’طاقت اس کے پاس رہتی ہے جو کمانے والا ہو‘: گھریلو کام کاج میں مردوں کی عدم دلچسپی کی نشاندہی کرنے والی فلم پر انڈیا میں بحث

بی بی سی اردو  |  Mar 08, 2025

Getty Images

کسی بھی خاتون سے اگر آپ یہ سوال پوچھیں کہ کون سا کام کرتے ہوئے ان کی جان جاتی ہے تو بلا شبہ اکثریت کا جواب یہی ہوگا کہ برتن دھونے سے اور یہ کام اس وقت اور بھی وبالِ جان بن جاتا ہے جب گھر پر کوئی تقریب یا تہوار چل رہا ہو ایسے میں انڈیا اور پاکستان کی خواتین کا بیشتر وقت کچن میں ہی گذرتا ہے۔

پاکستان اور انڈیا دونوں میں یہ بات مشترکہ طور پر مانی جاتی ہے کہ خواتین کا اصل مقام گھر ہے اور ان کی ذمہ داری گھر کا کام کاج کرنا اور اسے سجانا سنوارنا ہے۔ یہ سوچ ایک محدود طبقے کی نہیں بلکہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی خواتین کا کردار اکثر ’بلا معاوضہ‘ گھریلو کاموں تک محدود کر دیا جاتا ہے اور انڈیا کی فلم ’مسز‘ کی کہانی بھی اسی تلخ حقیقت کے گرد گھومتی ہے۔

اس فلم کی مرکزی کردار جو ایک ماہر امراضِ نسواں (گائناکالوجسٹ) کی بیوی ہیں جو سارا دن گھر بھر کا کھانا پکانے، صفائی کرنے اور دیکھ بھال کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں الجھا دی جاتی ہیں اور اس دوران ان کے خواب زبردستی نہیں بلکہ مستقل تنقید اور دباؤ کے باعث نظرانداز ہو جاتے ہیں۔

یہ فلم مشہور ملیالم فلم ’ داگریٹ انڈین کچن‘ کا ری میک ہے جس نے ایک بار پھر اس موضوع پر بحث چھیڑ دی ہے اور اس بار خاص طور پر سوشل میڈیا پر مردوں کی جانب سے اس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے تاہم اس فلم کا موضوعحقائق کی عکاسی کر رہا ہے۔

انڈیا میں ایک حالیہ سرکاری سروے سے پتہ چلا ہے کہ انڈین خواتین یومیہ سات گھنٹے سے زیادہ بلا معاوضہ گھریلو اور دیکھ بھال کے کاموں میں صرف کرتی ہیں جو مردوں کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ وقت ہے۔

ان اعداد و شمار کے مطابق،

خواتین 289 منٹ روزانہ گھریلو کاموں میں اور 137 منٹ بلا معاوضہ دیکھ بھال میں صرف کرتی ہیں۔ جبکہ مرد 88 منٹ گھریلو کاموں اور 75 منٹ دیکھ بھال کے کاموں میں لگاتے ہیں۔

خواتین کو مردوں کے مقابلے میں ملازمتوں کا موقع کم ملا یہاں تک کے بعض اوقات ان اضافی ذمہ داریوں کے باعث وہ اپنا خیال رکھنے کے لیے بھی وقت نہیں نکال پائیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ چھ سال قبل شائع ہونے والے پچھلے سروے کے نتائج بھی تقریباً ایسے ہی تھے یعنی ان برں میں کچھ نہیں بدلا اور حالات جوں کے توں ہیں۔

گو کہ حکومت نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مختلف پروگرام شروع کیے ہوئے ہیں لیکن صورتحال میں زیادہ بہتری نہیں آئی۔

Jio Studios / Twitterفلم مسز کو مردوں کے حقوق کی تنظیوں نے تنقید کا نشانہ بنایابالی وڈ فلم ’مسز‘، سیکس لائف میں غیر حسّاس رویہ اور سوشل میڈیا بحث: ’مرد یہ فلم ضرور دیکھیں‘عورتیں اگر گھر کا کام کرنا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ شکر گزار کیوں ہوتی ہیں؟خواتین کے گھریلو کام پر وہ معاوضہ جو ’مرنے کے بعد‘ ملتا ہے

انڈیا کا ادارہ ٹائم یوز سروے اس بات کا تجزیہ کرتا ہے کہ لوگ اپنا وقت کس طرح مختلف سرگرمیوں میں گزارتے ہیں۔

ملک بھر میں کیے جانے والے اس تجزیہ میں چھ سے 59 سال کی عمر کے افراد سے پوچھا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنا پچھلا روز کن سرگرمیوں میں گزارا۔

پہلا ٹائم یوز سروے 2019 میں شائع ہوا تھا جبکہ دوسرا سروے گزشتہ ہفتے جاری کیا گیا ہے۔

جب حکومت نے اس سروے کے نتائج جاری کیے تو دو بڑی تبدیلیوں کو نمایاں کیا گیا جس کے مطابق 15 سے 59 سال کی خواتین نے بلا معاوضہ گھریلو کام کاج میں پچھلے سروے کے مقابلے میں 10 منٹ کم صرف کیے۔

دوسرا یہ کہ خواتین کی ملازمت اور متعلقہ سرگرمیوں میں شرکت میں محض تین فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

سروے میں یہ بھی سامنے آیا کہ خواتین کے لیے ’بلا معاوضہ سے ادائیگی والی سرگرمیوں‘ کی جانب مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے یعنی وہ گھریلو کاموں پر کم وقت خرچ کر رہی ہیں اور زیادہ وقت ملازمت میں لگا رہی ہیں۔

تاہم ماہرینِ معاشیات اس نتیجے سے متفق نہیں۔ ان کے مطابق گھریلو کاموں میں معمولی کمی اس بات کو یقینی نہیں بناتی کہ خواتین کو با معاوضہ یا اجرت والے کام کے مواقع زیادہ ملے ہیں۔

اس کے بجائے خواتین اب بھی کام کاج کے ساتھ ساتھ مردوں کے مقابلے میں زیادہ بلا معاوضہ کام کر رہی ہیں۔

اشوکا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی معاشیات کی پروفیسر اشوینی دیشپانڈے کا کہنا ہے کہ ٹائم یوز سروے ڈیٹا کا خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح ناپنے والے ادارے ’فیمل لیبر فورس پارٹیسیپیشن ریٹ‘ کے ساتھ موازنہ کرنا ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ خواتین اپنا وقت کیسے گزارتی ہیں۔

ان کے مطابق یہ رپورٹ اس بات کا پیمانہ ہے کہ 15 سال اور اس سے زیادہ عمر کی کتنی خواتین تنخوا دار طبقے میں شامل ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2017 اور 2018 میں یہ شرح 23 فیصد تھی جو سال 2022 اور 2023 میں 37 فیصد ہو گئی ہے۔

پروفیسردیش پانڈے کہتی ہیں کہ یہ اضافہ صرف خواتین کے لیے روزگار کے مواقع بڑھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی بڑی وجہ معاشی بدحالی بھی ہے۔

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’خواتین انتظار نہیں کرتیں کہ گھریلو کام کم ہو تو وہ پھر نوکری کریں۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں اس لیے انھیں ’ڈبل شفٹ‘ میں کام کرنا پڑتا ہے یعنی گھر کے باہر تنخوا دار اور گھر کے اندر بلا معاوضہ کام۔‘

یہ مسئلہ صرف انڈین خواتین تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمی حقیقت ہے۔ تاہم انڈیا میں گھریلو کام میں مرد و خواتین کے درمیان فرق عالمی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں خواتین مردوں کے مقابلے میں لگ بھگ تین گھنٹے زیادہ گھریلو اور دیکھ بھال کے کاموں میں صرف کرتی ہیں۔

لیکن انڈیا میں خواتین یہ کام تقریباً چار گھنٹے زیادہ کرتی ہیں۔

ماہرینِ سماجیات اس کی وجہ انڈیا کے سخت پدرشاہی نظام کو قرار دیتے ہیں۔ انڈیا میں روایتی صنفی کرداروں پر سختی سے عمل کروایا جاتا ہے۔

حتیٰ کہ تعلیم یافتہ طبقے میں بھی خواتین ان روایتی کرداروں کو نبھانے پر مجبور ہیں۔

یہی سخت رویے خواتین کی زندگیوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے بارے میں بننے والی رائے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

Getty Imagesبہت سے پاکستانی اور انڈین گھرانوں میں گھریلو کام کاج صرف عورت کی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں

واپس بات کرتے ہیں فلم مسز کی جس کے موضوع نے جہاں کئی دلوں کو چُھو لیا وہیں سوشل میڈیا پر مردوں کی جانب سے اس پر شدید تنقید بھی کی گئی۔

یہ فلم اگرچہ بہت سے لوگوں کے دلوں کو چھو گئی لیکن اسے خاص طور پر سوشل میڈیا پر مردوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔

مردوں کے حقوق کی ایک تنظیم نے اس فلم کو جوائنٹ فیملی سسٹم کے خلاف ’زہریلا پروپیگنڈا‘ قرار دیا جبکہ دیگر لوگوں نے اس کے بنیادی خیال کو ہی مسترد کر دیا۔

ممبئی کی کامیڈین فنکارہ کاجول سرینیواسن کہتی ہیں کہ یہ فلم اس لیے متنازع ہوئی کیونکہ اس نے معاشرے کو ایک ایسا آئینہ دکھایا جس میں جھانکنا لوگوں کے لیے مشکل تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والد نے 40 سال کی عمر میں ملازمت چھوڑ کر گھریلو ذمہ داریاں سنبھال لیں جبکہ ان کی والدہ کام کرتی رہیں لیکن ان کے والد کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ گھریلو کام آسان نہیں ہوتا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلا ہفتہ تو میرے والد بہت پرجوش تھے۔ انھوں نے مختلف کھانے پکائےاور گھر کی باریک بینی سے صفائی کی۔ لیکن پھر انھیں یہ کام تھکا دینے والا محسوس ہونے لگا اور وہ ایک ہفتے سے زیادہ جاری نہ رکھ سکے۔‘

کاجول کے مطابق ’میرے والد کو احساس ہوا کہ گھریلو کام صرف محنت کا مسئلہ نہیں بلکہ طاقت کا عدم توازن بھی ہے۔ طاقت ہمیشہ اس کے پاس رہتی ہے جو کمانے والا ہوتا ہے؛ چاہے آپ جتنا بھی اچھا کھانا بنا لیں، اس کا کوئی اعتراف نہیں کرتا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو ہمیشہ اس کمتر حیثیت کو قبول کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

’جب مرد اپنی بیویوں یا ماؤں کی تعریف کرتے ہیں تو اکثر یہ بات اس قربانی کے بارے میں ہوتی ہے جو انھوں نے بچوں کے لیے دی یا اس دیکھ بھال کے بارے میں جو مائیں ان کے اور گھر کے لیے کرتی ہیں۔‘

انڈیا کے ٹائم یوز سروے کے مطابق معاشرے میں تبدیلی کی رفتار سست ہے اور خواتین کے گھریلو کام میں کم وقت صرف کرنے میں ابھی مزید وقت لگ سکتا ہے۔

تب تک ’مسز‘ جیسی فلمیں روزمرہ کے ان سوالات پر بحث چھیڑتی رہیں گی جنھیں زیادہ تر لوگ نظرانداز کرنا پسند کرتے ہیں جیسے کہ ’برتن کون دھو رہا ہے؟‘

انڈیا: کروڑوں خواتین کام کیوں چھوڑ رہی ہیں؟بالی وڈ فلم ’مسز‘، سیکس لائف میں غیر حسّاس رویہ اور سوشل میڈیا بحث: ’مرد یہ فلم ضرور دیکھیں‘عورتیں اگر گھر کا کام کرنا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ شکر گزار کیوں ہوتی ہیں؟خواتین کے گھریلو کام پر وہ معاوضہ جو ’مرنے کے بعد‘ ملتا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More