Getty Imagesکوئی بھی قابل ذکر سیاسی جماعت، گروہ یا تنظیم کسی ایسے یک رخی ایجنڈے پر پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر آخر کیوں مار کھائے جس کا پہلا اور آخری نکتہ بس یہی ہو کہ عمران خان کو رہا کرو
اب تو جمائیاں آنے لگتی ہیں یہ سنتے سنتے کہ پی ٹی آئی ووٹ بینک کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی جماعتاور عمران خان مقبول ترین لیڈر ہیں۔
اچھا، ہاں، ہیں! تو پھر؟ بڑے یا مقبول ہونے سے کیا فرق پڑا؟
بڑا تو لاہوری بابو بینڈ کی جان پیتل کا وہ چمکیلا باجا بھی ہے جو بینڈ ماسٹر اپنے اردگرد لپیٹے سڑک پر سب سے آگےچلتا ہے۔
کلارینٹ، بگل اور گلے میں لٹکے ڈرم اس عظیم الجثہ باجے کے آگے پانی بھرتے ہیں مگر اس دبدبے دار لشکارتے سنہری باجے میں سے ہر چند لمحے بعد سوائے ایک بھاری سی ’پوں، پوں، پوں‘ کوئی اور آواز بھی کبھی نکلی؟
ریوڑ بھی سینکڑوں میں ہوتا ہے مگر ایک گڈریا اور اس کا کتا ریوڑ کو لائن میں لگا کے رکھنے کے لیے کافی ہیں۔
تعداد تو ہندوستانیوں کی بھی 40 کروڑ تھی مگر سوا لاکھ گوروں نے 90 برس حکومت کی حتیٰ کہ 1857 کی تحریکِ آزادی بھی ان کا اگلے 80 برس کچھ نہ بگاڑ سکی۔
ان تمام مثالوں میں ایک شے مشترک ہے ’تنظیم اور اس کا چابکدست استعمال۔‘
کوئی یہ بھی تو بتائے کہ پی ٹی آئی سب سے بڑی اور سب سے مقبول ہونے کے علاوہ منظم کتنی ہے؟ ووٹ بینک یا لیڈر کی مقبولیت کو ایک ٹھوس سیاسی طاقت میں بدلنے کی کتنی صلاحیت ہے تاکہ تمام نہیں تو کم از کم آدھی باتیں ہی منوا سکے۔
پی ٹی آئی سے زیادہ منظم اور مقبول تو ایک زمانے تک بھٹو اور بے نظیر کی پیپلز پارٹی تھی۔ نواز شریف کی مسلم لیگ ن تھی، ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی تھی۔
پی ٹی آئی کے برعکس یہ جماعتیں اپنے اپنے جدوجہدی زمانوں میں دیگر سیاسی قوتوں کو کم ازکم یک نکاتی ایجنڈے تلے عارضی طور پر ہی سہی مگر کچھ دور تلک ساتھ لے کر چلنے میں کسی حد تک کامیاب رہیں۔
پھر بھی کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اتنے طویل جدوجہدی پس منظر کے باوجود انھیں سمجھوتہ کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ یہ جماعتیں پسپا ہوتے ہوتے اس ملک کو غیر مرئی تیتر بٹیر ہائبرڈ نظام کی چوکھٹ تک لانے میں سہولت کار بن گئیں۔ (اس نکتے پر مدتوں بحث رہے گی کہ سیاسی قوتوں کو آخر کتنی لچک دکھانی چاہیے اور کس مقام پر ڈٹ جانا چاہیے)۔
پی ٹی آئی نے تو سیاسی سفر ہی بطور ہائبرڈ سہولت کار شروع کیا۔ غلطی بس یہ ہوئی کہ جب پراجیکٹ انصاف کے جنرل مینیجر نے بزعمِ خودپراجیکٹ کے مرکزی انویسٹر کے ہم پلہ سمجھنے اور مینیجنگ ڈائریکٹر کی سیٹ سنبھالنے کی کوشش کی تو انویسٹر نے اسے برطرف کر کےپرانے سہولت کاروں کو نوکری پر بحال کر دیا۔
اس شارٹ کٹ سفر کے سرور میں پی ٹی آئی کو نہ تو کبھی یہ خیال آیا کہ جنھوں نے اسے ناز و نعم کے ساتھ ہاتھوں پر اٹھا رکھا ہے وہی اسے اچانک زمین پر رکھ دیں گے۔
Getty Images’کوئی یہ بھی تو بتائے کہ پی ٹی آئی سب سے بڑی اور سب سے مقبول ہونے کے علاوہ منظم کتنی ہے؟‘
جب قالین پیروں تلے سے کھچ گیا تب کہیں خیال آیا کہ اچھے وقت میں تھوڑی بہت تنظیم سازی بھی کر لیتے تو آج ہتھ پنجہ کرنے میں کچھ آسانی ہو جاتی۔
سوشل میڈیا کی طاقت آپ کو ووٹ تو ڈلوا سکتی ہے مگر سٹریٹ پاور کے لیے جو منظم سیاسی انفنٹری درکار ہے اس کا متبادل آج بھی ’کی بورڈ وارئیرز‘ نہیں ہیں۔
یہ بات بھی بہت عرصے تک موضوعِ بحث رہے گی کہ پی ٹی آئی کو گذشتہ برس فروری میں خیبر پختونخوا، پنجاب اور کراچی میں جو ووٹ ملے وہ خان صاحب کی ساڑھے تین برس کی پالیسیوں کی حمایت میں ڈلے یا انھیں سرسری انداز میں برطرف کرنے کے ردِعمل میں اٹھنے والی عوامی ہمدردی کی لہر کا نتیجہ تھے یا پھر یہ ووٹ سیاست پر غیر سیاسی قوتوں کے مسلسل تسلطکے خلاف بھرپور انتخابی بغاوت تھی اور اس کا نقطہ عروج نو مئی تھا؟
کارکنوں کے بھیس میں پولیس اہلکاروں کی ’خفیہ‘ میٹنگز میں شرکت: وہ سرکاری گواہ جن کے بیانات نو مئی مقدمات میں سزاؤں کی وجہ بنےعمران خان کی قید کے دو سال اور پارٹی قیادت سے ’مایوس لیکن پرامید‘ کارکن: ’ریاست آج بھی عمران خان کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے‘عاصمہ شیرازی کا کالم: مقبولیت کا ہتھیار اور انتشارپی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں: کیا عمران خان کی جماعت کے اندر یا باہر کچھ تبدیل ہونے والا ہے؟
وجہ جو بھی ہو مگر نو مئی کے بعد جو کریک ڈاؤن ہوا اور اس کریک ڈاؤن کی لپیٹ میں رفتہ رفتہ جس طرح انتخابی عمل، پارلیمانی نظام اور عدلیہ کو بھی لے لیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن پی ٹی آئی نے ایک مقبول، زمہ دار اور عوامی امنگوں کی آئینہ دار جماعت بن کے اپنی مضبوط سودے بازی کی طاقت کو ٹھوس شکل دینے کا ہر موقع ضائع کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں گنوایا۔
کوئی بھی قابل ذکر سیاسی جماعت، گروہ یا تنظیم کسی ایسے یک رخی ایجنڈے پر پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر آخر کیوں مار کھائے جس کا پہلا اور آخری نکتہ بس یہی ہو کہ عمران خان کو رہا کرو۔
اگر تحریک کا بنیادی ایجنڈہ آئین کی اوریجنل شکل میں بحالی، جمہوریت اور عدلیہ کی راہ میں رکاوٹ بننے والے فرامین و قوانین کی منسوخی، صوبوں کے ساتھ سوتیلے پن کے خاتمے اور اس کے لیے سینیٹ کو قومی اسمبلی کے ہم پلہ بااختیار بنانے اور آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹنے والے قوانین کا خاتمہ ہوتا تو شاید قومی سطح پر ایک مشترکہ بین الطبقاتی و جماعتی سٹریٹ پاور تشکیل پا سکتی تھی مگر یہ ٹرین بھی چھوٹ گئی۔
برہمن مندر میں ہی جچتا ہے۔ سیاست کے مندر میں کوئی برہمن زادہ نہیں ہوتا۔
ہدف کی راہ میں دیوار آ جائے توٹکر مارنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ دیوار کے پار پہنچنے کے متبادلات سوچنے پڑتے ہیں اور اکثر ان سے بھی مدد لینا پڑ جاتی ہے جنھیں آپ عام حالات میں شاید منھ لگانا بھی پسند نہ کریں۔
عمران خان کو دورانِ اسیری خود اپنی جماعت میں ایسے پانچ آدمی نہ مل سکے جن پر وہ اتنا اعتماد کر لیںکہ بطور کور کمیٹی حکمتِ عملی اور پالیسی سازی کا کام تب تک کے لیے سونپ دیں جب تک وہ جیل میں ہیں۔
زرا سوچیے کہ افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) کو اپنے طویل اور کٹھن سیاسی سفر میں ہر چھوٹے بڑے فیصلے کے لیے رابن آئی لینڈ میں بند نیلسن منڈیلاسے رہنمائی لینا پڑتی اور ان سے ملاقات کے لیے ہر بار گورے جیلروں کی منت کرنا پڑتی تو جنوبی افریقہ میں شاید آج بھی اے این سی سڑک پر ہوتی۔
منڈیلا نے بس یہ کہا کہ میں بحیثیت قیدی آپ جتنا باخبر نہیں رہ سکتا چنانچہ زمینی حقائق کے مطابق آپ جو بھی فیصلے کریں انکے سبب بس مزاحمت دم نہ توڑے اور دنیا نے دیکھا کہ جب منڈیلا 27 برس بعد باہر آیا تو پارٹی یکجا و متحرک تھی۔
کسی بھی قوم کے لیے ایسا لیڈر اوپر والے کی رحمت ہوتا ہے جو خود کو عقلِ کل سمجھنے کے بجائے تاریخ و سیاست کا مسلسل طالبِ علم سمجھے۔ منڈیلا ایسا ہی تھا۔
مشکل یہ ہے کہ بیشتر قائدین سوائے اپنی زات کے کچھ اور نہ پڑھتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ سنتے ہیں چنانچہ خود کو سیاسی جماعت سمجھنے والے سیاسی قبائل کی شکل میں نتیجہآپ کے آگے ہے۔
اس سمے امید کی کوئی کرن آسمان پر ہے تو بس یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت ملک کی باگ ڈور ہے وہ بھی ماشااللہ ’عقلِ کل‘ ہیں۔
عمران خان کی قید کے دو سال اور پارٹی قیادت سے ’مایوس لیکن پرامید‘ کارکن: ’ریاست آج بھی عمران خان کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے‘کارکنوں کے بھیس میں پولیس اہلکاروں کی ’خفیہ‘ میٹنگز میں شرکت: وہ سرکاری گواہ جن کے بیانات نو مئی مقدمات میں سزاؤں کی وجہ بنےپی ٹی آئی کا احتجاج: کیا کارکن ایک اور تحریک کے لیے تیار ہیں؟پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات: کیا واقعی معاملات ’مائنس عمران خان‘ تک پہنچ چکے ہیں؟پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں: کیا عمران خان کی جماعت کے اندر یا باہر کچھ تبدیل ہونے والا ہے؟