عالمی طاقتوں کے بیچ دنیا کے پراسرار خطے پر غلبے کی جنگ اور بڑھتی ہوئی جاسوسی کی کارروائیاں جو اب خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں

بی بی سی اردو  |  Jul 15, 2025

BBCجیسے جیسے آرکٹک میں تصادم کے خطرات زور پکڑ رہے ہیں، ویسے ویسے یہاں موجود سکیورٹی کا نازک سا توازن بھی خطرے کا شکار ہو رہا ہے

حالیہ دنوں میں دنیا کی عظیم طاقتوں کے درمیان آرکٹک (قطب شمالی) پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گرین لینڈ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف روس آرکٹک میں اپنے فوجی اڈوں کو جدید خطوط پر استوار کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کے برف توڑنے والے بڑے بحری جہاز آرکٹک کے علاقے میں نئے سمندری راستے کھوجنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اور ان تمام ممالک کی اپنی اپنی کوششوں کے بیچ اس خطے میں موجود مختلف ممالک کے جاسوس بے نقاب ہو رہے ہیں۔

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔

آرکٹک یعنی قطب شمالی ہماری زمین کا ایک ایسا پراسرار خطہ ہے جو بحر منجمد شمالی کے وسط میں برف کی مسلسل حرکت میں رہنے والی چادر کی طرح ہے۔ یہ کسی کی ملکیت نہیں تاہم اس کے دعویدار کافی ہیں۔

لیکن جیسے جیسے دنیا کے اس سرد ترین خطے میں تصادم کے خطرات زور پکڑ رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی یہاں موجود سکیورٹی کا نازک سا توازن بھی خطرے کا شکار ہو رہا ہے۔

قطب شمالی میں موجودہ حالات نے ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ بھی شروع کر دی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا گرین لینڈ پر اپنے قبضے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں امریکہ کی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے گرین لینڈ کی ضرورت ہے۔ مجھے یہ بات بہت عرصے سے بتائی جا رہی ہے۔‘

مگر یہاں اہم سوال یہ ہے کہ فقط 56 ہزار نفوس پر مشتمل آبادی والا یہ خطہ اتنا اہم کیوں ہے؟ اس کا جواب اس کے خطے کے جغرافیے میں پوشیدہ ہے۔

امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں جوہری ہتھیار خوف اور ڈر کا توازن برقرار رکھنے والے جنگ کے حتمی ہتھیار تھے۔ اور ان ہتھیاروں کے اپنے اہداف تک پہنچنے کا تیز ترین راستہ قطب شمالی کے اوپر سے ہو کر گزرتا تھا۔

سرد جنگ کے آغاز میں امریکہ نے گرین لینڈ کے انتہائی شمال میں ایک بڑا فوجی اڈہ بنایا تھا، جسے پہلے ’تھیول‘ کہا جاتا تھا لیکن حال ہی میں اس کا نام بدل کر ’پیٹوفک سپیس بیس‘ رکھا گیا ہے۔

سنہ 2008 میں جب میں نے اس اڈے کا دورہ کیا تھا تو وہاں ایک بہت بڑا ریڈار کسی دیو ہیکل سنتری کی طرح موجود تھا۔ اس ریڈار کا رُخ شمال کی طرف آنے والی کسی بھی چیز کو ٹریک کرنے کے لیے خلا کی طرف تھا۔

اس فوجی اڈے کے اندر موجود امریکی حکام نے بتایا کہ وہ کیسے اس ریڈار کی مدد سے خلا سے آنے والے معمولی اجسام، یہاں تک کہ ایسی اشیا جن کا سائز ٹینس بال جتنا ہوتا ہے، کی حرکت کو دیکھ سکتے ہیں۔

BBCبی بی سی کے سکیورٹی تجزیہ کار گورڈن کوررا نے 2008 میں گرین لینڈ میں موجود امریکی فوجی اڈے کا دورہ کیا تھا

سرد جنگ بھلے ہی ختم ہو گئی ہو لیکن اس جگہ کی اہمیت آج بھی کم نہیں ہوئی۔ یہ سائٹ آج بھی امریکہ کے بیلسٹک میزائل ارلی وارننگ سسٹم (بی ایم ای ڈبلیو ایس) کا ایک اہم حصہ ہے۔

ٹرمپ نے گذشتہ دنوں امریکہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ’گولڈن ڈوم‘ نامی دفاعی نظام بنانے کے ادارے کا اظہار کیا تھا، جو کہ اسرائیل کے آئرن ڈوم جیسا ہو سکتا ہے اور جس کا مقصد اسرائیل کو میزائل حملوں سے محفوظ رکھنا ہے۔

اور ایسے کسی بھی سسٹم کی کامیابی کے لیے پیشگی (ارلی) وارننگ سائٹس اہم ہوں گی اور اگر اسی تناظر میں گرین لینڈ کی بات کی جائے تو دفاع اور حملے، دونوں ہی صورتوں میں، یہ (گرین لینڈ) بطور ایک مضبوط فارورڈ فوجی اڈے کے طور پر بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

سابق آسٹریلوی دفاعی افسر اور اس خطے پر کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر الزبتھ بکانن کہتی ہیں کہ ’گرین لینڈ امریکہ کے لیے زمین کا ایک بہت پرکشش ٹکڑا ہے۔ یہ امریکی سرزمین کے لیے ایک جغرافیائی انشورنس پالیسی ہے۔ لہٰذا اس میں تعجب کی بات نہیں ہے کہ اسے ہمیشہ دفاع کی پہلی سرحد کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔‘

روس اس بارے میں پریشان رہتا ہے کیونکہ وہ طویل عرصے سے یہ سوچ کر بے چین ہے کہ امریکہ کا میزائل ڈیفنس سسٹم روس کے ’جوہری ڈیٹرنس‘ کو کمزور کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ معاملہ امریکہ کے اتحادیوں کو بھی اس سے دور کر رہا ہے۔

گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنا امریکہ کی خواہش ہو سکتی ہے۔ لیکن یورپی ممالک اس بات سے پریشان ہیں کہ روس کے خلاف بننے والا فوجی اتحاد نیٹو ایسی صورتحال سے کیسے نمٹے گا جبکہ اس کا ایک طاقتور رُکن، امریکہ، گرین لینڈ پر اپنا دعویٰ پیش کرنے لگا ہے۔

سمندروں میں کشیدگی بڑھنے کا امکانGetty Imagesناروے کے ساحل پر نیٹو کی مشقوں کے دوران رائل نارویجن نیوی کی ایک آبدوز

روس اس خطے کا بہت اہم کھلاڑی ہے۔ اس کی سرزمین کا پانچواں حصہ قطب شمالی کے علاقے پر محیط ہے اور قطب شمالی کے ساحل کا نصف سے زیادہ حصہ صرف روس کی حدود میں آتا ہے۔

جب آرکٹک میں فوجی موجودگی کے بڑھنے کی بات آتی ہے تو روس سب سے زیادہ پریشان ہوتا ہے۔ روس وہ ملک ہے جو یہاں ہونے والی ترقی سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے۔

جب کہ مغربی طاقتیں اس خطے میں کافی حد تک پیچھے ہٹ رہی ہیں، روس نے گذشتہ کئی سالوں کے دوران اس خطے میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔

اس میں ناگورسکوئے جیسے ایئر بیس کو اپ گریڈ کرنے کا کام بھی شامل ہے، جو سرد جنگ کے بعد سے کام کر رہا ہے۔ اور اب یہ ایئربیس انتہائی شمال اور انتہائی سرد علاقے میں بڑے طیاروں کی آمد و رفت کو بھی سنبھال سکتا ہے۔

یہ ’کولا جزیرہ نما‘ ہے جہاں روس کے ایٹمی آبدوزوں کے بیڑے کا ایک بڑا حصہ تعینات ہے۔ روسی آبدوز اپنے اڈے چھوڑ کر آرکٹک کے خطے میں برف کے نیچے چھپ جاتی ہیں اور حملے کا حکم ملتے ہی وہ اپنے ہدف پر حملہ کرتی ہیں۔

ماسکو اسے اپنی ’نیوکلیئر ڈیٹیرنس‘ اور فوجی طاقت کی صلاحیت کے لیے انتہائی اہم سمجھتا ہے۔

ناروے کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ وائس ایڈمرل نیلس آندرے سٹینوسیس نے جون میں مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سویڈن اور فن لینڈ کے نیٹو میں شامل ہونے کے بعد بحیرہ بالٹک روسی فوجی کارروائیوں کے لیے کم قابل رسائی علاقہ بن گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب اس کا شمالی بیڑہ روس کے لیے پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اور اب اس (روس) کا جوہری ڈیٹرنس پر زیادہ انحصار ہے۔ اس کے جوہری ہتھیاروں کا ایک بڑا حصہ آرکٹک کے کولا جزیرہ نما میں موجود ہے۔‘

وائس ایڈمرل سٹینوسیس کے مطابق روس خود یہ سمجھتا ہے کہ آرکٹک کے علاقے میں کشیدگی کو کم رکھنا اس کے مفاد میں ہے تاکہ یہ خطہ زیادہ ملیٹررائزڈ نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یوکرین کے ساتھ جنگ میں مشغول روسی فوج پر دباؤ بڑھے گا۔

روس کے خدشاتGetty Imagesروس کا ’ناگورسکوئی‘ اڈہ ’فرانز جوزف لینڈ‘ نامی علاقے میں ہے جو کہ ایک ویران اور برف سے ڈھکا ہوا جزیرہ نما ہے

روس یہاں اپنی فوجی موجودگی بڑھا رہا ہے۔ وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کا الزام ہے کہ مغربی ممالک آرکٹک میں فوجی موجودگی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ یہ صورتحال روس کے لیے تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔

سٹینوسیس کہتے ہیں کہ ’یہاں کشیدگی کے بڑھنے کا خطرہ حقیقی ہے۔‘

ناروے کشیدگی کم کرنے پر زور دیتا رہا ہے لیکن دیگر ممالک دیگر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

ڈنمارک کے حالیہ انٹیلیجنس مشاہدے میں خبردار کیا گیا ہے کہ روس ’جارحانہ انداز اور دھمکی کے ذریعے اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کر سکتا ہے جس سے آرکٹک میں پہلے سے کہیں زیادہ کشیدگی اور تصادم کا خطرہ بڑھنے کا خدشہ ہے۔‘

’مفادات کا ٹکراؤ‘: برف سے ڈھکے آرکٹک خطے میں اثر و رسوخ کی لڑائی جس میں عالمی طاقتیں آمنے سامنے ہیںبحری بیڑوں کی پراسرار حرکت، سکستھ جنریشن طیارے اور فوجی مشقیں: چین کیسے امریکہ کی ’جزیروں کی زنجیر‘ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے؟چین ’فوجی سفارت کاری‘ کے ذریعے خطے میں بڑھتے امریکی اثرو رسوخ کا مقابلہ کیسے کر رہا ہے؟روس کا جوہری ڈاکٹرائن کیا ہے اور اس میں نئی تبدیلیوں کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کیا مطلب ہے؟

سوالبارڈ جزیرہ نما ایک اور حساس جگہ ہے جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت ناروے کے پاس ان جزائر کا انتظامی کنٹرول ہے۔

لیکن روس سمیت کئی دوسرے ممالک کو وہاں سرگرمیاں کرنے کی اجازت ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ اس خطے کو ملٹرائز کیا جا رہا ہے جو اس کے لیے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔

برطانیہ کی سرگرمیوں میں اضافہ

برطانیہ رسمی طور پر آرکٹک میں طاقت کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن اس خطے میں روس کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی سرگرمیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس کی ایک تاریخی وجہ ’جی آئی یوکے گیپ‘ ہے جو ایک مبہم خطہ ہے لیکن حکمت عملی کے لحاظ سے یہ بہت اہم ہے۔

اگر روس کا شمالی بحری بیڑہ بحر اوقیانوس تک آسانی سے پہنچنا چاہتا ہے تو اسے اس تنگ آبی گزرگاہ یعنی جی آئی یوکے گیپ سے گزرنا ہو گا جو گرین لینڈ اور برطانیہ کے درمیان واقع ہے جبکہ بیچ میں آئس لینڈ آتا ہے۔

یہ خطہ دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی اہم تھا، کیونکہ امریکہ نے نازی جرمن آبدوزوں کا مقابلہ کرنے کے لیے گرین لینڈ میں ایک فوجی اڈہ قائم کیا تھا۔

یہ ’چوک پوائنٹ‘ یعنی تنگ راہداری سرد جنگ کے بعد سے آج تک آبدوزوں کی آمد و رفت کا ایک اہم مقام رہا ہے۔

نیٹو نے آبدوزوں کی نشاندہی کرنے کے لیے علاقے میں زیر آب سینسرز لگانے کا کام کیا ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے رواں سال مئی کے آخر میں آرکٹک کا دورہ کیا اور آئس لینڈ کے ساتھ ایک نئے مشترکہ منصوبے کا اعلان کیا۔

اس کے تحت دشمن کی کسی بھی سرگرمی پر نظر رکھنے کے لیے ’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال کیا جائے گا۔ اس کا دوسرا مطلب روسی آبدوزوں اور جہازوں پر نظر رکھنا ہے۔

اگرچہ برطانیہ خطے میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے لیکن ایک حالیہ پارلیمانی رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ برطانیہ کے پاس آبدوزوں، سمندری نگرانی کے طیاروں یا فضائی انتباہی نظام جیسے اہم فوجی وسائل کی کمی ہے، جو آرکٹک پر زیادہ توجہ دینے کے لیے ضروری ہیں۔

BBCبرطانیہ اور گرین لینڈ کے درمیان تنگ آبی گزرگاہ برطانیہ کو بالواسطہ قطب شمالی کے لیے سرگرم کر رہی ہے

حالیہ یو کے سٹریٹجک ڈیفنس ریویو میں آبدوزوں کی تعداد بڑھانے کا وعدہ کیا گیا ہے، لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس حوالے سے مزید اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

وزارت دفاع کے سابق سینیئر عہدیدار پیٹر واٹکنز کہتے ہیں کہ ’آرکٹک ایک ایسا خطہ ہے جہاں امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے سکیورٹی مفادات واضح طور پر بڑھتے اور ہم آہنگ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔‘

’ایک اہم یورو-اٹلانٹک طاقت ہونے کے ناطے آرکٹک کے لیے برطانیہ کی مزید توجہ اور وسائل حاصل ہونے چاہییں۔‘

تاہم، ڈیوڈ لیمی کے دورے سے متعلق بعض سرخیاں جیسے ’برطانیہ کا روس کو آرکٹک پر قبضے سے روکنے کا منصوبہ‘، ماسکو کو ناراض کر سکتی ہیں۔ روس اگرچہ خطے میں اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے لیکن وہ دوسروں کو ایسا کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔

ڈنمارک کی ایک حالیہ انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق: ’روس دوسرے ممالک کو آرکٹک میں اپنی پوزیشن کو خطرے میں ڈالنے سے روکنے کی کوشش کرے گا، اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ روس مغربی ممالک کی عسکری سرگرمیوں پر جارحانہ ردِعمل ظاہر کرے گا۔!

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’روس اب آرکٹک میں زیادہ خطرناک اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے اور اس کا رویہ مزید جارحانہ اور محاذ آرائی پر مبنی ہو گیا ہے۔‘

پولر ’سِلک روڈ‘ پر بڑھتا ہوا تنازعGetty Imagesچینی آئس بریکر ’شیو لانگ 2‘ نے سنہ 2019 کے بعد سے کئی آرکٹک مہموں میں حصہ لیا ہے

آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے آرکٹک-اٹلانٹک میں ایک نیا سکیورٹی بحران پیدا ہو رہا ہے۔

برطانیہ کے ’سٹریٹجک ڈیفنس ریویو‘ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال موسم گرما میں آرکٹک کا بالائی حصہ برف سے کم ہوتا جائے گا اور سنہ 2040 تک یہاں سے برف ختم ہو جائے گی۔ لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اندازہ اس تبدیلی کی رفتار کو کم بتا رہا ہے۔

روس کی معیشت کا تقریباً دسواں حصہ آرکٹک کےقدرتی وسائل پر مبنی ہے اور برف کے پگھلنے سے نہ صرف وسائل کا حصول ممکن ہو رہا ہے بلکہ روس کی سلامتی کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں، کیونکہ اسے اب مزید آرکٹک علاقوں کا دفاع کرنا پڑے گا۔ اس سے خطے میں عسکری سرگرمیاں اور ہتھیاروں کی دوڑ کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

یہی وہ موقع فراہم کرتا ہے جب چین بھی میدان میں آتا ہے۔

چین نے خود کو ’آرکٹک سے قریب ریاست‘ قرار دیا ہے، حالانکہ وہ اس خطے سے کافی فاصلے پر واقع ہے اور اس کا آرکٹک سے کوئی ساحلی علاقہ نہیں ملتا ہے پھر بھی وہ یہاں تیزی سے سرگرم ہو رہا ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ برف کے پگھلنے سے شمالی راستے سے نئی تجارتی گزرگاہیں کھلنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

چین کے لیے ایک نیا ’پولر سلک روڈ‘ نہ صرف تیز تر بلکہ ممکنہ طور پر زیادہ محفوظ تجارتی راستہ فراہم کر سکتا ہے، جو سویز نہر کے مقابلے میں بہتر متبادل ہو سکتا ہے۔ اسی لیے چین اس خطے میں اپنی طاقت اور اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہی بات واشنگٹن کو بھی تشویش میں مبتلا کر رہی ہے کیونکہ امریکہ اور چین کے درمیان عالمی سطح پر جاری مقابلہ اب آرکٹک تک پھیل چکا ہے، جہاں اثر و رسوخ اور وسائل پر کنٹرول ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر الزبتھ بیکنن کہتی ہیں کہ ’بیجنگ نے ایک ملا جلا طریقہ اپنایا ہے، جس کے تحت وہ اعلیٰ تعلیم، سائنسی مشن، ماحولیاتی تعاون، بین الاقوامی ماہی گیری کے معاہدے اور دو طرفہ سٹریٹجک شراکت داری جیسے ذرائع سے آرکٹک سے اپنے تعلقات استوار کر رہا ہے۔‘

’یہ سب اقدامات آرکٹک خطے میں چین کی موجودگی کو معمول کی سرگرمی بناتے جا رہے ہیں، اور آہستہ آہستہ بیجنگ کو آرکٹک ریاستوں کا ترجیحی شراکت دار بنا رہے ہیں۔‘

بیجنگ نے اپنے پہلے سے بڑے آئس بریکر بحری بیڑے کو تیزی سے مزید وسعت دی ہے، اور چین و روس نے مل کر الاسکا کے قریب بیئرنگ سی میں ایک مشترکہ گشت بھی کیا ہے۔ تاہم، روس خود بھی چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان ہے، کیونکہ وہ آرکٹک کو اپنے دائرہ اثر کا حصہ سمجھتا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے حال ہی میں روسی سکیورٹی سروس کی لیک ہونے والی دستاویزات شائع کیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ روس کو شبہ ہے کہ چینی جاسوس کان کنی کی کمپنیوں اور علمی تحقیق کے نام پر آرکٹک میں جاسوسی کر رہے ہیں۔

آرکٹک جاسوسی کا گڑھ بنتا جا رہا ہےBBCآرکٹک خطے میں اب مختلف ممالک کی طرف سے جاسوسی کی سرگرمیوں میں اضافہ نظر آ رہا ہے

آرکٹک ہمیشہ سے خفیہ معلومات کے حصول کے لیے ایک اہم خطہ رہا ہے، خاص طور پر ’سگنلز انٹیلیجنس‘ کے حوالے سے، جس کا مطلب ہے دیگر ممالک کی مواصلاتی سرگرمیوں کو خفیہ اڈوں کے ذریعے حاصل کرنا۔ تاہم، جاسوسی کی دیگر اقسام میں بھی اب اضافہ ہو رہا ہے۔

سنہ 2022 میں ناروے میں ایک مشتبہ روسی خفیہ ایجنٹ کو گرفتار کیا گیا تھا جو خود کو برازیلین ماہر تعلیم ظاہر کر رہا تھا اور آرکٹک امور پر تحقیق کا ماہر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا۔

اسی دوران آرکٹک کے مختلف علاقوں میں مشتبہ روسی ڈرونز کی پروازوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایک بڑی تشویش یہ ہے کہ روسی انٹیلیجنس آرکٹک کے گرد و نواح میں موجود مقامی برادریوں کی سیاست میں مداخلت کر کے وہاں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔

اور صرف روسی جاسوس ہی یورپی ممالک کی پریشانی کا باعث نہیں ہیں۔ حالیہ مہینوں میں یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ امریکہ نے گرین لینڈ میں اپنی انٹیلیجنس سرگرمیاں بڑھا دی ہیں کیونکہ یہ ڈنمارک کے زیرِ انتظام ہے۔ یہ کوشش شاید اس لیے کی جا رہی ہے کہ یہ جانا جا سکے کہ آیا روس اور چین خفیہ طور پر اس جزیرے پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ان انکشافات پر ڈنمارک میں شدید ناراضگی کا اظہار کیا گيا ہے۔

کوپن ہیگن میں بطور احتجاج ایک امریکی سفارتکار کو ڈنمارک کی وزارتِ خارجہ میں طلب کیا گیا۔ ڈنمارک کے وزیراعظم نے کہا کہ ’آپ کسی اتحادی کے خلاف جاسوسی نہیں کر سکتے۔‘

یورپی ممالک کے لیے روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ ساتھ اپنے امریکی اتحادی پر مکمل انحصار کے خدشات نے اس بات پر بحث چھیڑ دی ہے کہ انھیں اس صورتِحال میں کس طرح کام کرنا چاہیے۔

سویڈن کی ڈیفنس ریسرچ ایجنسی کے نائب ڈائریکٹر نکلاس گرین ہوم کہتے ہیں کہ ’چین، روس اور امریکہ تین عالمی طاقتیں ہیں جو آرکٹک میں آمنے سامنے آ رہی ہیں، اور اب یہاں سخت مقابلہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ باقی دنیا کو اس کا سامنا کرنا ہو گا اور خود کو اس کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔‘

کچھ ممالک اس کے جواب میں عسکری تعاون بڑھانے کے حق میں ہو سکتے ہیں، جبکہ دیگر کو خدشہ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنا صورتِحال کو مزید بگاڑ دے گا۔

ماضی میں جو ممالک آرکٹک کو جیوپولیٹیکل کشمکش سے الگ رکھنا چاہتے تھے ان کا نعرہ تھا ’ہائی نارتھ، لو ٹینشن۔‘

لیکن برف کے پگھلنے، عدم تحفظ اور جارحانہ رویّوں کے امتزاج کی وجہ سے اب یہ دور ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔

اور اگرچہ شاید کوئی بھی ملک آرکٹک کو عسکری خطہ نہیں بنانا چاہتا، لیکن حالات یہی اشارہ دے رہے ہیں کہ وہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔

روس کا جوہری ڈاکٹرائن کیا ہے اور اس میں نئی تبدیلیوں کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کیا مطلب ہے؟’مفادات کا ٹکراؤ‘: برف سے ڈھکے آرکٹک خطے میں اثر و رسوخ کی لڑائی جس میں عالمی طاقتیں آمنے سامنے ہیںبحری بیڑوں کی پراسرار حرکت، سکستھ جنریشن طیارے اور فوجی مشقیں: چین کیسے امریکہ کی ’جزیروں کی زنجیر‘ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے؟چین ’فوجی سفارت کاری‘ کے ذریعے خطے میں بڑھتے امریکی اثرو رسوخ کا مقابلہ کیسے کر رہا ہے؟جنگ کے شعلوں میں گِھرے مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعے کا خاتمہ کیسے ممکن ہو گا؟سوویت دور کا پراسرار تیرتا ہوا شہر جو غرقاب جہازوں پر آباد ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More