شادی کی 26ویں سالگرہ پر میاں، بیوی کی ’خودکشی‘: اینی کی پھولوں سے ڈھکی لاش اور واٹس ایپ سٹیٹس ’میرے جانے کے بعد کوئی نہ روئے‘

بی بی سی اردو  |  Jan 10, 2025

انتباہ: اس رپورٹ میں موجود تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

’میں ہمیشہ کے لیے جا رہا ہوں، سب اپنا خیال رکھنا اور میرے جانے کے بعد کوئی روئے نا۔‘

واٹس ایپ سٹیٹس پر لگائے جانے والے اس ویڈیو کلپ میں کہے جانے والے زندگی کے یہ آخری الفاظ ٹونی اور اینی نامی ایسے شادی شدہ جوڑے کے ہیں جنھوں نے اپنی شادی کی سالگرہ کے روز مبینہ طور پر خود کو پھندا لگا زندگی کا خاتمہ کر لیا ہے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق ’بے روزگاری اور اولاد نہ ہونے‘ کی وجہ سے مبینہ طور پر ذہنی دباؤ میں آنے والے اس جوڑے نے خودکشی کر کے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا ہے۔

جیرل مونکرپ عرف ٹونی اور ان کی اہلیہ این جیرل نے چند روز قبل چھ جنوری کو اپنی شادی کی 26 ویں سالگرہ منائی تھی۔

54 سالہ ٹونی اور 45 سالہ اینی نے اُس دن اپنی شادی کا جوڑا پہن کر اپنی شادی کی 26ویں سالگرہ کا جشن منایا تھا۔ اس کے بعد سات جنوری کو صبح چھ بجے کے قریب انھوں نے اپنے رشتہ داروں کے لیے آخری ویڈیو بنائی اور اس ویڈیو کو اپنے واٹس ایپ سٹیٹس پر پوسٹ کر دیا۔

پولیس کے مطابق اس کے بعد دونوں نے خود کو پھانسی لگا کر خودکشی کر لی۔

سینیئر پولیس افسر ارون کشرساگر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ٹونی اور اینی کے گھر سے خودکشی کرنے سے قبل لکھی گئی ایک تحریر بھی ملی ہے ’جس میں انھوں نے خودکشی کی کوئی وجہ نہیں لکھی اور بظاہر انھوں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی سے خودکشی کی ہے۔‘

’ٹونی کی لاش کچن میں لٹکی تھی جبکہ اینی پھولوں کے بستر سے ملیں‘Getty Imagesسات جنوری کو صبح تقریباً ساڑھے سات بجے پولیس کو واقعہ کی اطلاع ملی جس کے بعد وہ جائے وقوعہ پر گئی اور لاشوں کوتحویل میں لے لیا

انڈیا کے شہر ناگپور شہر کے علاقے مارٹن نگر میں رہنے والے اس جوڑے کی زندگی کا خاتمہ اس انداز میں کیوں ہوا اور اس دنپیش آنے والے واقعات کا تسلسل کیا ہے۔

سات جنوری کی صبح کے وقت واٹس ایپ سٹیٹس پر اس ویڈیو کلپ کو دیکھنے کے بعد پڑوس میں رہنے والے ان کے رشتہ دار ٹونی اور اینی کے گھر پہنچ گئے۔ جس کے بعد اس معاملے کی اطلاع پولیس کو بھی دی گئی۔

پولیس کے مطابق انھیں صبح تقریباً ساڑھے سات بجے اطلاع ملی جس کے بعد وہ جائے وقوعہ پر گئے اور اس جوڑے کی لاشوں کو تحویل میں لے لیا۔

مقامی پولیس کے مطابق ٹونی کی لاش کچن میں لٹکی ہوئی ملی جب کہ ان کی بیوی اینی کی لاش گھر کے ایک بستر پر سفید کپڑے میں لپٹی ہوئی تھی اور اُن کے جسم پر پھول بھی رکھے گئے تھے۔

پولیس کے مطابق شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ پہلے اینی نے پھندا لگا کر خودکشی کی جس کے بعد ان کی پھندے سے لٹکتی لاش کو ٹونی نے اُتار کر سفید کپڑے میں لپیٹ کر پھولوں والے بستر پر رکھ دیا اور پھر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

خودکشی کے ایک رقعے( نوٹ) کے ساتھ پولیس کو ان کے گھر سے سٹامپ پیپر اور 75 ہزار روپے بھی ملے ہیں۔ خط میں بتایا ہے کہ جوڑے نے اپنی آخری رسومات کے لیے 75 ہزار روپے رکھے تھے۔

انھوں نے سٹامپ پیپر پر یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اپنا گھر کس کو دینا چاہتے ہیں۔ شادی کی سالگرہ کے موقع پر خودکشی کے اس واقعے پر علاقہ مکین غمزدہ ہیں۔

پولیس کا اس واقعے سے متعلق کیا کہنا ہے؟

سینیئر پولیس انسپکٹر ارون کشرساگر نے بی بی سی کو بتایا خودکشی سے قبل لکھی گئی تحریر میں جوڑے نے بتایا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے خودکشی کر رہے ہیں۔

پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹونی اور اینی دونوں ہی ڈپریشن میں تھے۔

اینی کی صحت کو لاحق مسائل کے سبب ڈیڑھ سال قبل ان کی سرجری کر کے ان کی بچہ دانی نکال دی گئی تھی اور تب سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔

پولیس کے مطابق کچھ سال پہلے تک ٹونی ایک ہوٹل میں ملازمت کرتے تھے جبکہ ان کی بیوی اینی گھر میں روز مرہ کے کام کاج کرتی تھیں۔

لیکن پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق کچھ عرصے سے ٹونی بے روزگاری کے دن کاٹ رہے تھے۔

پولیس نے بتایا کہ اس معاملے میں حادثاتی موت درج کی گئی ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔

ڈسکہ میں زہرہ قدیر کا قتل: ’بیٹی کے سسرال میں دھلا فرش دیکھا تو چھٹی حِسّ نے کہا کچھ بہت برا ہو چکا ہے‘خودکشی کا ڈرامہ، موبائل فون نوٹ: ماں باپ کو قتل کرنے والا انجینیئرنگ کا طالب علم کیسے پکڑا گیا؟سینکڑوں برطانویوں کو ’خودکشی کے لیے ساتھی‘ کی تلاش: ’یہ موت کا ایک ایسا راستہ ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں‘’شوہر جس بستر پر دو دن سے سو رہا تھا، اسی کے نیچے سے بیوی کی لاش ملی‘واٹس ایپ کی ’لائیو لوکیشن‘ جس نے جنوبی پنجاب کی ایک نرس کو ریپ سے بچا لیاسارہ شریف قتل کیس: پاکستانی نژاد والد کا اپنی 10 سالہ بیٹی کو کرکٹ بیٹ سے پیٹنے کا اعتراف
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More