تجارتی ہتھیار، ’ٹرمپ سے مایوسی‘ اور روس: کیا انڈیا چین سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 11, 2025

Getty Images

کئی برسوں سے جاری سرحدی کشیدگی کے بعد انڈیا اور چین بتدریج باہمی تعلقات کی بحالی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن بڑے چیلنجز اور شکوک و شبہات اب بھی پائے جاتے ہیں۔

گذشتہ ماہ کے آخر میں دو سینیئر انڈین عہدیداروں کے دورہ چین کو دو طرفہ تعلقات میں برف پگھلنے کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

جون میں انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاسوں کے لیے چین کے علیحدہ علیحدہ دورے کیے۔

ایس سی او 10 رکنی ’یوریشین‘ سکیورٹی گروپ ہے جس میں چین، روس، ایران اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ راج ناتھ سنگھ کا پانچ برسوں میں کسی سینیئر انڈین عہدیدار کا چین کا یہ پہلا دورہ تھا۔

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔

انڈیا اور چین کشیدگی کی ایک بڑی وجہ 3,440 کلومیٹر طویل متنازع سرحد ہے۔ سرحد کے ساتھ ندیوں، جھیلوں اور برف سے ڈھکے پہاڑوں کا مطلب ہے کہ اس سرحد میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ یہ صورتحال کشیدگی کا باعث بنتی ہے اور دونوں ممالک کے فوجیں آمنے سامنے آجاتی ہیں اور باقاعدہ جھڑپیں ہوتی ہیں۔

یہ بحران جون 2020 میں اس وقت بڑھ گیا تھا جب لداخ کی وادی گلوان میں دونوں افواج کے درمیان تصادم ہوا جو 1975 کے بعد ان کے درمیان پہلا خونیں تصادم تھا۔ اس لڑائی میں کم از کم 20 انڈین اور چار چینی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد سے کئی مقامات پر فوج کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔

لیکن جغرافیائی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال اور زمینی حقائق نے فریقین کو کئی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ گذشتہ برس کے اختتام پر ان دونوں ممالک نے لداخ میں اہم نکات پر ایک معاہدہ کیا۔

جنوری میں نئی دہلی اور بیجنگ نے براہ راست پروازیں بحال کرنے اور 2020 کی لڑائی کے بعد عائد ویزا پابندیوں میں نرمی کرنے پر اتفاق کیا۔

اسی مہینے میں انڈین زائرین کو چھ سال بعد تبت کے ’خود مختار علاقے‘ میں کیلاش نامی مقدس پہاڑی اور ایک مقدس جھیل کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی۔

مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کچھ دیگر رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔

انڈیا کے لیے چین دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جس کی دو طرفہ تجارت گذشتہ برس 127 بلین ڈالر سے زائد تھی۔ نئی دہلی کا چینی درآمدات، خاص طور پر اس کی نایاب زمینی معدنیات پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اس لیے سرحدی علاقوں میں امن اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔

Getty Images

تائیوان کی طرف زیادہ توجہ رکھنے کے لیے بھی بیجنگ اس وقت دلی سے امن کا خواہاں ہے۔

لیکن چین کو شبہ ہے کہ مغربی ممالک انڈیا کو اس کے عروج اور بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سرحدی تنازع کو حل کرنے کے علاوہ بیجنگ انڈیا کے ساتھ دیگر شعبوں میں بھی بہتری لانے کا متمنی ہوگا کیونکہ وہ انڈیا کے سلامتی سے متعلق اس ڈر کو ختم کر کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر دلی کے انحصار کو کم کر سکے گا۔

اب اس مقصد کے لیے چین برآمدات بڑھائے گا، انڈیا میں سرمایہ کاری بڑھائے گا اور چینی انجینئروں اور کارکنوں کے لیے ویزا پابندیوں کو ہٹا سکتا ہے۔

انڈیا نے 2020 کی لڑائی کے بعد سکیورٹی خدشات پر درجنوں چینی ایپس پر پابندی لگا دی تھی اور چینی سرمایہ کاری پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست بھی دلی کو چین کے پاس جانے پر مبجور کر سکتی ہے خاص طور پر امریکہ میں جب سے صدر ٹرمپ نے دوسری بار منصب صدارت سنبھالا ہے۔

نیو یارک میں البانی یونیورسٹی کے پروفیسر کرسٹوفر کلیری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انڈیا کا خیال تھا کہ وہ امریکہ کا بہت قریبی سٹریٹجک اتحادی ہوگا لیکن انھیں واشنگٹن سے وہ حمایت نہیں مل رہی جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔‘

انڈیا کو برکس کے اندر امریکہ اور اسرائیل کا ’ٹروجن ہارس‘ کیوں کہا گیا؟’اب تین محاذوں سے خطرہ ہے‘: چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کا ابھرتا ہوا اتحاد اور جنرل انیل چوہان کی تشویش’شیخ حسینہ نے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا‘: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم کی آڈیو لیک کی تصدیقروس کا افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان سمیت خطے کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟

مئی میں روایتی حریف پاکستان کے ساتھ حالیہ لڑائی کے بعد انڈیا نے بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کا بھی مشاہدہ کیا۔ پاکستان نے چار روزہ جنگ میں چینی ساختہ لڑاکا طیارے، فضائی دفاعی نظام اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کا استعمال کیا۔

تنازع کے بعد صدر ٹرمپ نے بار ہا اس بات پر زور دیا کہ انھوں نے جنگ بندی کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان ثالثی کی تھی۔

اس سے مودی سرکار کو شرمندگی اٹھانا پڑی، جو اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ اس نے لڑائی کو روکنے کے لیے پاکستانی حکام سے براہ راست بات کی تھی اور کسی تیسرے فریق کی ثالثی کی سختی سے تردید کی۔

چند ہفتوں بعد ٹرمپ نے پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں لنچ پر بھی میزبانی کی، جس سے دلی کو مزید مایوسی ہوئی۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور انڈیا بھی تجارتی معاہدے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ ٹرمپ پہلے ہی دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر یکم اگست تک معاہدہ نہ ہوا تو انڈیا سمیت کئی ممالک پر باہمی محصولات عائد کر دیں گے۔

کیا انڈیا اور امریکہ میں ایک بڑا تجارتی معاہدہ اب مشکل سے دوچار ہے؟

پروفیسر کرسٹوفر کلیری کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی اور تجارتی بات چیت کے بارے میں صدر ٹرمپ کے بیانات کو دیکھتے ہوئے اب دلی میں ایک احساس پایا جاتا ہے کہ یہ چین جیسے ممالک تک رسائی حاصل کرنے کا وقت ہے۔‘

سٹریٹجک ماہرین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نئی دہلی کو چین کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر دیکھتا ہے۔ لیکن امریکی صدر کے غیر متوقع ہونے کی وجہ سے اب دلی میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں کہ چین کے ساتھ مستقبل میں کسی بھی تنازع میں امریکہ انڈیا کی حمایت کے لیے کس حد تک جائے گا۔

چہار فریقی سکیورٹی ڈائیلاگ، جو ’کواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ انتظامیہ کی دوسری مدت کے دوران اب یہ زیادہ سرگرم نہیں رہا ہے۔

ایک سابق سینیئر انڈین سفارت کار پنجوک سٹابڈن کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں چین نے دیگر کثیر جہتی تنظیموں جیسے ’ایس سی او اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم برکس میں بھی اپنے اثر و رسوخ کو نمایاں طور پر بڑھایا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایسی وجوہات ہیں کہ انڈیا ایک دانشمدانہ رستے پر چل رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس کے ساتھ مقامی وجوہات کی بنا پر انڈیا یہ بھی نہیں چاہتا کہ ایسا دکھائی دے کہ جیسے وہ چینی مطالبات کے سامنے جُھک گیا ہے۔‘

امریکہ ہی نہیں بکہ اب انڈیا بھی اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ یوکرین کے ساتھ جنگ ​​کی وجہ سے اس کا دیرینہ اتحادی اور ہتھیار فراہم کرنے والا بڑا ملک روس کس طرح بیجنگ کی طرف مائل ہو گیا ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد مغربی پابندیوں نے توانائی کی برآمدات کے لیے ماسکو کا چین پر انحصار بڑھا دیا ہے۔ ماسکو اہم درآمدات اور سرمایہ کاری کے لیے بھی بیجنگ پر انحصار کرتا ہے۔ ان تمام چیزوں نے دلی کو مستقبل میں چین کے ساتھ کسی بھی تصادم میں کریملن کی پوزیشن سے متعلق متحاط کر دیا ہے۔

Getty Images

چین اپنی درآمدات پر انحصار کرنے والی بہت سی قوموں کو ان کی اوقات دکھانے کے لیے اپنی صنعتی طاقت کا بھی استعمال کر رہا ہے اور انڈیا جیسے ممالک کو لگتا ہے کہ ایسی پابندیاں ان کی اقتصادی ترقی کو متاثر کر سکتی ہیں۔

پنجوک سٹابدان کا کہنا ہے کہ ’چین نے حال ہی میں انڈیا کے خلاف تجارت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، نایاب زمینی میگنٹس اور کھاد جیسی اہم برآمدات کو معطل کر دیا ہے۔ یہ اقدامات انڈیا کے مینوفیکچرنگ اور زرعی شعبے کو متاثر کر سکتے ہیں۔‘

نایاب زمینی میگنیٹ یعنی مقناطیس خاص طور پر آٹوموبائل، گھریلو آلات اور صاف توانائی کے شعبوں کے لیے بہت اہم ہیں۔ چین نے اپریل سے اپنی درآمدات پر پابندیاں عائد کر دی تھیں، جس کے لیے کمپنیوں کو اجازت نامے حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔

ایک انڈین آٹوموبائل انڈسٹری ایسوسی ایشن نے خبردار کیا ہے کہ اگر پابندیوں میں جلد نرمی نہ لائی گئی تو پیداوار شدید متاثر ہو سکتی ہے۔ ان خدشات کے بعد مودی حکومت نے کہا ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔

اگرچہ چین کاروبار کو فروغ دینے کا خواہاں ہے، لیکن اس نے انڈیا کے ساتھ اپنے دیگر علاقائی تنازعات پر سمجھوتہ کرنے کے کوئی آثار نہیں دکھائے۔

حالیہ برسوں میں اس نے پورے شمال مشرقی انڈین ریاست اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کیا ہے جسے بیجنگ جنوبی تبت کہتا ہے۔

نئی دہلی اس بات پر زور دیتا ہے کہ اروناچل پردیش ملک کا اہم حصہ ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست کے لوگ اپنی ریاستی حکومت کو منتخب کرنے کے لیے انتخابات میں باقاعدگی سے ووٹ دیتے ہیں اور اس میں کسی سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

شنگھائی کی فوڈان یونیورسٹی کے پروفیسر شین ڈنگلی بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر چین اور انڈیا خودمختاری کے تصور کو نہیں چھوڑیں گے تو وہ ہمیشہ کے لیے لڑتے رہیں گے۔ اگر وہ جنوبی تبت یا اروناچل پردیش پر کسی معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں تو دونوں ممالک میں ابدی امن ہو جائے گا۔‘

فی الحال دلی اور بیجنگ دونوں اس بات کو جانتے ہیں کہ ان کا علاقائی تنازع مستقبل قریب میں حل نہیں ہو سکتا۔

وہ ایک ایسے تعلقات پر آمادہ نظر آتے ہیں جو باہمی طور پر فائدہ مند ہوں اور وہ حمایت کے لیے کسی عالمی طاقت کے بلاک پر انحصار کرنے کے بجائے تناؤ سے مکمل طور پر بچنا چاہیں گے۔

’اب تین محاذوں سے خطرہ ہے‘: چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کا ابھرتا ہوا اتحاد اور جنرل انیل چوہان کی تشویشانڈیا، پاکستان کشیدگی کے دوران اروناچل پردیش میں ناموں کو بدل کر چین کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟کارگل کی جنگ، دنیا کا سب سے پرخطر سفر اور شاہراہ ریشم کے ’آخری تاجر کا خزانہ‘انڈیا کے کشمیر سے لداخ تک سُرنگیں تعمیر کرنے کے پیچھے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟امریکی نائب صدر نے کہا اگر ہم نے کچھ باتیں تسلیم نہ کیں تو پاکستان انڈیا پر بہت بڑا حملہ کرے گا: انڈین وزیر خارجہانڈیا کو برکس کے اندر امریکہ اور اسرائیل کا ’ٹروجن ہارس‘ کیوں کہا گیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More