جے شنکر: لوزنگ سٹاک سے لافنگ سٹاک تک، اجمل جامی کا کالم

اردو نیوز  |  Aug 07, 2025

ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی؛  انگریزی زبان  میں ایک سادہ سا لفظ اس کیفیت کو مکمل طور پر بیان کر نے کے لیے کافی ہے یعنی ’اوورکانفیڈنس۔‘

عام فہم زبان میں یہ ایک ایسی کیفیت ہے جہاں کوئی شخص  یا کوئی ملک اپنی صلاحیتوں، علم یا فیصلوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ وہ کسی بھی صورتحال میں کامیاب ہی ٹھہرے گا۔

اس کیفیت میں مبتلا افراد اکثر دوسروں کی رائے کو نظر انداز کرتے ہیں اور غلطیاں کرنے کے باوجود اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ بھرپور صلاحیتوں اور لاجواب علم کے بل بوتے پر حاصل خود اعتمادی کا البتہ کوئی جوڑ نہیں، چاہے یہ پھر کسی شخص کے ہاں ہوں یا کسی ملک کے ہاں۔

شاید اسی لیے نطشے نے کہا تھا کہ کسی قابل شخص کا تکبر ایک نااہل شخص کے غرور کی  نسبت زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ ہمارے لیے اصل مسئلہ تکبر نہیں بلکہ اس قابل شخص کی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ (جن کا ہمارے اندر خود فقدان ہوتا ہے)

یہ اگست 2023 کی کسی تاریخ کا ایک مذاکرہ تھا، این ڈی ٹی وی پر ’جی 20 سمٹ‘ کے سلسلے میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر ایک مکالمے سے مخاطب تھے۔ پاکستان نے  ان دنوں انڈیا کے زیرانتظام جموں و کشمیر میں اسی سمٹ کی ایک کڑی کے انعقاد پر اعتراض اُٹھایا تھا کہ ’مقبوضہ وادی میں بین الاقوامی فورم کا انعقاد عالمی روایت کی خلاف ورزی ہے۔‘

میزبان نے جی20 سمٹ کے انعقاد سے لے کر جے شنکر کی قیاد ت میں عالمی افق پر انڈیا کی کامیابیوں کے ان گنت واقعات گنوانا شروع کر دیے، جے شنکر پھولے نہیں سما پا رہے تھے۔ تمام مصروفیات ترک کر کے توجہ دی کہ حیرت ہے کہ پوری بحث میں پاکستان کا ذکر تک نہیں۔

اسی اثنا میں میزبان نے پاکستان کے اس سمٹ بارے اعتراض کا سرسری سا حوالہ دیتے ہوئے کشمیر کے مدعے پر پاکستان کی پوزیشن  کا ذکر کیا، گھنٹوں طویل بحث کے دوران جے شنکر نے اس ایک مدعے پر عجب گھمنڈ کے ساتھ جواب دیا کہ کہ ’اگر آج کل دنیا پاکستان کی بات نہیں کر رہی تو میں کیا کہہ سکتا ہوں، لوزنگ سٹاک پر بھلا کون بات کرتا ہے؟‘

جے شنکر نے کہا کہ ’اگر آج کل دنیا پاکستان کی بات نہیں کر رہی تو میں کیا کہہ سکتا ہوں‘ (فوٹو: روئٹرز)شرکا ہنس دیے اور بات آگے نکل  گئی۔ پھر کوئی دس گیارہ ماہ پہلے غالباً  ’ایس سی او کانفرنس‘ کے سلسلے میں جے شنکر نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک بار پھر ایسے ہی کہا کہ ’پاکستان اب ہمارے لیے ایک سائڈ شو ہے۔‘

وقت بدلتے دیر نہیں لگتی، ’آپریشن سندور‘ کی مانگ میں پاک فضائیہ کی جانب سے چھ جنگی طیاروں  کا خون بھرا گیا اور آدم پور سے گجرات تک میزائلوں کی گھن گرج نے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تو عالمی قوتوں نے تسلیم کیا کہ انڈیا کی خطے میں تھانیداری ہوائی تھی۔ جس انڈیا کو چین کے مقابلے میں کھڑا کیا جارہا تھا وہ چند گھنٹوں میں ڈھیر ہوگیا۔  

ٹرمپ حرکت میں آئے ، جنگ بندی کروائی، بار بار دہرایا کہ یہ ان کا کریڈٹ ہے، پاکستان نے اعتراف کیا، انڈیا ٹال مٹول کرتا رہا۔ انڈین فوجی ذمہ داران البتہ پاکستان کے ہاتھوں ہوئے نقصانات اور ناقص جنگی حکمتِ عملی کا اعتراف کرتے رہے۔

مودی اور جے شنکر سمیت امیت شاہ اور راج ناتھ مگر اپنی انا کے اسیر بنے رہے۔ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی لے ڈوبی۔ لوک سبھا سے لے کر سوشل میڈیا تک، رائٹرز سے لے کر فرانسیسی اخبار لے موندے تک، دی ہندو سے لے کر نیو یار ک ٹائمز تک ہر جا ہر سو انڈیا کی ہزیمت کے چرچے تھے۔

سوداگر طبع ڈونلڈ ٹرمپ کہاں رکنے والے تھے۔ فوراً طیش میں آئے، انڈیا کی تھانیداری ہوا ہوئی تو مشکیں کسنے کا سوچ لیا۔ غلط جگہ انوسٹمنٹ اور برے نتائج ٹرمپ کی طبیعت پر انتہائی گراں گزرتے ہیں۔

روس سے تیل کی خریداری بند کرنے کا مشورہ دیا۔ ابتدائی طور پر 25 فیصد اور بعد ازاں مزید برہم ہوکر ٹیرف 50 فیصد کر دیا۔ سفارتی محاذ پر چند ماہ پہلے تک بھارتی کلاکاری اب مکمل طور پر ہیجان انگیز کیفیت سے دوچار ہے۔

ٹرمپ سرکار کے ساتھ مودی جی کی پریم کہانی کا انتتم سننسکار ہوگیا، اور اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں۔

واشنگٹن ڈی سی میں انڈین لابنگ کا کوئی متبادل نہیں ہوا کرتا تھا، اب صورتحال یہ ہے کہ ہر جا  لٹکے چہروں کے ساتھ انڈین مندوب اور ذمہ داران جے شنکر جی کو امریکی حکام کا ردعمل بذریعہ میل و سائفر لکھ کر ’لافنگ سٹاک‘ بنے ہوئے ہیں۔

’آپریشن سندور‘ کی مانگ میں پاک فضائیہ کی جانب سے چھ جنگی طیاروں  کا خون بھرا گیا (فوٹو: اے پی پی)عالمی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ہمارے یوسف نذر بتا رہے تھے کہ انڈیا ایک طویل عرصے بعد مشکل ترین اقتصادی دوراہے پر کھڑا ہے۔ بیچ منجدھار کشتی کا سنتولن ٹوٹ چکا۔ انڈیا کے ہاں روس سے سستے داموں تیل سالاناً باون بلین ڈالرز کا خریدا جاتا ہے جب کہ امریکہ کے ساتھ تجارت کا حجم 130 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

اس تجارت پر اب 50 فیصد ٹیرف کا مطلب ناقابلِ بیان ہے۔ مکمل طور پر امریکی بیعت یا پھر مودی کی انا کی بھینٹ چڑھ کر بھارتی معیشت کا دھڑن تختہ۔ تیسری آپشن باقی نہیں رہی۔ 50 فیصد ٹیرف سے البتہ ویتنام، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور پاکستان فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

ان کے بقول کہانی ٹیرف پر ہی ختم نہیں ہوگی بلکہ اب امریکہ انڈین آئی ٹی شعبے پر بھی سخت فیصلے کرنے جا رہا ہے۔ یعنی چالیس سے بیالیس بلین ڈالرز کی امریکہ کے ساتھ آئی ٹی تجارت کا ستیاناس بھی تقریباً طے ہوچکا۔

پچاس فیصد ٹیرف کی کہانی اور بھارتی معیشت پر اس کے ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد خاکسار ایک بار پھر این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ کھنگالنے پر مجبور ہوا۔ اگست 2023 کو اسی ٹی وی پر پاکستان بارے جے شنکر کی تصویر میں وہ مسکرا رہے تھے اور آج اسی ٹی وی کی ویب سائٹ پر ٹیرف کے اثرات کی وجہ سے جے شنکر لوزنگ سٹاک سے لافنگ سٹاک کی تصویر بنے سرخیوں کا حصہ تھے۔

نطشے نے خود اعتمادی بارے جو فرمایا تھا اس کا اطلاق امریکہ جیسی قوتوں پر تو ہوتا ہے مگر انڈیا پر نہیں۔ تھانیدار چھ جہاز گرائے جانے سے ہی وردی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ خواجہ آصف کی پرتگال کہانی البتہ پھر سہی۔ فی الحال انڈیا کی سبکی کا لطف لیجیے۔ ہمارے ہاں یہ سب معمول کی وارداتیں ہوچکیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More