جعفر ایکسپریس حملے پر حکام معلومات دینے سے گریزاں: ’ایسا کرنے سے خلا پیدا ہوتا ہے اور پروپیگنڈا پھیلتا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Mar 12, 2025

Getty Imagesوزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے بتایا کہ 150 سے زیادہ افراد کو بازیاب کروایا جا چکا ہے

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں منگل کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے جنگجوؤں نے روکا اور اس میں سوار تقریباً 400 مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔

اس ٹرین کو درہ بولان کے پاس روکا گیا تھا اور حکام کے مطابق اس ٹرین میں بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار سوار تھے۔ یہ تمام اطلاعات بی بی سی سمیت تمام میڈیا اداروں کے پاس ’ذرائع‘ سے آ رہی ہیں۔

منگل کی شام سے ہی ٹی وی سکرینوں پر ’سکیورٹی ذرائع‘ کا حوالہ دے کر خبریں چلائی جا رہی ہیں کہ ’اتنے مسافروں کو دہشتگردوں سے بازیاب کروا لیا گیا‘ یا ’اب تک اتنے دہشتگرد مارے جا چکے۔‘

’سکیورٹی ذرائع‘ سے منسوب ٹی وی سکرینوں پر چلنے والی معلومات تمام ٹی وی چینلز اور نیوز ویب سائٹس پر ایک جیسی ہی نظر آتی ہے۔

ایسا نہیں کہ جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے واقعے پر حکومتی شخصیات خاموش ہیں لیکن ان کی جانب سے سامنے آنے والے مذمتی بیانات یا عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے وعدے کسی بھی مستند معلومات سے عاری ہیں۔

دوسری جانب ٹرین کو ہائی جیک کرنے والی تنظیم بی ایل اے کی جانب سے تواتر سے صحافیوں کو دعوؤں سے بھرپور بیانات بھیجے جا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی معلومات شیئر کی جا رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ٹرین کی ہائی جیکنگ کے حوالے سے گمراہ کُن یا غلط خبریں بھی گردش کر رہی ہیں اور انڈین میڈیا بھی علیحدگی پسندوں سے متعلق خبروں سے بھرا پڑا ہے۔

اس بات کا اقرار ’سکیورٹی ذرائع‘ بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ’بزدلانہ حملہ ہونے کے وقت سے لے کر ہندوستانی میڈیا، ہندوستانی سوشل میڈیا اور ملک دشمن سوشل میڈیا اکاؤنٹس ملکر مسلسل گمراہ کُن، جھوٹا اور فیک پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔‘

ایسے میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ بلوچستان میں اتنا بڑا واقعہ ہو جانے کے بعد بھی پاکستانی حکومتی شخصیات اور سرکاری حکام لوگوں کو کسی بھی قسم کی مستند معلومات دینے سے گریزاں کیوں نظر آتے ہیں؟

Getty Imagesبلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ 'ابھی بھی ریاست صبر سے کام لے رہی ہے‘

وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’150 سے زیادہ افراد کو بازیاب کروایا جا چکا ہے جبکہ تقریباً تین درجن دہشتگرد بھی مارے گئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ دہشتگردوں نے خواتین اور بچوں کو ڈھال بنایا ہوا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ حملے کے دوران سکیورٹی اہلکار اور ریلوے کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

’وہاں ٹرین میں خودکش بمبار بھی موجود ہیں اس لیے ہم انتہائی محتاط طریقے سے کارروائی کر رہے ہیں۔‘

وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری سے جب حکام کی جانب سے خاموشی کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’حتمی تفصیلات یا معلومات آپریشن مکمل ہونے کے بعد ہی دی جا سکتی ہیں۔ یہ تمام چیزیں فیکٹس اینڈ فیگرز کے ساتھ ہی کی جاتی ہیں اور جیسے ہی آپریشن مکمل ہو گا ہم جلد از جلد تمام صورتحال پر لوگوں کو آگاہ کریں گے۔‘

جعفر ایکسپریس پر حملہ ہونے کے تقریباً 24 گھنٹے بعد بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بُگٹی نے بھی صوبائی اسمبلی میں ایک تقریر کے دوران اپنی خاموش توڑی۔

بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’جو بھی تشدد کرے گا، جو ریاست توڑنے کی بات کرے گا، بندوق اٹھائے گا، ریاست مکمل طور پر قلع قمع کرے گی۔‘

بلوچستان اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ابھی بھی ریاست صبر سے کام لے رہی ہے، نہیں لینا چاہیے۔‘

سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’وہ ہمارے پانچ سو لوگ ماریں اور ہم جا کر معافی مانگیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں اس لڑائی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بی ایل اے بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتی ہے، کیا اس کی اجازت دے دیں، وہ بچوں کو ماریں کیا اس کی اجازت دے دی؟‘

جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانیبلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟فوجی حکام کی تعلیمی اداروں اور شوبز میں انٹری پر تنقید: ’ریاست اعتدال پسند لوگوں کو اپنا دشمن بنا رہی ہے‘جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟: ’ان کے لیڈر نے کہا سکیورٹی اہلکاروں پر خصوصی نظر رکھو، یہ ہاتھ سے نکلنے نہیں چاہییں‘’معلومات نہ دینے سے خلا پیدا ہوتا ہے‘

سینیئر تجزیہ کار اور ماضی میں پاکستانی حکومت کا حصہ رہنے والے فہد حسین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’مجھے تو کوئی تُک نظر نہیں آتی حکومت کی خاموشی کی، ایسے وقت میں تو حکومت کو درست، تصدیق شدہ اور مستند معلومات لوگوں تک پہنچانی چاہیے۔‘

’معلومات نہ دینے سے خلا پیدا ہوتا ہے اور اس کے سبب پھر فیک نیوز اور پروپیگنڈا پھیلتا ہے۔ حکومت کو تو اس وقت معلومات کے بہاؤ پر اپنی سبقت رکھنی چاہیے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے کہ حکومت نے ابھی دفاعی حکمت عملی بنائی ہوئی ہے جبکہ انھیں اس موقع پر ’بھاگنا نہیں بلکہ کمانڈ کرنا چاہیے۔‘

’یہ سوچنا کہ معاملہ بہت حساس ہے اور اگر بات نہیں کریں گے تو یہ بڑا نہیں ہو گا، غلط ہے۔‘

Getty Imagesحملے کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے نے قبول کی ہے

سینیئر صحافی و تجزیہ کار ابصار عالم کا بھی یہی خیال ہے کہ ایسے واقعے پر ایسی ’سینسر شپ مناسب نہیں، بھلے وہ کسی بھی مقصد سے کی گئی ہو اس کے منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ اس وجہ سے ’پروپیگنڈا بہت پھیلا ہے، جسمیں انڈین میڈیا بھی شامل تھا اور ڈیجیٹل میڈیا پر بھی پروپیگنڈا سامنے آیا اور حکومت مخالف جماعت نے بھی اس کا فائدہ اُٹھایا۔‘

’جو لوگ ٹرین میں پھنسے ہوئے تھے، ان کے اہلخانہ اور باقی عام عوام کو بھی معلومات کے نہ ہونے اور پروپیگنڈے کے سبب نفسیاتی تکلیف سے گزرنا پڑا۔‘

ابصار عالم سمجھتے ہیں کہ معلومات جاری نہ کر کے دہشتگردوں کی ایک کارروائی کو ہم نے دبایا۔

ان کے مطابق حکومت کو خود معلومات جاری کرنی چاہیے تھی اور اس سے بین الاقوامی برادری کو معلوم ہوتا کہ یہ تنظیمیں یہاں کیا کر رہی ہیں اور انھوں نے ان تنظیموں کے لوگوں کو پناہ دی ہوئی ہے۔

جعفر ایکسپریس پر شدت پسندوں کے حملے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟ماہ رنگ بلوچ: نوبیل امن انعام کے لیے کس کو نامزد کیا گیا، یہ جاننا مشکل کیوں؟بنوں چھاؤنی پر حملے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟فوجی آپریشن کی ڈرون ویڈیوز: کیا پاکستانی فوج کی شدت پسندوں کے خلاف حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More