چاند کو سیارچے سے خطرہ، ٹکراؤ کا امکان ظاہر

سچ ٹی وی  |  Jun 24, 2025

ایک سیارچہ جس کے بارے میں پہلے خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ زمین سے ٹکرا سکتا ہے، اب اسے چاند کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اگر یہ سیارچہ 2032 میں چاند سے ٹکراتا ہے تو چاند کے ملبے کے ٹکڑے زمین کا رخ کر سکتے ہیں۔

ایسٹرائیڈ 2024 وائے آر 4 نامی سیارچے کو چلی کی ایک ٹیلی اسکوپ نے سب سے پہلے دسمبر 2024 میں دیکھا تھا۔

بعد ازاں جنوری 2025 میں کہا گیا تھا کہ اس بات کا 1.3 فیصد امکان ہے کہ یہ سیارچہ 22 دسمبر 2032 کو زمین کے کسی حصے سے ٹکرا جائے گا۔

مگر بعد میں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ اس سیارچے کا زمین سے ٹکرانے کا امکان نہ ہونے کے برابر یا 0.0017 فیصد ہے۔

مگر اب کہا جا رہا ہے کہ زمین کی بجائے چاند سے اس کے ٹکرانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

درحقیقت جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ڈیٹا کے مطابق 4.3 فیصد امکان ہے کہ یہ سیارچہ چاند سے ٹکرا سکتا ہے۔

اس حوالے سے کینیڈا کی مختلف یونیورسٹیوں کی مشترکہ تحقیق کے نتائج جاری کیے گئے ہیں، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح سیارچہ چاند سے ٹکرا سکتا ہے اور پھر چاند کا ملبہ زمین کی جانب بڑھ سکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر یہ سیارچہ 2032 میں ٹکراتا ہے تو یہ 5 ہزار برسوں میں اس سے ٹکرانے والا سب سے بڑا سیارچہ ہوگا، جس کے نتیجے میں زمین پر شہاب ثاقب کی بارش ہوسکتی ہے۔

اگرچہ چاند کے ملبے کا بیشتر حصہ زمین میں داخل ہوتے وقت جل کر راکھ ہو جائے گا اور انسانوں کے لیے خطرہ نہیں بنے گا۔

مگر کچھ مواد زمین کے مدار میں داخل ہوکر سیٹلائیٹس، اسپیس کرافٹس اور خلا بازوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ چاند کی سطح پر ٹکرانے کا موازنہ ایک بڑے جوہری دھماکے سے کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکی خلائی ادارے ناسا اور دیگر ممالک کے خلائی اداروں کی جانب سے سیارچوں اور دم دار ستاروں کو ٹریک کیا جاتا ہے۔

تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ زمین کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں یا نہیں، مگر چاند پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی جاتی۔

ابھی یہ سیارچہ سورج کے گرد گھوم رہا ہے اور زمین سے بہت دور ہے اور اس وجہ سے اس کی ٹریکنگ مناسب طریقے سے نہیں کی جاسکتی جبکہ 2028 تک اس کے نظر آنے کا امکان بھی نہیں۔

2028 میں ماہرین کی جانب سے اس کے حجم اور راستے کا دوبارہ تعین کی جائے گا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More