ہیپاٹائٹس: بیرونِ ملک ملازمت کے خواہشمند پاکستانیوں کی راہ میں ’خاموش رکاوٹ‘

اردو نیوز  |  Jan 23, 2025

ملازمت کے خواہش مند ہزاروں پاکستانیوں کا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک میں اچھی ملازمت کا خواب بعض اوقات پورا ہونے سے قبل ہی بکھر جاتا ہے۔

تعلیم، مہارت اور قابلیت ہونے کے باوجود ایک خاموش اور پوشیدہ رکاوٹ ہیپاٹائٹس کی وجہ سے بہت سے پاکستانی بیرون ملک کام نہیں کر سکتے۔

اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ سال 2024 میں پاکستان 10 لاکھ کے ہدف کے بجائے صرف سات لاکھ 27 ہزار ورکرز بیرونِ ملک بھجوانے میں کامیاب ہوا۔ یہ تعداد نہ صرف ہدف سے کم تھی بلکہ سال 2023 کے مقابلے میں بھی ایک لاکھ تک کی کم تھی۔

مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ الیکٹریشن احمد نے سعودی عرب میں ملازمت کے لیے مہینوں تیاری کی۔

وہ اور اُن کا خاندان ملازمت کی پیشکش ملنے پر خوش تھا کہ اب اُن کے دن تبدیل ہونے ہی والے تھے لیکن ان کی یہ خوشی اُس وقت ماند پڑ گئی جب ضروری میڈیکل ٹیسٹ کے دوران انہیں ہیپاٹائٹس سی ہونے کا پتا چلا۔

احمد کا کہنا ہے کہ ’مجھے لگا کہ میری دنیا اُجڑ گئی ہے۔ مجھے کوئی علامات تھیں نہ ہی کبھی اندازہ ہوا کہ مجھے یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ اچانک، میرے خواب اور میری تمام رقم برباد ہو گئی۔‘

وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اڑان پاکستان‘ منصوبے کی تیاری کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ بیرون ملک جانے کے لیے پاکستانی جو ضروری میڈیکل ٹیسٹ کرواتے ہیں ان میں ہر پانچواں چھٹا بندہ ہیپاٹائٹس کا مریض نکل آتا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ بیرونِ ملک ملازمت کے مواقع متاثر ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی کام کرنے والوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے ، مزید یہ کہ اس سے عام آدمی کا معیارِ زندگی مزید متاثر ہو رہا ہے۔ اسی لیے ہم نے اس منصوبے میں بھی کئی ایک تجاویز اور اہداف شامل کیے ہیں۔‘

پاکستان دنیا میں ہیپاٹائٹس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل (پی ایم آر سی) کے مطابق تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ پاکستانی ہیپاٹائٹس ’بی‘ یا ’سی‘ سے متاثر ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تخمینے کے مطابق ’ہیپاٹائٹس سی‘ کی شرح چار اعشاریہ نو فیصد اور ’ہیپاٹائٹس بی‘ کی شرح دو اعشاریہ پانچ فیصد ہے، جو عالمی سطح پر سب سے زیادہ ہے۔

پنجاب کے ’ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام‘ نے ایک کروڑ سے زیادہ افراد کی سکریننگ کی ہے(فائل فوٹو: ڈبلیو ایچ او)ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات میں غیرمحفوظ طبی طریقے شامل ہیں، جن میں غیرتربیت یافتہ معالجین کے ذریعے بار بار سرنجوں کا استعمال، طبی اور دندان سازی کے آلات کی نامناسب صفائی، بغیر جانچ کیے خون کی منتقلی اور آلودہ پانی کا استعمال شامل ہیں۔ غیرمحفوظ بیوٹی پروسیجرز جیسا کہ ٹیٹو بنوانا اور کان چھدوانا بھی اس بیماری کے پھیلاؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی بلند شرح کے عوامی صحت پر اثرات کے علاوہ بیرونِ ملک ملازمت کے مواقع پر بھی سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک جو لاکھوں پاکستانی کارکنوں کو ملازمت دیتے ہیں، سخت طبی جانچ کی شرائط عائد کرتے ہیں اور ’ہیپاٹائٹس بی‘ یا ’سی‘ سے متاثرہ افراد کو ملازمت کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ویزا درخواست کے ساتھ میڈیکل رپورٹ جمع کروانا ہوتی ہے اور صرف نامزد لیبارٹریز کی رپورٹس ہی تسلیم کی جاتی ہیں تاکہ جعلی رپورٹ نہ بن سکے۔

کویت کے ایک بڑے ہسپتال میں نرسنگ کی ملازمت حاصل کرنے والی کراچی کی 29 سالہ بشریٰ میں جب ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص ہوئی تو انہیں یقین ہی نہیں آیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے بڑی محنت کے بعد یہ موقع حاصل کیا تھا، مگر جب میڈیکل رپورٹ آئی تو مجھ سے ملازمت کا یہ موقع چھن گیا۔ یہ لمحہ میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔‘

حکومت پاکستان نے ہیپاٹائٹس کے خلاف مختلف اقدامات کیے ہیں تاکہ عوامی صحت کے مسائل کو حل کیا جا سکے اور بیرونِ ملک ملازمت کے مواقع کو محفوظ بنایا جا سکے۔

وزیر اعظم ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کے پروگرام کے تحت اس بیماری کو سال 2030 تک ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جس کے لیے تین برس کے لیے 67.77 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وفاقی حکومت 34.16 ارب روپے فراہم کر رہی ہے جب کہ صوبائی حکومتیں 33.61 ارب روپے کی شراکت کر رہی ہیں۔

اس پروگرام کے تحت ملک بھر میں بڑے پیمانے پر سکریننگ مہم شروع کی گئی ہے، جس کے تحت ہر سال لاکھوں افراد کی جانچ کی جا رہی ہے۔

ملک کے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات اور عوام میں آگاہی کی کمی ایک بڑا چیلنج بن رہی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)پنجاب کے ’ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام‘ نے ایک کروڑ سے زیادہ افراد کی سکریننگ کی ہے اور ہزاروں افراد کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی ہے۔

حکومت نے مفت علاج کی مہم بھی شروع کی ہے، جس کے تحت سرکاری ہسپتالوں میں بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے مفت ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی آگاہی مہم کے ذریعے لوگوں کو بیماری سے بچاؤ کے طریقے، محفوظ سرنجوں کے استعمال اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔

تاہم، ان تمام کوششوں کے باوجود ملک کے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات اور عوام میں آگاہی کی کمی ایک بڑا چیلنج بن رہی ہے۔

ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ’ملک گیر سطح پر اگر مؤثر سکریننگ اور علاج کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک ہیپاٹائٹس کے خاتمے کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘

ملک کے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات اور عوام میں آگاہی کی کمی ایک بڑا چیلنج بن رہی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ’اس حوالے سے مصر کا ماڈل اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں کیوں کہ ماضی قریب میں مصر ہیپاٹائٹس پر قابو پانے والا بڑا ملک ہے۔‘

ہیپاٹائٹس صرف ایک بیماری ہی نہیں بلکہ یہ سماجی بدنامی کا باعث بھی بنتی ہے۔

ڈاکٹر زبیر اسلام آباد کے معروف ہیپاٹولوجسٹ ہیں۔ ان  کا کہنا ہے کہ ’عوام کی اکثریت اس بات سے لاعلم ہوتی ہے کہ وہ اس بیماری کا شکار ہے۔ بروقت سکریننگ، ویکسینیشن اور علاج اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد دے سکتے ہیں۔‘

’ہیپاٹائٹس پاکستانیوں کے لیے خلیجی ممالک میں ملازمت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، لیکن بہتر حکمتِ عملی، آگاہی اور صحت کی سہولیات میں بہتری کے ذریعے اس چیلنج پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘

وزارت سمندر پار پاکستانیز کے حکام کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ برس کا ہدف پورا نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہیپاٹائٹس ہے جس کے بارے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آگاہ کر دیا ہے۔ کوشش کر رہے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو احساس دلایا جائے کہ اس بیماری پر اگر قابو نہ پایا گیا تو صورتِ حال مزید بگڑ سکتی ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More