"میں نے کسی پر حملہ نہیں کیا، صرف ایک سماجی مسئلے پر آواز بلند کی۔ اگر مجھے کچھ ہوا تو اس کے ذمے دار ماریہ بی، ساجد جاوید اور حیدر علی ہوں گے۔"
یہ الفاظ ہیں معروف پوڈکاسٹر اور کامیڈین شہزاد غیاث کے، جنہوں نے فیشن ڈیزائنر ماریہ بی کے خلاف قانونی جنگ کے اگلے مرحلے میں اپنا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے ایک طویل ویڈیو بیان جاری کیا۔
اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں ایک نیا ہائی پروفائل مقدمہ توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ ایک طرف فیشن انڈسٹری کی معروف شخصیت ماریہ بی ہیں، تو دوسری جانب ایک بےباک آواز رکھنے والے پوڈکاسٹر شہزاد غیاث، جو نہ صرف طنز و مزاح کے لیے جانے جاتے ہیں بلکہ سماجی حساسیت پر بھی آواز اٹھاتے ہیں۔ معاملہ اب صرف اختلافِ رائے تک محدود نہیں رہا بلکہ 50 کروڑ روپے ہرجانے کے دعوے، سوشل میڈیا پر وائرل الزامات، اور ایف آئی اے کی مداخلت تک جا پہنچا ہے۔
معروف برانڈ کی مالک ماریہ بی نے الزام لگایا ہے کہ شہزاد نے ان پر جھوٹے، گمراہ کن اور مذہبی منافرت پر مبنی بیانات دیے، جن میں ان کے برانڈ کو اسلامی تشخص کے ساتھ جوڑ کر انہیں متنازع بنانے کی کوشش کی گئی۔ ان کا مؤقف ہے کہ شہزاد غیاث کے بیانات نے ان کی پیشہ ورانہ ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا اور وہ ان الزامات پر معافی اور ہرجانے کی قانونی چارہ جوئی پر مجبور ہو گئیں۔
جواباً شہزاد نے ایک تفصیلی ویڈیو پیغام اور ایکس پر پوسٹس کے ذریعے اپنا دفاع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ماریہ بی ان کے خیالات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر توڑ مروڑ کر پیش کر رہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی ویڈیوز میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے تاکہ ان کا مؤقف بدلا جا سکے۔ شہزاد کے مطابق انہیں محض اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے ایک حساس سماجی معاملے پر بات کی اور اس بات کو بنیاد بنا کر انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
معاملہ اس وقت مزید سنگین ہوگیا جب شہزاد غیاث نے یہ الزام لگایا کہ ان کے گھر پر حملے کی کوشش کی گئی، اور اس کے پیچھے بھی ماریہ بی اور ان کے ساتھیوں کا ہاتھ ہے۔ ان کے مطابق انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں، اور وہ اب ایک محفوظ مقام پر قانونی معاونت کے ساتھ مقیم ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے فالوورز سے اپیل کی ہے کہ اگر انہیں گرفتار کیا جاتا ہے تو ان کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا پر آواز بلند کی جائے۔
دوسری جانب اسلام آباد کی عدالت میں کیس کی سماعتیں جاری ہیں۔ شہزاد کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت سے وقت مانگا ہے تاکہ وکالت نامہ جمع کرایا جا سکے، جس پر اگلی سماعت 14 جولائی کو مقرر کر دی گئی ہے۔
یہ تنازع اب محض الفاظ کی جنگ نہیں بلکہ قانون، سچ اور اظہارِ رائے کی حدود کے درمیان کھڑا ایک نازک توازن بن چکا ہے۔ عدالت کیا فیصلہ سنائے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر اس معاملے نے شوبز، سماج اور سوشل میڈیا کے تیز رفتار بیانیے کو ایک بار پھر ٹکرا دیا ہے۔