کیا حالیہ تنازع کے دوران ایران نے واقعی جدید ترین اسرائیلی ایف-35 طیاروں کو مار گرایا تھا؟

بی بی سی اردو  |  Jul 03, 2025

JACK GUEZ/AFP via Getty Imagesایرانی حکام اور سرکاری میڈیا تواتر سے اسرائیلی ایف 35 طیاروں کو گرانے کا تذکرہ کر رہے ہیں

حال ہی میں ایرانی میڈیا اور بعض حکومتی عہدیداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران، اسرائیل تنازع کے دوران ایران نے اسرائیلی فضائیہ کے کئی ایف-35 جنگی طیاروں کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

ان دعوؤں کا آغاز ایران کی اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران ہوا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

مشرق وسطیٰ سے متعلق رپورٹس پڑھیے بی بی سی اُردو کے واٹس ایپ چینل پر

تاہم اسرائیل نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے تمام طیارے اور پائلٹس محفوظ رہے ہیں۔

ایرانی میڈیا اور سرکاری رپورٹس میں ان مقامات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جہاں اِن جدید ترین مغربی جنگی طیارے کو مار گرایا گیا۔ ان مقامات میں ورامین، تبریز اور کرمانشاہ کے قریب کے علاقے شامل ہیں۔ یہاں تک کہ ایران کی جانب سے فراہم کردہ بعض اطلاعات میں ایک اسرائیلی خاتون پائلٹ کے طیارے سے ہنگامی انخلا اور گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کے فارسی زبان میں چلنے والے ایکس اکاؤنٹ نے ایرانی ٹی وی کے ایک انٹرویو کا کلپ بھی شیئر کیا جس میں ان طیاروں کو مار گرانے کو ’ایک بڑی کامیابی‘ قرار دیا گیا تھا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس پر طنز کرتے ہوئے لکھا: ’ابھی تک ہمارے گرفتار پائلٹس کی تصاویر کیوں نہیں دکھائیں؟ ہم بہت پریشان ہیں۔‘

ایرانی ٹی وی کے ایک پروگرام میں جب میزبان نے مہمان سے سوال کیا کہ گرے ہوئے طیارے کی تصاویر یا ویڈیوز کیوں نہیں دکھائی گئیں؟ تو انھوں نے سکیورٹی اور عسکری وجوہات کا حوالہ دیا اور براہ راست جواب دینے سے گریز کیا۔

کیا ایران کے پاس ایف-35 لڑاکا طیاروں کو ٹریک کر کے نشانہ بنانے کی صلاحیت ہے؟Mikhail Svetlov/Getty Imagesایران کی جانب سے اسرائیلی جنگی طیاروں کو مار گرائے جانے سے متعلق دعوؤں کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا

ایرانی حکام اور میڈیا کی جانب سے کیے گئے اس دعوے کو نہ تو عالمی میڈیا میں زیادہ اہمیت ملی ہے اور نہ ہی دفاعی ماہرین نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے۔

برطانوی تھنک ٹینک ’رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ‘ میں فضائیہ اور عسکری ٹیکنالوجی کے ماہر اور محقق پروفیسر جسٹن برونکو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی فوجی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان دعوؤں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

وہ ایران کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اگرچہ ایران نے روسی ساختہ 'Nebo-M' جیسے کچھ ریڈار سسٹمز استعمال کیے تاکہ ایف-35 اور دیگر سٹیلتھ (ریڈار سے بچنے والے) طیاروں کی شناخت کے امکانات کو بڑھایا جا سکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کے پاس تکنیکی طور پر ایسے جنگی طیاروں کا سراغ لگانے کی صلاحیت موجود نہیں تھی اور نہ ہی ایران اِن سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب لڑائی شروع ہوتے ہی ایران کے زیادہ تر ریڈار اور میزائل سسٹم تباہ کیے جا چکے تھے۔‘

گذشتہ چند برسوں میں ایران نے ملکی سطح پر تیار کردہ مختلف طرز کے فضائی دفاعی میزائل سسٹمز متعارف کروائے ہیں، لیکن متعدد عسکری تحقیقاتی اداروں بشمول امریکی محکمہ دفاع کی ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی (ڈی آئی اے) کی ایک جامع رپورٹ میں ان سسٹمز کی کارکردگی پر شک کا اظہار کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’اگرچہ ایران نے ’باور-373‘ اور دیگر مقامی نظاموں سمیت مختلف فضائی دفاعی سسٹمز کی تیاری اور تعیناتی میں کچھ پیش رفت ضرور کی ہے، لیکن ان نظاموں کی کارکردگی اب بھی محدود ہے۔ ان کی کارکردگی جدید مغربی یا روسی سسٹمز کے مقابلے میں کمزور تصور کی جاتی ہے خاص طور پر اہداف کو ٹریک کرنے، فائرنگ کے دائرہ کار اور جدید نیٹ ورکس میں انضمام کے حوالے سے۔ مجموعی طور پر ایران کا فضائی دفاعی نظام ایک رکاوٹ ضرور ہے لیکن وہ جدید لڑاکا طیاروں کے خلاف ناقابل تسخیر یا موثر نہیں ہیں۔‘

کیا اسرائیلی ایف-35 طیاروں کو گرانے کا کوئی ثبوت ہے؟

تکنیکی اور عسکری تجزیوں کے علاوہ، اگر ایران کے دعوے کو تقویت دی جا سکتی ہے تو وہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ طیارے کے ملبے کی ایسی تصاویر سامنے آئیں جن میں واضح طور پر اس کے ڈھانچے پر درج سیریل نمبر دکھائی دے، کیونکہ ایسی تصاویر کی تصدیق کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔

تاہم حالیہ تنازعے میں صرف چند ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں جو یا تو مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی لگتی ہیں، یا پھر وہ دراصل یوکرین میں مار گرائے گئے روسی جنگی طیاروں کی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی ایسی قابلِ اعتماد تصویر سامنے نہیں آئی جس نے آزاد میڈیا یا دفاعی ماہرین کی توجہ حاصل کی ہو

’چین کی پاکستان کو جے 35 طیاروں کی پیشکش‘: فضاؤں پر حکمرانی کرنے والے ’خاموش قاتل‘ ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس میں خاص کیا ہے؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںایرانی حملے کو روکنے والا اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟’آئرن ڈوم‘ اور دیگر اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرتے ہیں؟

یہ صورتِحال اسرائیلی ڈرونز کے حوالے سے ایران کے رویے سے مختلف ہے۔ اس جنگ کے دوران ایران نے دو اسرائیلی ڈرونز کی واضح تصاویر جاری کیں جنھیں اسرائیل نے بھی مار گرائے جانے کی تصدیق کی۔

اگرچہ ایرانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے جنگ میں مجموعی طور پر 17 اسرائیلی ڈرونز مار گرائے، لیکن ان میں سے باقی ڈرونز کے ملبے سے متعلق اب تک کوئی ٹھوس یا قابلِ تصدیق شواہد منظرِ عام پر نہیں آیا۔

کیا اسرائیلی پائلٹوں کے پکڑے جانے کی خبروں میں کوئی حقیقت ہے؟

ایران کی جانب سے اسرائیلی پائلٹ یا پائلٹوں کو پکڑنے کے دعووں کے باوجود اب تک نہ تو کسی مغوی کی تصویر جاری کی گئی ہے اور نہ ہی ان افراد کی شناخت ظاہر کی گئی ہے جنھیں ایران نے حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔

ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ اسرائیلی معاشرہ اور ریاست، اپنے فوجیوں کی گرفتاری یا گمشدگی کے معاملے میں خاصا حساس ہے اور ایسی معلومات کو چھپایا نہیں جاتا۔ لبنان میں اسرائیلی فوج، حماس اور حزب اللہ کے درمیان برسوں سے جاری کشیدگی اور اسرائیلی فوجیوں کے ماضی میں پکڑے جانے کے واقعات اس بات کی واضح مثال ہیں۔

مثال کے طور پر سنہ 2006 میں حزب اللہ کے ہاتھوں دو اسرائیلی فوجیوں الداد ریگب اور ایہود گولڈ واسر کا اغوا اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑی جنگ کا سبب بنا۔ اسی سال غزہ میں حماس کے ہاتھوں گیلاد شالیت کے اغوا نے اسرائیل کو ایک طویل فوجی آپریشن اور سیاسی بحران میں دھکیل دیا۔

اسرائیل میں آزاد میڈیا نے حالیہ برسوں میں فوجی اہلکاروں کی گرفتاری یا اغوا سے متعلق واقعات کی کھل کر رپورٹنگ کی ہے۔ اس کے علاوہ وزیرِاعظم نتن یاہو کی مخالف سیاسی جماعتیں بھی فوجی نقصانات اور حکومت کی پالیسیوں پر کُھل کر تنقید کرتی رہی ہیں۔

اس کے باوجود اسرائیلی میڈیا نے اب تک کسی ایف-35 یا دیگر طیاروں کے گرائے جانے کی تصدیق نہیں کی اور ایران کی ان دعوؤں پر مبنی خبروں کو ’سرکاری پراپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔

ایف-35 کی خصوصیات کیا ہیں؟JACK GUEZ/AFP via Getty Images

اگرچہ اسرائیلی فضائیہ کے پاس موجود لڑاکا طیاروں کی اصل تعداد خفیہ رکھی گئی ہے لیکن میڈیا رپورٹس اور اسرائیلی حکام کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کے پاس تقریباً 40 ایف-35، 75 ایف-15، اور 190 سے زائد ایف-16 طیارے موجود ہیں۔

ان میں سے کتنے طیارے فعال حالت میں ہیں، اس بارے میں کوئی مصدقہ معلومات دستیاب نہیں۔

ایران پر اسرائیلی فضائی حملوں سے متعلق جاری کی گئی تصاویر میں ایف-15 اور ایف-16 طیارے بھاری گائیڈڈ بموں سے لیس دکھائی دیے تھے۔ کچھ رپورٹس میں ایف-35 طیاروں کے بھی ایران کی فضائی حدود میں داخل ہونے کا ذکر موجود ہے۔

میڈیا اور ایرانی حکام کی ایف-35 طیاروں پر خاص توجہ کی ایک بڑی وجہ اس کی منفرد اور شاندار صلاحیتیں ہیں۔ یہ طیارہ اپنی نوعیت کی جدید ترین جنگی مشین سمجھا جاتا ہے جسے دنیا بھر میں ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کا معیار تصور کیا جاتا ہے۔

ایف-35 کا ڈیزائن اور اس میں استعمال ہونے والا میٹریل اسے دشمن کے ریڈار پر تقریباً غائب کر دیتا ہے لیکن یہ اس طیارے کی واحد خوبی نہیں۔ اس طیارے کا بنیادی تصور تین اہم خصوصیات پر مبنی ہے جو اسے پہلے تمام جنگی طیاروں سے مختلف اور جدید تر بناتی ہیں:

1. سٹیلتھ (ریڈار سے بچاؤ): ایف-35 کی شکل، اس کا مٹیریل اور اندرونی ساخت ایسے ڈیزائن کی گئی ہے کہ یہ دشمن کے ریڈار پر یا تو نظر نہیں آتا، یا پھر بہت معمولی انداز میں جیسے کوئی پرندہ دکھائی دے۔

2. جدید سینسرز: کئی رپورٹس میں ایف-35 کو ’اڑتا ہوا سپر کمپیوٹر‘ بھی کہا گیا ہے۔ اس میں نصب جدید ریڈار اور سینسرز پائلٹ کو 360 ڈگری کا نظارہ دیتے ہیں اور پائلٹ اپنے ہیلمٹ کی مدد سے اہداف کو لاک کر سکتا ہے۔ یہ طیارہ مسلسل پرواز کے دوران وسیع معلومات اکٹھی کرتا ہے، جو مشن کے دوسرے حصوں کے لیے نہایت اہم ہوتی ہیں۔

3. نیٹ ورک پر مبنی جنگی نظام: ایف-35 دوسرے طیاروں اور کمانڈ سینٹر سے ایک محفوظ نیٹ ورک کے ذریعے مسلسل معلومات کا تبادلہ کرتا ہے۔ یہ صلاحیت اسے ایک مربوط جنگی نظام کا حصہ بناتی ہے اور جدید جنگی حکمت عملی میں اسے انقلابی حیثیت حاصل ہے۔

یہ تمام خصوصیات اس طیارے کو انتہائی جدید بناتی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سب سے تیز یا سب سے زیادہ بلندی تک پرواز کرنے والا طیارہ ہے۔ ایف-35 کی زیادہ سے زیادہ بلندی تقریباً 15 کلومیٹر اور رفتار 1900 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے جو بعض پرانے ماڈلز سے کم ہے۔ تاہم یہ اپنی پوشیدہ پرواز اور معلوماتی برتری پر زیادہ انحصار کرتا ہے تاکہ دشمن کی حدود میں داخل ہو کر بغیر دیکھے مؤثر حملہ کر سکے۔

ایف-35 اسرائیل کے لیے کیوں اہم ہے؟

اگرچہ دنیا بھر میں ایک درجن سے زائد ممالک ایف-35 طیارے استعمال کر رہے ہیں، لیکن اسرائیلی ورژن ایف-35I Adair ان سب میں منفرد ہے۔ اسرائیل واحد ملک ہے جسے امریکہ نے ایف-35 میں مقامی سطح پر مخصوص تکنیکی تبدیلیاں کرنے کی اجازت دی ہے۔

اسرائیل نے اس طیارے کو اپنی سٹریٹجک ضروریات کے مطابق ڈھالتے ہوئے اس کے ہتھیاروں کے نظام اور الیکٹرانک سسٹمز میں اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی تفصیلات عام طور پر دستیاب نہیں تاہم ماہرین کے مطابق یہ خاصی پیچیدہ اور اعلیٰ سطح کی ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں۔

اس طیارے کو اسرائیلی فضائیہ میں خاص مقام دلانے والی ایک اور بڑی وجہ اسرائیل کا وہ پُرانا دفاعی نظریہ ہے، جسے ’پیشگی کارروائی‘ کہا جاتا ہے یعنی خطرات کو اس وقت نشانہ بنانا جب وہ ابھی پوری طرح نمودار بھی نہ ہوئے ہوں۔ ایسے میں ریڈار سے بچ نکلنے والے سٹیلتھ طیارے اسرائیل کے لیے انتہائی اہم ہتھیار ہیں جو دشمن کی حدود میں خاموشی سے داخل ہو کر کارروائی کر سکتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ دنیا کے اس جدید ترین لڑاکا طیارے کو خریدنا اور لیس کرنا ایک انتہائی مہنگا عمل ہے اور ہر ایف-35 کی قیمت کم از کم 100 ملین ڈالر یا اس سے بھی زیادہ ہے اور یہ طیارے وہی ہیں جو امریکہ صرف قریبی اتحادی ممالک کو فروخت کرتا ہے۔

اسی لیے بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران کی جانب سے ایف-35 جیسے جدید طیارے پر خاص توجہ دینے اور اسے مار گرانے کے دعوے کی وجہ صرف ایک جنگی طیارے کو نشانہ بنانا نہیں، بلکہ اسرائیل کی فضائی برتری کی علامت اور اس کے ’پیشگی حملے‘ کے دفاعی نظریے کو چیلنج کرنا ہے۔

’آئرن ڈوم‘ اور دیگر اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرتے ہیں؟ایرانی حملے کو روکنے والا اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیایران کا میزائل سسٹم کتنا مؤثر ہے اور اس کی افواج کتنی طاقتور ہیں؟غزہ جنگ میں پہلی بار استعمال ہونے والے اسرائیلی ’بار‘ میزائل کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More