دنیا بھر کی افواج انڈیا اور پاکستان کے لڑاکا طیاروں کی ’ڈاگ فائیٹ‘ کا جائزہ لیں گی

اردو نیوز  |  May 09, 2025

چینی ساختہ پاکستانی طیاروں اور فرانسیسی ساختہ انڈین رفال طیاروں کے درمیان 7 مئی کو ہونے والی ’ڈاگ فائیٹ‘دنیا بھر کی افواج بغور دیکھ رہی ہیں، تاکہ وہ ایسے معلومات سے باخبر ہو سکیں جو مستقبل کی جنگوں میں انہیں برتری فراہم کر سکیں۔

دو امریکی اہلکاروں نے رائٹرز کو بتایا کہ بدھ کے روز چینی ساختہ پاکستانی لڑاکا طیاروں نے کم از کم دو انڈین فوجی طیارے مار گرائے، جو بیجنگ کے جدید لڑاکا طیارے کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہو سکتا ہے۔

یہ فضائی تصادم ایک افواج کے لیے ایک نادر موقع ہے جس میں وہ پائلٹس، لڑاکا طیاروں اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی کارکردگی کا مطالعہ کر سکتی ہیں، اور اس علم کو اپنی فضائی افواج کو جنگ کے لیے تیار کرنے میں استعمال کر سکتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ہتھیاروں کے عملی استعمال کا تجزیہ چین اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں کیا جائے گا۔ چین اور امریکہ دونوں تائیوان یا وسیع تر انڈو پیسفک خطے میں ممکنہ تصادم کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔

ایک امریکی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ پاکستان نے انڈین لڑاکا طیاروں پر حملے کے لیے چینی ساختہ J-10 طیارہ استعمال کیا۔

سوشل میڈیا پوسٹس میں چین کے PL-15 فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل اور یورپی گروپ MBDA کے تیار کردہ ریڈار گائیڈڈ میزائل ’میٹیور‘ کی کارکردگی پر گفتگو ہو رہی ہے۔ تاہم ان ہتھیاروں کے استعمال کی کوئی سرکاری تصدیق موجود نہیں۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک اسٹڈیز کے ملٹری ایرو سپیس کے سینیئر فیلو، ڈگلس بیری نے کہا کہ ’چین، امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی فضائی جنگی برادریاں اس بات میں بے حد دلچسپی رکھتی ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ درست معلومات حاصل کریں: حکمتِ عملی، تکنیک، طریقہ کار، کون سا ساز و سامان استعمال ہوا، کیا مؤثر ثابت ہوا اور کیا ناکام رہا۔‘

بیری نے مزید کہا کہ ’اگر واقعی یہ ہتھیار استعمال ہوئے، تو آپ کے پاس مغرب کے سب سے طاقتور ہتھیار کے خلاف چین کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔‘

بیری نے کہا کہ فرانسیسی اور امریکی بھی انڈیا سے ایسی ہی معلومات حاصل کرنا چاہیں گے۔

سوشل میڈیا پوسٹس میں چین کے PL-15 فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کی کارکردگی پر گفتگو ہو رہی ہے۔ (فوٹو: ایکس)دفاعی صنعت کے ایک ماہر نے کہا کہ PL-15  ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر امریکی فوج بہت زیادہ توجہ دیتی ہے۔‘

رفال تیار کرنے والی کمپنی ڈیسالٹ ایوی ایشن نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

محدود معلوماتمغربی تجزیہ کاروں اور صنعت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی اہم تفصیلات ابھی بھی واضح نہیں، جیسے کہ آیا میٹیور میزائل استعمال ہوا تھا، اور پائلٹس کو کس نوعیت کی تربیت حاصل تھی۔ اسلحہ ساز کمپنیاں بھی اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ تکنیکی کارکردگی اور عملی عوامل کو الگ الگ پرکھا جائے۔

واشنگٹن میں مقیم دفاعی ماہر بائرن کالن نے کہا کہ ’یہ ضرور جانچ پڑتال کی جائے گی کہ کیا مؤثر تھا اور کیا نہیں، لیکن اس پر جنگ کی دھند بھی غالب ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ یوکرین کی جنگ میں امریکی ہتھیاروں کی کارکردگی پر مسلسل فیڈبیک مل رہا ہے، اور یہی توقع انڈیا کے یورپی سپلائرز، اور پاکستان و چین کے مابین بھی رکھی جا سکتی ہے۔

ایک مغربی ملک کے دفاعی ماہر نے کہا کہ آن لائن سامنے آنے والی ایک تصویر میں ایک میزائل کے سیکر (seeker) کا جزو دکھائی دے رہا تھا جو ممکنہ طور پر اپنے ہدف سے چوک گیا تھا۔ اس بات پر متضاد اطلاعات ہیں کہ آیا پاکستان کے پاس چینی فضائیہ سے حاصل کردہ PL-15 کا مقامی ورژن ہے یا وہ کم رینج والا برآمدی ورژن جو 2021 میں منظرِ عام پر آیا تھا۔

بیری، جو اس میزائل پر وسیع تحقیق کر چکے ہیں، نے کہا کہ امکان یہی ہے کہ پاکستان کے پاس اس کا برآمدی ورژن ہے۔

PL-15  کی رینج اور کارکردگی کئی برسوں سے مغربی دنیا کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ (فوٹو: ایکس)ایک مغربی ماہر نے PL-15 کے راکٹ پر مبنی نظام کو میٹیور کے ایئ-برِیتھنگ سسٹم سے زیادہ رینج والا ماننے سے انکار کیا لیکن تسلیم کیا کہ اس کی کارکردگی ’شاید توقع سے بہتر‘ ہو سکتی ہے۔ میٹیور کی رینج  ظاہر نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فی الحال کسی بھی چیز کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ہمارے پاس بہت کم معلومات ہیں۔

PL-15  کی رینج اور کارکردگی کئی برسوں سے مغربی دنیا کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اس کی آمد کو چین کی سوویت دور کی ٹیکنالوجی پر انحصار سے آگے نکلنے کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

امریکہ، PL-15  کے مقابلے میں اور اس کی نظری حد سے باہر مار کرنے کی صلاحیت کے پیشِ نظر لاک ہیڈ مارٹن کے ذریعے AIM-260  جوائنٹ ایڈوانسڈ ٹیکٹیکل میزائل تیار کر رہا ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More