"میری بہن خوددار اور خودمختار تھی، اللہ اس کی مغفرت فرمائے اور اس کے لیے اگلے مراحل آسان کرے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم نے اس سے لاتعلقی اختیار کر رکھی تھی۔ ہم پچھلے تین دنوں سے چھیپا اور پولیس سے مسلسل رابطے میں تھے تاکہ میت وصول کر سکیں۔ صرف قانونی کارروائی میں تاخیر کی وجہ سے ہم آج کراچی پہنچے ہیں۔"
یہ کہنا تھا نوید اصغر کا، جو اپنی بہن حمیرا اصغر کی لاش کئی ماہ بعد فلیٹ سے ملنے کے بعد، سامنے آنے والی افواہوں پر خاموشی توڑ رہے تھے۔
نوید نے مزید کہا: "ہماری چھوٹی پھپھو کا حال ہی میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہوا، والدین شدید صدمے میں تھے، اور پھر حمیرا کی خبر آگئی۔ والد سے جب میڈیا نے رابطہ کیا تو وہ جذباتی کیفیت میں تھے، اسی لیے تدفین سے متعلق بیان دے بیٹھے"
ان کا کہنا تھا: "حمیرا اپنی مرضی سے شوبز میں آئی، وہ آزاد مزاج تھی۔ لیکن ظاہر ہے، والدین کا پوچھنا فطری عمل ہوتا ہے، کیونکہ وہ بچوں کی فکر کرتے ہیں۔"
نوید اصغر نے یہ بھی بتایا کہ: "تقریباً ایک سال سے ہمارا اس سے براہ راست رابطہ نہیں تھا۔ آخری بار جب والدہ نے بات کی، تو حمیرا نے اپنی رہائش کی تفصیل نہیں بتائی۔ پھر چھ ماہ سے تو فون بھی بند تھا۔ ہم نے اسے تلاش کرنے کی بارہا کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔"
انہوں نے میڈیا سے شکوہ کرتے ہوئے کہا: "میری فیملی پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے میڈیا کو مالک مکان سے پوچھنا چاہیے کہ آخر فلیٹ کا دروازہ کیسے کھلا؟ اتنے عرصے وہ خود کیوں خاموش رہا؟ کیمروں کا انتظام کیوں نہیں تھا؟ کیا کسی نے تالا توڑا؟"
ان کا کہنا تھا کہ والدہ مسلسل ذہنی دباؤ میں ہیں اور گھر والے اس سارے معاملے کی شفاف تحقیقات چاہتے ہیں: "میڈیکل رپورٹ کے بعد سچائی خود سامنے آ جائے گی۔"
نوید اصغر نے واضح کیا کہ جیسے ہی میت ہمارے حوالے ہو جائے گی، ہم والد سے مشورہ کر کے تدفین کا فیصلہ کریں گے۔
دوسری جانب رمضان چھیپا نے بھی میڈیا پر پھیلائے گئے بے بنیاد دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا: "مرحومہ میری بیٹیوں جیسی تھی، اور اگر میت لاہور منتقل کرنا پڑی تو اس کے تمام انتظامات اور اخراجات چھیپا فاؤنڈیشن برداشت کرے گی۔"