Getty Imagesمناحم بیغن نے ستمبر 1978 میں انور سادات کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے
18 اپریل 2025 کو اسرائیلی اخبار دی یروشلم پوسٹ نے ایک اداریہ شائع کیا، جس میں بنیامین نیتن یاہو کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ’ضرورت پڑنے پر خود بھی اقدام اٹھائے، ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے اور انھیں جلد از جلد تباہ کر دے۔‘
اخبار نے اسرائیلی حکومت کو ان حملوں کی ترغیب دیتے ہوئے جو درحقیقت 13 جون کو ہوئے، لکھا کہ ’عقیدہ بیغن کو صرف ایک تاریخی واقعہ کی حیثیت سے یاد نہ رکھا جائے بلکہ اسے روزمرہ پالیسی کے طور پر اپنایا جانا چاہیے۔‘
عقیدہِ بیغن کیا ہے؟
یہ عقیدہ اسرائیلی وزیر اعظم مناحم بیغن (1977 سے 1983) سے منسوب ہے۔ وہ ایک دائیں بازو کے صیہونی رہنما تھے۔
بیغنکی پیدائش 1913 میں موجودہ بیلاروس میں ہوئی اور انھوں نے تعلیم پولینڈ میں حاصل کی۔
ان کی وفات 1992 میں تل ابیب میںپائی۔ وہ اسرائیل اور مصر کے درمیان 1979 میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کرنے کی وجہ سے مشہور ہوئے۔
بیغن کو 1978 میں مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد مصری صدر انور سادات کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔
1930 کی دہائی کے اوائل میں بیغن نے ایک مسلح تنظیم کی قیادت سنبھالی جسے ايرغون کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک انتہا پسند یہودی تنظیم جو برطانوی مینڈیٹ کی مخالفت کرتی تھی اور فلسطین میں عربوں سے دشمنی رکھتی تھی۔ یہ تنظیم دریائے اردن کے دونوں کناروں پر ایک یہودی ریاست کے قیام کی داعی تھی۔
1946 میں مناحم بیغن کی قیادت میں ايرغون نے یروشلم میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو بم سے اُڑا دیا۔ اس کارروائی میں برطانوی فوجیوں سمیت اکانوے افراد ہلاک ہوئے۔ بیغن برطانوی سکیورٹی حکام کو ’دہشت گردی‘ کے الزام میں مطلوب فرد بن گئے اور برطانیہ نے ان کی گرفتاری پر انعامی رقم بھی مقرر کی۔
1948 میں ايرغون تنظیم سے وابستہ ایک مسلح گروپ نے فلسطینی گاؤں دیر یاسین پر حملہ کیا جس میں کم از کم 100 افراد ہلاک ہوئے۔ ’دیر یاسین کا قتل عام‘ ان خونریز واقعات میں شامل تھا جس نے بہت سے فلسطینیوں کے اپنے گھربار چھوڑنے اور جان کے خوف سے نقل مکانی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
جہاں تک بیغن کے عقیدے کا تعلق ہے تو وہ ایک سٹریٹیجک اصول پر مبنی ہے جس کے مطابق اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسی ریاست کو جسے وہ دشمن سمجھتا ہے، جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روک دے۔
اس مقصد کے لیے وہ ان اہداف پر حملہ کر سکتا ہے جنھیں وہ ضروری سمجھے۔
بیغن کے عقیدے میں ایسی فوجی کارروائیوں کو’پیشگی دفاعی اقدام‘ کہا جاتا ہے۔
Getty Imagesاسرائیل کا ڈیمونا جوہری ری ایکٹر 1950 کی دہائی میں فرانس کی مدد سے بنایا گیا تھا
اسرائیلی وزیرِاعظم نے یہ عقیدہ پہلی بار 1981 میں پیش کیا جب انھوں نے کہا ’ہم کسی دشمن کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کرنے اور اپنے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
اس مقصد کے لیے انھوں نے سلامتی کا اصولی خاکہ پیش کیا جس پر ریاست کو عمل پیرا ہونا ہے اور جس میں اس بات کا عزم کیا گیا کہ ’ہم اپنے عوام کا دفاع ہر اُس ذریعے سے کریں گے جو ہمارے اختیار میں ہو۔‘
بیغن کے حامیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کو ’ان فوجی اہداف پر حملہ کرنے کا حق ہے جنھیں وہ اپنی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ سمجھتا ہے۔‘
ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’پیشگی حملے‘ اسرائیل کے مخالفین کو روکیں گے اور انھیں اسرائیل کے حملے کے خوف سے جوہری ہتھیار تیار کرنے سے خوفزدہ کر دیں گے۔‘
اپنے نظریے کو مضبوط کرنے اور فروغ دینے کے لیے بیغن نے اسے یہودی ہولوکاسٹ سے جوڑا۔۔۔ جولائی 1981 میں عراقی جوہری تنصیب پر فضائی حملے کو جائز قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر اسرائیل نے حملہ نہ کیا ہوتا تو یہودیوں کی تاریخ میں ایک اور ہولوکاسٹ رونما ہو سکتا تھا۔‘
’اسرائیلی ایٹم بم‘
کوئی بھی اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے بارے میں نہیں جانتا اور یقینی طور پر کوئی بھی اس بارے میں نہیں جان سکتا۔ اسرائیل اس حوالے سے معلومات خفیہ رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسرائیل نہ تو جوہری ہتھیار رکھنے کا اعتراف کرتا ہے اور ہی انکار لیکن اب یہ ایک ’کھلا راز‘ بن چکا ہے۔
سنہ 1999 میں اسرائیلی نژاد امریکی محقق ایونر کوہن نے ’اسرائیل اور بم‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب میں اسرائیل کے جوہری منصوبے کے حوالے سے اہم معلومات اور اہم شخصیات کے انٹرویو شامل تھے۔
محقق ایونر کوہن نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ اسرائیل نے پہلا جوہری بمسنہ 1967 میں اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ جنگ شروع ہونے سے ایک دن پہلے تیار کر لیا تھا۔
اسرائیل کا جوہری پروگرام ڈیوڈ بین گوریون نے شروع کیا تھا۔ یہ وہی شخص تھے جنھوں نے سنہ 1952 میں اسرائیل کے ایٹمی توانائی کے کمشین کی بنیاد رکھی تھی۔ اس میں فرانس نے ان کی مدد کی تھی۔
ایونر کوہن کے مطابق اسرائیل نے اپنے ملک اور بیرون ملک بھی جوہری پروگرام کو خفیہ رکھا تاکہ اس کے پڑوس میں واقع عرب ممالک خوف کا شکار نہ ہو جائیں۔
اسرائیل نے اسے امریکی انتظامیہ سے بھی چھپایا، جو اس وقت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے بارے میں فکر مند تھی۔
درحقیقت عقيدہِ بيغن سنہ 1960 کے ابتدائی برسوں سے موجود تھا۔ اسرائیل جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ’اپنے اختیار میں موجود تمام ذرائع‘ کے ساتھ کام کر رہا تھا تاکہ اپنے پڑوسیوں کی طرف سے اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنایا جا سکے۔
Getty Imagesورنر وان براؤن نازی پارٹی اور اس کی انٹیلیجنس سروس کے ایک اہم رکن تھے اور جرمن راکٹ انڈسٹری کو شروع کرنے والوں میں شامل تھےموساد کی خفیہ دستاویزات
سنہ 2022 میں موساد نے 40 برس پرانے کچھ دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کیا کہ کس طرح اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے 1962 میں ایک جرمن سائنسدان کا سراغ لگا کر اسے ہلاک کر دیا۔
یہ سائنسدان مصری صدر جمال عبدالناصر کے دور میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تیار کرنے کے مصری پروگرام کی نگرانی کر رہا تھا۔
ہنس کروگ ان سائنسدانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کی راکٹ انڈسٹری میں کام کیا تھا۔ نازیوں کے زوال کے بعد بہت سے ممالک جیسے امریکہ اور فرانس میں ان سائنسدانوں کو ملازمت دینے اور اپنی فوجی صنعت میں ان کی مہارت اور تجربے کو بروئے کار لانے کا مقابلہ شروع ہو گیا۔
شاید ان میں سے سب سے مشہور سائنسدان ورنر وان براؤن تھے، جو نازی پارٹی اور اس کی انٹیلیجنس سروس کے ایک اہم رکن تھے اور جرمن راکٹ انڈسٹری کو شروع کرنے والوں میں شامل تھے۔
سوویت یونین کے ساتھ دشمنی نے امریکہ کو ناسا میں اپنے راکٹ اور خلائی پروگراموں کی قیادت کے لیے وان براؤن کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور کیا۔
مصری حکام نے اس کے بدلے میں ہنس کروگ اور ان کے ساتھی سائنسدانوں کے ایک گروپ کو مقامی طور پر میزائلوں کی تیاری اور تیاری میں مدد کرنے پر آمادہ کیا۔
مصری پروگرام کے بارے میں معلومات اسرائیل کو پہنچ گئیں، جس نے اسے اپنی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ سمجھا۔ موساد کی دستاویزات کے مطابق اسرائیل نے ہر ممکن طریقے سے مصر کو روکنے کا فیصلہ کیا۔
اس مشن کا آغاز سائنسدانوں کو ڈرانے دھمکانے سے ہوا کہ وہ مصری حکومت کے ساتھ اپنا کام ترک کر دیں تاہم اس کا خاتمہ اغوا اور قتل پر ہوا۔
موساد کی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ کروگ کو میونخ کے قریب ایک جنگل میں اوٹو سکورزینی نامی ایک ایجنٹ نے قتل کر دیا۔
موساد کا ایجنٹ بننے سے پہلے سکورزینی نازی پارٹی اور اس کی انٹیلیجنس سروس کے رکن تھے اور ہٹلر کے قریبی ساتھی تھے۔
ستمبر 1943 میں اپنے دوست بینیٹو مسولینی کو جیل سے بچانے پر ہٹلر نے سکورزینی کو ’نائٹ کراس‘ سے بھی نوازا تھا۔
عراق کے لیے نیوکلیئر ری ایکٹر
فرانس نے اسرائیل کو 1950 کی دہائی میں ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی تھی کیونکہ وہ تیل کی وسیع دولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرب خطے میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا تھا۔
1960 کی دہائی سے پیرس نے بغداد کے ساتھ بھی تعلقات قائم کیے، جس کے ذریعے فرانس نے اپنی کمپنیوں کے لیے منافع بخش سودے کیے۔
سنہ 1975 میں ژاک شیراک کی حکومت نے صدام حسین کی حکومت کے ساتھ معاہدہ دستخط کیا، جس کے تحت فرانس نے عراق کے لیے نیوکلیئر ری ایکٹر بنانا تھا تاہم یہ منصوبہ چار برس تک شروع نہ ہو سکا۔
عراق نے سنہ 1970 میں جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شمولیت اختیار کی، جو اسے بجلی پیدا کرنے کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے تاہم اسرائیل جس نے ابھی تک اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے، صدام حسین کی حکومت کو اپنی سلامتی کے لیے براہ راست خطرے کے طور پر دیکھتا تھا۔
وہ شخص جسے اسرائیل کے جوہری پروگرام کا راز افشا کرنے پر دو دہائیاں جیل میں گزارنا پڑیں’دشمن کو ڈرانے کے لیے‘ امریکہ کے بعد دنیا میں کن ممالک نے جوہری ہتھیار حاصل کیے اور کون اس دوڑ سے دستبردار ہوامتنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہ’خطروں کا سوداگر‘: پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ایران کے جوہری پروگرام سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟’مشکوک کارروائیاں‘
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے باوجود فرانس اور عراق کے درمیان ری ایکٹر بنانے کے اس معاہدے کو متعدد دھچکوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
اس معاہدے کے آغاز سے ہی اسے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور ’تخریب کاری‘ کا نشانہ بنایا گیا جس کے ذمہ داران کی ابھی تک سرکاری طور پر شناخت نہیں ہو سکی۔
فرانس نے عراق کے لیے ایٹمی ریسرچ سینٹر بنانے اور 600 عراقی انجینیئرز کی تربیت کے عزم کا اعادہ کیا۔
اپریل 1979 میں ’تموز ون ری ایکٹر‘ کے لیے درکار سامان جنوب مشرقی فرانس کی بندرگاہ میں محفوظ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ 65 کلو گرام افزودہ یورینیئم بھی تھا۔
5 اور 6 اپریل کی درمیانی شب ایک گروپ سیاحوں کا روپ دھار کر بس کے ذریعے فرانس کے شہر تولون پہنچا۔
یہ سب لوگ بندرگاہ کی جانب بڑھے۔ ان میں سے پانچ بس سے اتر کی دیوار پر چڑھ گئے۔ یہ لوگ اس ویئر ہاؤس پہنچ گئے جہاں نیوکلیئر ری ایکٹر کے لیے سامان موجود تھا۔ ان لوگوں نے یہاں دھماکہ خیز مواد نصب کیا اور یہاں سے فرار ہو گئے۔
کچھ ہی منٹوں میں یہاں دھماکہ ہوا اور 60 فیصد سامان تباہ ہو گیا۔ اس سے 23 ملین ڈالر کا نقصان ہوا اور سامان کی ترسیل ایک سال کے لیے ملتوی ہو گئی۔
فرانسیسی تحقیقات میں کچھ سامنے نہیں آیا تاہم سنہ 2021 میں ایک اسرائیلی انجینیئر نے ہاریتز اخبار کو تصدیق کی کہ اس واقعے کے پیچھے موساد کا ہاتھ تھا۔
14 جون 1980 کو پیرس کے میریڈین ہوٹل میں صفائی کرنے والی ایک خاتون کو ایک کمرے میں مہمان کی لاش ملی۔ 48 برس کے مصری انجینیئر یحییٰ المشہد اس وقت عرب دنیا کے ممتاز جوہری سائنسدانوں میں سے ایک تھے۔
عراق کی اٹامک انرجی ایجنسی نے انھیں فرانسیسی حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے اپنی نمائندگی کا کام سونپا تھا۔ یحییٰ المشہد کو اگلے دن فرانسیسی حکام سے سامان وصول کر کے عراق پہنچانا تھا۔
ایک بار پھر فرانسیسی سکیورٹی تحقیقات سے قاتل یا ذمہ داران کی شناخت نہ ہو سکی۔
ایران عراق جنگ شروع ہونے کے چند دن بعد ایران کے فینٹم فور طیاروں نے ستمبر 1980 میں بغداد میں ایک نیوکلیئر ریسرچ کمپلیکس پر حملہ کیا تاہم اس حملے میں کمپیلکس کی عمارت محفوظ رہی اور کوئی نقصان نہیں ہوا۔
نیوکلیئر ری ایکٹر پر حملہ
لیکن عراق کا پروجیکٹ فرانس کے تعاون سے جاری رہا۔
اسرائیلی انٹیلیجنس رپورٹس کے مطابق ری ایکٹر نے سنہ 1981 میں فعال ہونا تھا لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل نے 10 مئی 1981 کو عراقی تنصیب پر حملے کی تاریخ مقرر کی تھی۔ یہ فرانس کے صدارتی الیکشن کے موقع پر ہوا۔
لیکن پھر اپوزیشن رہنما شمعون پیریس نے بیغن کو یہ حملہ موخر کرنے کا مشورہ دیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ اب یہ حملہ سات جون کو کیا جائے گا۔
7 جون 1981 کو آٹھ اسرائیلی ایف 16 طیاروں نے بغداد پر حملہ کیا اور ری ایکٹر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ اس کے بعد اسرائیلی طیارے بحفاظت اپنے اڈوں پر واپس آگئے اور عراق کا فضائی دفاعی نظام ان کا پتہ لگانے میں ناکام رہا۔
عراق نے اس حملے کے 24 گھنٹے بعد تک اس کا اعلان نہیں کیا لیکن پھر اسرائیل نے اس کا اعتراف کر لیا۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ ’یہ ری ایکٹر ہیروشیما پر پھینکے گئے بم جتنا بڑا بم تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ مہلک خطرہ تھا، جو اسرائیل کے لوگوں کو ڈرانے اور دھمکی دینے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔‘
اس اسرائیلی حملے میں ایک فرانسیسی شہری اور 10 عراقی مارے گئے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی شدید مذمت کی گئی کیونکہ یہ کسی نیوکلیئر ری ایکٹر پر پہلا حملہ تھا۔
اس حملے کے دو ہفتے بعد اسرائیل نے پہلی بار اعتراف کیا کہ وہ ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پھر سنہ 1986 میں اسرائیلی نیوکلیئر ٹیکنیشن موردیچائی وانونو کے بیانات نے اسرائیل کی جوہری طاقت بننے کی خفیہ کوششوں سے پردہ اٹھایا۔
Reuters2007 میں اسرائیل کی طرف سے نشانہ بنائے گئے شام کے جوہری ری ایکٹر کی تصویرفرانس کا افزودہ یورینیئم
چالیس سال بعد امریکہ کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ فرانس نے 25 جولائی 1980 کو پیرس میں ہونے والی ایک ملاقات میں امریکہ کو یقین دلایا تھا کہ مذکورہ ری ایکٹر اپنے ڈیزائن اور اس مواد کی وجہ سے جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا جو فرانس، عراق کو فراہم کر رہا تھا۔
فرانسیسی انجینیئر خفیہ طور پر اس یورینیئم کی کیمیائی ساخت کو تبدیل کر رہے تھے جو وہ عراق کو فراہم کر رہے تھے اور اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے مکمل طور پر غیر موزوں بنا رہے تھے۔
شام میں ’الکبار‘ ری ایکٹر
5 ستمبر 2007 کو رات 10:30 بجے ایف 16 جیٹ طیاروں نے جنوبی اسرائیل سے شام کے شہر دیر الزور کی جانب پرواز بھری۔
وہاں انھوں نے ایک کمپلیکس پر حملہ کیا، جسے اسرائیل نے ’شمالی کوریا کے ماہرین کی مدد سے شام کی طرف سے بنائے جانے والے جوہری ری ایکٹر کے منصوبے‘ کے طور پر بیان کیا۔
اس حملے میں درجنوں افراد مارے گئے تاہم سنہ 2018 تک اسرائیل نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کی مبینہ شامی ری ایکٹر پر حملے کی درخواست کو ’بغیر کوئی جواز پیش کیے‘ مسترد کر دیا۔
امریکی مشیر ایلیٹ ابرامز کے مطابق اس جواب پر وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا کہ ’اگر آپ ری ایکٹر پر حملہ نہیں کریں گے تو ہم خود یہ کر لیں گے۔‘
ایہود اولمرٹ نے سنہ 2018 میں کہا کہ ’جب ہمیں شام میں جوہری ری ایکٹر کا پتہ چلا تو ہم نے فوری طور پر اسے تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم اپنی سرحدوں پر یہ برداشت نہیں کر سکتے۔‘
یروشلم پوسٹ نے اولمرٹ کے اس مؤقف کی تعریف کی اور اسے بیغن عقیدہ کی عکاسی کے طور پر بیان کیا۔
یروشلم پوسٹ نے لکھا کہ ’جن لوگوں نے اسرائیل کو 2007 میں شامی ردعمل کے بارے میں خبردار کیا تھا، وہ غلط تھے۔ شام نے جواب نہیں دیا، بالکل اسی طرح جیسے عراق نے 1981 میں جواب نہیں دیا تھا۔‘
’اسلامی ایٹم بم‘Getty Imagesڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 2004 میں سرکاری ٹی وی پر اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے غیر قانونی طور پر جوہری راز دوسرے ممالک کو بیچے
مئی 1974 میں جب انڈیا نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا تو پاکستان نے کسی بھی قیمت پر جوہری توانائی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا قول ہے کہ ’ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔‘
ان کے عزائم کو مئی 1998 میں ایٹمی سائنسدان عبدالقدیر خان نے پورا کیا۔
پاکستان کا خیال ہے کہ اسرائیل نے 1970 کی دہائی سے ہی اس کے جوہری پروگرام کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ یورپی کمپنیاں، جو پاکستان کے ایٹمی پروجیکٹ کی مالی معاونت کر رہی تھیں، پر مشتبہ حملے کیے گئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہراساں کیا گیا اور انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
پاکستانی جنرل فیروز حسن خان نے اپنی کتاب ’وی ایٹ گراس‘ (We Eat Grass) میں لکھا کہ پاکستان کو خدشہ تھا کہ اسرائیل اور انڈیا مل کر کہوٹہ میں اس کی جوہری تنصیب پر حملہ کریں گے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ نے سنہ 1984 میں پاکستانی حکومت کو اس معاملے سے آگاہ کیا تھا۔
پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرنے کے لیے بیغین نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے رہنماؤں کو خط لکھنا شروع کیے۔ اس میں مئی 1979 میں برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کو بھیجا گیا خط بھی شامل تھا۔ اس خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ برطانوی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان کو جوہری مواد اور ٹیکنالوجی کی فراہمی پر پابندی لگائی جائے۔
اپنے جواب میں مارگریٹ تھیچر نے انھیں یقین دلایا کہ ان کی حکومت اس کے لیے پرعزم ہے تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کو بھی ’مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے بچنے کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل اور دیگر تمام ملکوں پر بھی لازم ہے کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا احترام کریں۔‘
سعودی عرب کا جوہری ہروگرام
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سنہ 2018 سے جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔
سنہ 2023 میں انھوں نے فاکس نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں ہر اس ملک کے بارے میں تشویش ہے جن کے پاس ایٹم بم ہے۔ اگر ایران ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گیا تو ہم بھی اسے تیار کریں گے۔‘
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکہ کے ساتھ مذاکرات اپنے جوہری پروگرام میں مدد سے مشروط کیے تھے تاہم اسرائیل نے اس شرط کو مسترد کر دیا اور کانگریس میں جو بائیڈن کے حامیوں نے بھی اس پر اعتراض کیا۔
بیغین عیقدہ اور اسرائیل کا اپنے دشمنوں کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کا ’حق‘ دراصل ’خطے کے دیگر ممالک کے حق‘ کے ساتھ متصادم ہے۔
سعودی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ترکی الفیصل کے اس حوالے سے ایک مضمون نے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر بحث کو جنم دیا۔ ترکی الفیصل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ ’جس طرح امریکی طیاروں نے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کی، ویسے ہی اسرائیل کے ڈیمونا جوہری ری ایکٹر کو بھی تباہ کیا جائے۔‘
جوہری توانائی کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیل اور امریکہ کے حملے ایران کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے عزم کو بڑھا سکتے ہیں اور اس سے مشرق وسطیٰ تباہ کن جوہری تصادم کی طرف جا سکتا ہے۔
Getty Imagesجاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا تھا’زمین کو تباہ کرنے والا ہتھیار‘
جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی بین الاقوامی مہم کا کہنا ہے کہ صرف ایک ایٹم بم ایک ہی لمحے میں لاکھوں لوگوں کو ہلاک کر سکتا ہے اور اس سے ماحول کو بھی تباہ کن نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نیویارک جیسے شہر میں ایک ایٹمی دھماکہ پانچ لاکھ 83 ہزار سے زیادہ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔
چین، فرانس، انڈیا، اسرائیل، شمالی کوریا، پاکستان، روس، برطانیہ اور امریکہ کے پاس مجموعی طور پر 12,300 سے زیادہ جوہری وار ہیڈز ہیں اور ایک وار ہیڈ کی طاقت امریکہ کی طرف سے جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرائے گئے بم سے بھی کہیں زیادہ اور مہلک ہے۔
مشرق وسطی میں جوہری ہتھیار رکھنے والا واحد ملک
مشرق وسطیٰ کا واحد ملک جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں وہ اسرائیل ہے۔ ترکی کے علاقے میں امریکہ کے جوہری ہتھیار رکھے گئے ہیں لیکن ترکی خود ان کا مالک نہیں اور نہ ہی ان پر کنٹرول رکھتا ہے۔ امریکہ اپنے جوہری ہتھیار بیلجیم، جرمنی، اور نیدرلینڈز جیسے دیگر ممالک میں بھی ذخیرہ کرتا ہے۔
روس نے بھی اپنے پڑوسی بیلاروس میں جوہری وار ہیڈز رکھے ہوئے ہیں۔ دیگر ممالک کے پاس خود جوہری ہتھیار نہیں اور نہ ہی وہ اپنے علاقے میں انھیں رکھتے ہیں مگر اپنے سیاسی اور فوجی اتحادی تعلقات کی بنا پر وہ اپنے ملک میں جوہری ہتھیاروں کی نقل و حمل یا ذخیرہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
یہ تمام ممالک جن میں نو ممالک جوہری ہتھیار رکھتے ہیں اور چھ دیگر ممالک انھیں اپنے علاقے میں ذخیرہ کرتے ہیں، کسی بھی فوجی تنازعے میں جوہری بم گرائے جانے پر متفق ہیں۔ روس نے اپنی یوکرین جنگ کے دوران مغرب کو دھمکی دی کہ وہ اپنے جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
اب تک دنیا کا واحد ملک جس نے جوہری ہتھیار استعمال کیے ہیں، امریکہ ہے۔ سنہ 1945 میں امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر پہلا ایٹمی بم گرایا جس سے تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد ناگا ساکی پر دوسرا بم گرا جس میں 80 ہزار افراد مارے گئے۔
قیامت خیز حملہ
اسرائیلی محقق ایونر کوہن کے مطابق اسرائیل دو مرتبہ اپنے عرب ہمسایوں کے خلاف جنگ میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے قریب پہنچا۔ پہلی بار 1967 کی جنگ کے دوران جب اسرائیلی قیادت نے مصر اور عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دینا چاہا کہ ان کے پاس ’قیامت خیز ہتھیار‘ ہے۔
جب 1973 میں اسرائیلی جوابی حملہ مصری فوجوں کے خلاف ناکام ہوا تو دفاعی وزیر موشی دایان نے 9 اور 17 اکتوبر کو جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی تجویز دی۔ وزیراعظم گولڈا میر نے بظاہر یریحو میزائلوں کو ہٹا کر ان پر جوہری وار ہیڈز نصب کرنے کی منظوری دی مگر آخری لمحے میں پیچھے ہٹ گئے۔
نیوکلیئر ہتھیاروں کی روک تھام کی بین الاقوامی مہم کے تخمینوں کے مطابق روس کے پاس تقریباً 5449 نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں جبکہ امریکہ کے پاس تقریباً 7277 وار ہیڈز ہیں جن میں سے 20 مشرق وسطیٰ کے ملک ترکی میں رکھے گئے ہیں۔
اس مہم کے مطابق اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کا تخمینہ کم از کم 90 وار ہیڈز ہے حالانکہ اسرائیل اصل تعداد ظاہر نہیں کرتا۔ اسرائیل بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی نگرانی کے زیرِ اثر بھی نہیں۔ اس طرح مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور امریکہ کے قبضے میں 110 سے زائد نیوکلیئر وار ہیڈز موجود ہیں۔
’66 ملین افراد کو نسل کشی کا خطرہ‘
ماہرین کے مطابق یہ تمام جوہری وار ہیڈز صرف چند سیکنڈ میں چھ کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کو ہلاک کر سکتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شام، اردن، اسرائیل اور فلسطین کی تمام آبادی صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے اور کوئی بھی نہیں بچے گا یا یہ ترکی اور ایران کی 80 فیصد آبادی کو بھی ختم کر سکتے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کو ختم کرنے کی بین الاقوامی مہم کے اندازوں کے مطابق اسرائیل اور امریکہ کے پاس مشرق وسطیٰ میں محفوظ جوہری وار ہیڈز الجزائر، تیونس، لیبیا اور موریطانیہ کی مشترکہ آبادی یا سعودی عرب اور دیگر تمام خلیجی عرب ریاستوں کی ساری آبادی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اگر روس اور امریکہ کے درمیان برہ راست جوہری جنگ شروع ہو جاتی ہے تو اس سے بھی لاکھوں لوگ مر جائیں گے جبکہ تابکاری بیماریوں اور پیدائشی نقائص میں اضافے کا سبب بھی بنے گی۔ اس کے نتیجے میں ہونے والی ماحولیاتی تباہی عالمی قحط کا باعث بنے گی جس سے دنیا بھر میں اربوں لوگ متاثر ہوں گے۔
وہ شخص جسے اسرائیل کے جوہری پروگرام کا راز افشا کرنے پر دو دہائیاں جیل میں گزارنا پڑیںاسرائیل: مشرقِ وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت جو ’جوہری ابہام‘ کی پالیسی کے ذریعے دہرا فائدہ حاصل کر رہی ہےجوہری ہتھیاروں کا مخالف وہ ملک جس نے کبھی خود بھی ایٹم بم بنانے کی کوشش کی تھیمتنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہ’خطروں کا سوداگر‘: پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ایران کے جوہری پروگرام سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟’تہران اب بھی ایٹمی ہتھیار کے لیے افزودہ یورینیئم تیار کر سکتا ہے‘: امریکی حملے سے ایرانی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان ہوا؟