے جارحانہ انداز میں کھیلنے آئے ہیں۔ پہلی مثبت تبدیلی تو فخرزماں کو بطور اوپنر بھیجنا تھی۔ صائم ایوب کے آوٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ لیا گیا۔ فخر زماں نے جارحانہ اندازمیں کھیلنا شروع کیا، چند عمدہ شاٹس کھیلے، بمرا جیسے باولر کو نکل کر اٹیک کیا اور دو چوکے جڑ دیے۔ پھر فخر کے آوٹ ہوجانے کے باوجود جس انداز میں صاحبزادہ فرحان نے بیٹنگ کی، جیسے انہوں نے انڈین سپنرز پر اٹیک کیا۔ پاکستانی بلے بازوں نے کلدیپ یادو کو باہر نکل کر شاٹس لگائے، وہ دلچسپ تھا۔ پاکستان نے بہت اچھا پاورپلے کھیلا، پہلے دس اوورز میں بہت اچھی بیٹنگ کی اور یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان آسانی سے ایک سو نوے تک رنز بنا لے گا۔

پھر اچانک ہی چیزیں ہاتھ سے نکلنے لگیں۔ یہاں پر کمزور کپتانی نظر آئی۔ صائم ایوب کے آؤٹ ہونے کے بعد حسین طلعت کو بھیج دیا۔ ایک ایسا کھلاڑی جو پچھلے کئی میچ نہیں کھیلا، جو اتنی اچھی فارم میں بھی نہیں، ٹیم میں اس کی جگہ ہی پکی نہیں۔ ایک بہت دباؤ والے انڈیا پاکستان میچ میں حسین طلعت کو بھیجنے کی کوئی تک ہی نہیں تھی۔

انڈین بیٹنگ کا یہ کمال ہے کہ وہ جارحانہ انداز سے کھیلتے ہیں، ہارڈ ہٹنگ کے ساتھ پراپر شاٹس بھی لگائے جاتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سلمان آغا کے پاس دو آپشنز تھے۔ وہ جارحانہ پاور ہٹر محمد حارث کو بھیجتے جو تیز کھیل کر میچ کے ٹمپو کو برقرار رکھتا یا پھر سلمان آغا کو خود آنا چاہیے تھا۔ یہ ان کا نمبر تھا، وہ سپنر کو بہت اچھا کھیلتے ہیں، بڑے شاٹس بھی لگا سکتے ہیں۔ سلمان آغا کے چھپنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ وہ خود نہیں آئے اورپھر حسین طلعت کے آوٹ ہونے کے بعد بھی محمد نواز کو بھیج دیا۔ آخر کیوں؟

اگر نواز کو اس لیے بھیجا گیا کہ وہ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرتا ہے اور مسٹری سپنرز کو بہتر کھیل لے گا تو پھر شاہین شاہ آفریدی کو بھیجنے کا رسک لینا چاہیے تھا۔ شاہین شاہ بہت اچھی فارم میں ہیں اور پچھلے دو تین میچز میں اس نے شاندار جارحانہ ہٹنگ کی ہے۔ شاہین شاہ سپنرز پر اٹیک کر سکتا تھا اور اگر دو تین اچھی شاٹس لگ جاتیں تو انڈین بولنگ دباو میں آ جاتی۔

کپتان اور کوچ کی جانب سے پہلے حسین طلعت اور پھر محمد نواز کو بھیجنے کا فیصلہ غلط ثابت ہوا۔ حسین طلعت نے گیارہ گیندوں پر دس رنز بنائے اور محمد نواز نے انیس گیندوں پر اکیس رنز۔ یہاں پر اگر بہتر فیصلے کیے جاتے تو پاکستان آسانی سے بیس رنز مزید بنا سکتا تھا۔ فہیم اشرف نے ایک بار پھر اپنی افادیت ثابت کی اور صرف آٹھ گیندوں پر دو چھکوں کی مدد سے بیس رنز بنائے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شائد پاکستان آٹھ دس رنز مزید کم بنا پاتا۔ پاکستانی بیٹنگ کم از کم 20 رنز مزید بنا سکتی تھی، اگر ایسا ہوتا تو انڈین بیٹنگ پر زیادہ دباؤ رہتا اور میچ آخری اوور کی آخری گیندوں تک جا سکتا تھا۔

آج کے میچ میں انڈین ٹیم پاکستان سے بہتر ثابت ہوئی، فیلڈنگ میں اگر وہ اتنے کیچ نہ چھوڑتے تو شائد پاکستان کے رنز کچھ مزید کم ہوجاتے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان نے 171 رنز بنائے۔ اب سب سے اہم یہ تھا کہ پاور پلے میں انڈین اوپنرز کو تیزی سے رنز نہ بنانے دیے جائیں تاکہ میچ کلوز جائے۔ پاورپلے میں پاکستانی بولنگ بہت کمزور رہی اور انڈین اوپنرز کو وہ بالکل ہی قابو نہ کر پائے۔ میچ کی پہلی گیند ہی شاہین شاہ آفریدی نے شارٹ پچ کرائی، وہ بھی لیگ سٹمپ پر اور ابھیشک شرما نے آسانی سے چھکا لگا دیا۔ انڈیا کو ڈریم سٹارٹ دے دیا۔ اس کے بعد پاکستانی بولرز کی بری طرح دھنائی ہوئی، چھ اوورز کے پاور پلے میں انڈیا نے 69 رنز بنا لیے، نویں اوور میں ان کے سو رنز مکمل ہوئے اور میچ تب ہی پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اگر پاکستانی بولرز ڈسپلنڈ بولنگ کرتے تو نقشہ مختلف ہوتا۔

آج کے میچ میں انڈیا کے دو مین بولرز بمرا اور کلدیپ یادو زیادہ کامیاب نہیں ہوئے۔ بمرا کی تو خاصی پٹائی ہوئی، کلدیپ بھی اتنا موثر نہیں رہا۔  انڈین کپتان نے مگر بڑی سمارٹ کپتانی کی اور پارٹ ٹائم سلو میڈیم پیسر شیوم دوبے کو بولنگ دی، جس نے رنز روک دیے اور اہم وکٹیں لیں۔ دوبے نے پہلے تین اوورز میں صرف سولہ رنز دیے۔ یہ غیر معمولی کارکردگی تھی۔

پاکستانی کپتان کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ اس پچ پرفاسٹ بولرز اور مسٹری سپنرزسے زیادہ سلو میڈیم پیسرز کو مدد مل سکتی ہے۔ فہیم اشرف اور حسین طلعت کی صورت میں دو ایسے بولر موجود تھے۔ سلمان آغا کو یہ بات سمجھنے میں بہت دیر لگ گئی۔ فہیم اشرف کو دسویں اوور میں لایا گیا، اس نے آتے ہی ناقابل تسخیر نظر آتی اوپننگ جوڑی کو توڑدیا۔ شبمن گل بولڈ ہوا۔ فہیم اشرف کو پاور پلے میں چانس دینا چاہیے تھا۔ اسی طرح حسین طلعت کو بھی آزمانا چاہیے تھا۔

سپر فور میں پاکستان کے سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف دو میچز ابھی باقی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

آج پاکستان کے دو ایسے سپنر بری طرح فیل ہوئے، جن پر ہم بہت زیادہ انحصار کر رہے تھے۔ صائم ایوب بری طرح پٹے، تین اوور میں پینتیس رنز دیے جبکہ ابرار جو ایشیا کپ میں ابھی تک بہت کامیاب رہے تھے، ان کے چار اوورز میں بیالیس رنز بنے۔ وجہ صرف ایک تھی کہ وہ پچ کو اچھی طرح ریڈ نہیں کر سکے۔ کلدیپ یادو جیسے سپنر نے جب دیکھا کہ فلائٹ دینے سے چھکے لگ رہے ہیں تو اس نے اپنے آخری دو اوورز میں سیدھی اور تیز گیندیں کرائیں۔ ابرار کو یہ سمجھ ہی نہیں آئی، وہ مسلسل فلائیٹ کے ساتھ گیندیں کراتا اور ابھیشک شرما سے چھکے کھاتا رہا۔ صائم کا آج بولنگ میں برا دن تھا، اس نے ہر اوور میں دو تین گیندیں کمزور کرائیں، شارٹ گیندیں اوروکٹوں سے باہر۔ پھر چوکے ہی لگنے تھے۔

پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پچھلے میچ سے بہتر رہی، مگر بیٹنگ آرڈر میں غلطیاں، کپتان کے جرات سے عاری فیصلے اور پھر بولنگ میں بروقت تبدیلیاں نہ کرنا بھاری ثابت ہوئیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انڈین ٹیم کی کارکردگی کو نہ سراہا جائے۔ واضح طور پر انڈین ٹیم پاکستان سے بہتر ثابت ہوئی، فیلڈنگ میں اگر وہ اتنے کیچ نہ چھوڑتے تو شائد پاکستان کے رنز کچھ مزید کم ہوجاتے۔

کپتان اور کوچ کی جانب سے پہلے حسین طلعت اور پھر محمد نواز کو بھیجنے کا فیصلہ غلط ثابت ہوا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اور ہاں اس میچ میں امپائر کے فیصلے بھی پاکستان کے خلاف گئے۔ فخرزماں بہت اچھی فارم میں لگ رہا تھا، اسے بالکل غلط آوٹ دیا گیا۔ تھرڈ امپائر کا فیصلہ واضح طور پر بدنیتی پر مبنی تھا۔ گیند صاف نظر آ رہی تھی کہ نیچے لگ گئی ہے، امپائر نے نجانے کیوں اتنی عجلت میں فیصلہ دیا۔ جبکہ تین چار واضح وائیڈ گیندیں بھی نہیں دی گئیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ انڈین دباؤ فیلڈ میں موجود ہر فرد پر ہے۔ امپائر بھی اس دباؤ سے آزاد نہیں لگ رہے تھے۔ایسی صورت میں پاکستان کو دس پندرہ فیصد مزید بہتر کھیلنا چاہیے تھا۔ پاکستان ایسا نہ کر سکا، میچ پھر ہارنا ہی تھا۔ سپر فور میں پاکستان کے دو میچز ابھی باقی ہیں۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف۔ اگر دونوں میچز پاکستان جیت گیا تو پھر فائنل میں ایک بار پھر انڈیا سے میچ ہوسکتا ہے۔پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کو اپنی غلطیوں پر غور کرنا چاہیے، کپتان کو بھی ان کی کمزوریاں اور غلطیاں بتانی چاہئیں۔ اگر اس میچ سے کچھ سیکھ لیا گیا تو اگلے میچز میں پاکستان بہتر کھیل کر فتوحات حاصل کر سکتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More