گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ کی انتظامیہ نےوسطی ہنزہ، عطا آباد جھیل، بورتھ جھیل اور ڈوئیکر کے علاقوں میں نئیتعمیرات کے لیے جاری کیے گئے تمام نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹس (این او سی) منسوخ کر دیے ہیں۔
ہنزہ کی ڈپٹی کمشنر فلائٹ لیفٹیننٹ (ر) خوزیمہ انور کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام ماحولیاتی، صحت عامہ اور قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق یہ اقدام ماحولیاتی نظام کو نا قابل تلافی نقصان سے بچانے، ہوا اور پانی کیکوالٹی برقرار رکھنے اور دیرپا سیاحت کو قائم رکھنے کے لیے اٹھایا گیا۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
نوٖٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ عطا آباد جھیل سینٹرل ہنزہ کے لیے پانی کا واحد ذریعہ ہے، یہ علاقہ ماحولیاتی لحاظسے بہت حساس اور جھیل کے ماحولیاتی بفرزون میں آتا ہے۔
بورتھ جھیل کا علاقہ گلگت بلتستان فارسٹ ایکٹ، 2019 کے تحت محفوظعلاقہ ہے یہاں پر مقامی اور مہمان پرندوں کی آماجگاہیں ہیں۔ ڈوئیکر حساس ماحولیاتی پہاڑی علاقہ ہے اور اس کے ماحولیاتی نظام میںمزید مداخلت کی گنجائش نہیں۔
ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وسطی ہنزہ کے علاقوں کریم آباد، علی آباد اور آلتت کے علاقوں میں بھی تعمیرات پر پابندی ہو گی۔
Getty Imagesہوٹلوں میں ڈیزل سے چلائے جانے والے جنریٹرز صاف و شفاف فضا والے علاقے کی شہرت اور قدرتی طور پر مالا مال علاقے اور سیاحت کے لیے نقصان دہ ہے۔’دریائے ہنزہ کو آلودہ کیا جا رہا ہے‘
تعمیرات پر پابندیاں گلگت بلتستان کے محکمہ ماحولیات کی سفارشات پر لگائی گئی ہیں۔
محکمہ ماحولیات گلگت بلتستان کے مطابق وسطی ہنزہ میں فاضل پانی یا گٹر کے پانیکے اخراج کا سسٹم پرانا ہو چکا اور یہ سسٹم اب مزید دباؤ برداشت نہیں کر پا رہا، جس کے نتیجے میں اب پانی کے ذخائر اور دریائے ہنزہ کا پانی آلودہ ہو رہا ہے۔
پانی کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ گٹر یا آلودہ پانی، پینے کے پانی کو آلودہ کر رہا ہے جس سے مختلف بیماریاں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائیٹس اور اسہال وغیرہ بڑھ رہی ہیں۔ ضابطے کی کارروائیوں کی کمی کی وجہ سے عوام خطرات سے دوچار ہو رہے ہیں۔
محکمہ ماحولیات گلگت بلتستان کے مطابق ہوٹلوں میں ڈیزل سے چلائے جانے والے جنریٹرز کی وجہ سے ہونے والی فضائی آلودگی کی وجہ سے مقامی لوگوں اور سیاحوں میں سانس کے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
ہوٹلوں میں ڈیزل سے چلائے جانے والے جنریٹرز صاف و شفاف فضا والے علاقے کی شہرت اور قدرتی طور پر مالا مال علاقے اور سیاحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
محکمہ ماحولیات کا مزید کہنا ہے کہ وسطی ہنزہ میں ہوٹلوں کی تعداد گنجائش سے بڑھچکی ہے، محدود علاقے پر پہلے ہی کافی زیادہ بوجھ ہے اور مزید تعمیرات ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گی جس سے سیاحت اور سیاح بھی متاثر ہوں گے۔
Getty Imagesعطا آباد جھیل سنہ 2010 کے ابتدا میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں وجود میں آئی’ٹھوس فضلہ تباہی پھیلا رہا ہے‘
گلگت بلتستان کے محکمہ ماحولیات کی سفارشات میں کہا گیا کہ دوئیکر کا علاقہ اپنے پر سکون ماحول اور خوبصورتی کی وجہ سے جانا جاتا ہے مگر اس علاقے میں بے انتہا ہوٹل کھل رہے ہیں۔
’فاضل یا گٹر کا پانی تو ماحول کو نقصان پہنچا ہی رہا ہے مگر ٹھوس فضلہ، کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک وغیرہ بھی پہاڑوں کے قدرتی ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘
گلگت بلتستان کے محکمہ ماحولیات کے مطابق سیاحوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور بغیر منصوبہ بندی کے قائم ہونے والا انفراسٹرکچر قدرتی وسائل، پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
محکمہ ماحولیات نے عطا آباد جھیل کے علاقے میں ہوٹلوں کی تعمیر کو انسانی زندگیوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پانی کے اس ذخیرے کو صاف و شفاف رکھنا سب کی اولین ترجیح ہونے چاہیے۔
محکمہ ماحولیات بورتھ جھیل پر منفرد حیاتیاتی تنوع پایا جاتا ہے لیکن یہاں پر کشتی رانی کی بڑھتی ہوئی سرگرمی آبی ماحول اور آبی مخلوق کے لیے خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔
محکمہ گلگت بلتستان کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ بے ہنگم سیاحت کو ماحول دوست سیاحت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ مقامی کلچر محفوظ رہے گا بلکہ علاقے میں معاشی سرگرمیاں نچلی سطح تک جائیں گی۔
عطا آباد: قدرتی آفت سے جنم لینے والی پاکستان کی مشہور جھیل جس کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہےجب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘شیشپر گلیشئیر کی جھیل پھٹنے سے چار سال میں پانچ مرتبہ سیلاب آیا مگر ’حکومتی وعدے آج بھی پورے نہیں ہوئے‘پاکستان میں تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز خطرناک سیلابی ریلوں میں کیوں بدل رہے ہیں؟’صرف بائیس فیصد پانی محفوظ پایا گیا‘
سال 2021 میں پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبیلو آر) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کے چھ اضلاع، جن میں ہنزہ بھی شامل تھا، میں مجموعی طور پر پینے کے پانی کے 94 نمونے حاصل کیے گے تھے۔
اس تحقیق کے دوران صرف ان علاقوں میں موجود 22 فیصد پانی استعمال کے لیے محفوظ پایا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دریاؤں کا پانی 100 فیصد آلودہ ہے، قدرتی چشموں کا پانی 80 فیصد جبکہ گلیشیئر یا برف کے پگھلنے سے پیدا ہونے والا پانی 82 فیصد آلودہ ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ان اضلاع میں زیرِ زمین پانی کے نمونے 29 فیصد آلودہ تھے۔
گلگت بلتستان میں لوگوں کا زیادہ تر انحصار دریا، ندی نالوں اور چشموں کے پانی پر ہے۔ زمین سے پانی نکالنا ایک مہنگا عمل ہے جس کی وجہ سے لوگ اس سے اجتناب کرتے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران پانی کے زیادہ تر نمونے نلکوں سے حاصل کیے گئے تھے۔
ان میں 94 واٹر چینل، 56 قدرتی چشموں، سات زیرِ زمین پانی اور تین دریا یا جھیلوں کے نمونے شامل تھے۔
اس تحقیق کے دوران سب سے بڑا مسئلہ جراثیمی آلودگی کا پایا گیا تھا کیونکہ 68 فیصد نمونوں میں جراثیم پائے گئے تھے۔ ان نمونوں میں 19 فیصد گدلا پانی پایا گیا تھا جبکہ ان نمونوں میں 24 فیصد آئرن، سات فیصد ایلومینیئم اور دو فیصد فلورائیڈ بھی پایا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ زیادہ تر جرثومی آلودگی ممکنہ طور پر فاضل یا گندے پانی (گٹر) کے پینے کے پانی میں شامل ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برف اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے آنے والے پانی میں آلودگی پتھریلے ذرات اور دیگر چھوٹے مٹی کے ذرات کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پانی میں لوہا اور ایلومینمکی موجودگی کی وجہ وہاں کی جانے والی کان کنی ہو سکتی ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں یہ ایک اہم صنعت ہے۔
تحقیق کے مطابق پانی میں آئرن کی موجودگی کی ایک اور ممکنہ وجہ زنگ آلود نلکے یا پائپ ہو سکتے ہیں۔
Getty Imagesعقیلہ بابو کہتی ہیں کہ ہنزہ میں کبھی صرف مٹی، پتھر اور لکڑی سے تعمیرات ہوتی تھیں جو ماحول دوست اور خوبصورت تھیں’ماحول دشمن سیاحت کسی کے مفاد میں نہیں‘
گلگت بلتستان کے محکمہ ماحولیات کے ڈائریکٹر خادم حسین کے مطابق یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ’ماحول دشمن سیاحت کسی کے مفاد میں نہیں۔‘
’یہ نہ تو سیاحوں اور نہ ہی مقامی لوگوں کے مفاد میں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ گلگت سیاح گلگت بلتستان کا رُخ اس کے صاف و شفاف ماحول، خوبصورتی، بلند و بالا پہاڑوں اور گلیشیئر کی وجہ سے کرتے ہیں۔
’اگر ماحول دشمن اور بے ہنگم سیاحت سے ان سب کو نقصان پہنچتا ہے تو پھر اس علاقے میں کون آئے گا اور کیسے سیاحت سے مقامی لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گلگت بلتستان میں گلیشیئر سڑک کے کنارے واقع ہیں، یہ برسوں سے ادھر ہی ہیں مگر کئی سال سے ان کا حجم کم ہو رہا ہے جس کی ایکوجہ بڑھتی ہوئی تعمیرات، گاڑیوں کا رش اور بے ہنگم سیاحت ہے۔‘
’صرف ہنزہ ہو یا گلگت بلتستان کا کوئی اور علاقہ اس کو کنڑیکٹ کا جنگل بنانا اور ماحولیاتی تباہی پھیلانا ایک انتہائی خطرناک عمل ہے، اس کے نتائج خطرناک ہیں۔‘
خادم حسین مشورہ دیتے ہیں کہ مقامی افراد اپنے مکانات میں سیاحوں کے لیے مہمان خانے بنائیں اور یقیناً یہ سیاحوں کے لیے بھی ایک انوکھا تجربہ ہو گا جس سے مقامی افراد کا ذریعہ روزگار بھی برقرار رہے گا۔
ظہور الہٰی ہنزہ ہوٹل ایوسی ایشن کے سنیئر نائب صدر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ جب سیاحت ہو گی تو تعمیرات تو کرنا پڑیں گی مگر یہ تعمیرات کیسی اور کس طرح ہوں گی اس بارے میں سوچا اور فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس میں ہنزہ کے مقامی لوگوں کا مفاد عزیز رکھا جانا چاہیے۔ ہنزہ کے مقامی لوگ اگر کوئی آٹھ، دس کمروں پر ایک زیزورٹ بناتے ہیں تو اس کو ماحولیات بچانے کے قوانین پر عملدرآمد کرواتے ہوئے اس کی اجازت ہونی چاہیے۔‘
ظہور الہٰی نے کہا ’باہر سے آئے سرمایہ دار اگر کوئی بلند و بالا عمارت بناتے ہیں تو انھیں اس کی بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ انھوں نے الزام عائد کیا کہ باہر سے آنے والے سرمایہ کار صرف کاروبار کی نیت سے آتے ہیں اور ان کا مفاد صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ بڑی تعمیرات کر کے پیسے کمائیں اور یہ بلند و بالا تعمیرات ہی کی وجہ سے ماحول تباہ ہو رہا ہے۔‘
’بے ہنگم سیاحت ہنزہ کے حسن کو تباہ کر رہی ہے‘
سینٹرل ہنزہ کے علاقے علی آباد کی رہائشی اور سماجی وہ ماحولیاتی رہنما عقیلہ بابو کہتی ہیں کہ ہنزہ میں کبھی صرف مٹی، پتھر اور لکڑی سے تعمیرات ہوتی تھیں جو ماحول دوست اور خوبصورت تھیں لیکن اب پہاڑوں کے درمیان سیمنٹ اور سریا سے بنی بلند و بالا عمارتیں ہیں جو ہنزہ کے ماحول کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
عقیلہ بابو کا کہنا تھا کہ ہم سیاحت کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں مگر یہ کیسی سیاحت ہے جس میں ہنزہ میں روزانہ تین، چار ہزار گاڑیاں داخل ہو جاتی ہیں اور یہ دھواں چھوڑتی گاڑیاں ہنزہ جانے والے سارے راستے بند کر دیتی ہیں اور مقامی لوگوں کا اپنے روزمزہ کے معاملات ادا کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہکچھ سال پہلے تک ہنزہ کے لوگ اپنے مقامی قدرتی وسائل پر انحصار کرتے ہیں مگر اب وہ قدرتی وسائل اور زراعت ختم ہو رہے ہیں۔
عقیلہ بانو کا کہنا تھا کہ چند سال پہلے اور اب کا ہنزہ بدل چکا ہے اور بے ہنگم سیاحت ہنزہ کے حسن کو تباہ کر رہی ہے۔
’چند سال پہلے تک ہنزہ میں کوڑا کرکٹ نہیں ملے گا مگر اب کوڑا کرکٹ صاف نہیں ہوتا۔ چند سال پہلے تک ہنزہ میں سبزہ اور درخت تھے اور اب یہ ختم ہو رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سیاحت کریں مگر ہنزہ کی خوبصورتی اور ہنزہ کے ماحولیات کی تباہی کی بنیاد پر نہ کریں۔
شیشپر گلیشئیر کی جھیل پھٹنے سے چار سال میں پانچ مرتبہ سیلاب آیا مگر ’حکومتی وعدے آج بھی پورے نہیں ہوئے‘عطا آباد: قدرتی آفت سے جنم لینے والی پاکستان کی مشہور جھیل جس کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہےعطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا ایک حصہ سیل: غیر ملکی وی لاگر کی وائرل ویڈیو اور آلودہ پانی کا معاملہپاکستان میں تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز خطرناک سیلابی ریلوں میں کیوں بدل رہے ہیں؟جب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘پاکستان میں 2022 کے سیلاب کا ذمہ دار کون: گلیشیئرز کے پگھلاؤ کا کیا کردار ہے؟