ویکسین کی غیر موجودگی میں ایچ ایم پی وی وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن اور یہ کورونا وائرس سے کتنا مختلف ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 07, 2025

Getty Imagesچین میں اس وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بارے میں سوشل میڈیا پر کافی باتیں ہو رہی ہیں

کورونا وائرس کے بعد ایک اور وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے قیاس آرائیاں چل رہی ہیں۔ اس کا نام ہیومن میٹا نمونیا وائرس یا ایچ ایم پی وی ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس کورونا وائرس کی طرح خطرناک نہیں ہے اور احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس سے بچا جا سکتا ہے۔

چین میں اس وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بارے میں سوشل میڈیا پر کافی باتیں ہو رہی ہیں جبکہ انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں دو شیر خوار بچوں میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

پاکستان میں بھی لوگ ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ وائرس ان کی زندگیوں کو کتنا متاثر کر سکتا ہے۔

Getty Imagesپانچ سال سے کم عمر کے بچوں پر یہ وائرس زیادہ اثر انداز ہوتا ہےیہ بیماری کتنی خطرناک ہے؟

مشہور وائرولوجسٹ ڈاکٹر وی روی نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’اس بارے میں بہت زیادہ تشہیر کی گئی ہے۔ یہ وائرس 15-16 سال پہلے دریافت ہوا تھا۔ یہ ایک موسمی انفیکشن ہے۔

’یہ عام طور پر انفلوئنزا کے معاملات کے ساتھ پایا جاتا ہے اور بچے اس سے سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹر گگندیپ کانگ ویلور کے کرسچن میڈیکل کالج (سی ایم سی) میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور گیٹس فاؤنڈیشن کے تحت امریکہ کے گلوبل ہیلتھ ڈویژن سے بھی وابستہ ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چین سے آنے والی رپورٹس کے مطابق ایچ ایم پی وی کے علاوہ دیگر وائرس بھی ہیں۔ یہ ایک عام بات ہے کہ مختلف وائرسوں کا مرکب انسان میں انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’عام طور پر، اس طرح کے انفیکشن سردیوں اور بہار کے موسم میں زیادہ پھیل سکتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں ان کے مختلف اثرات ہوتے ہیں۔ گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔‘

اس معاملے پر پاکستان میں بھی ماہرینِ صحت کا خیال دنیا کے دیگر ڈاکٹروں سے مختلف نہیں ہے۔ ملک میں صحت کے امور کی نگرانی کرنے والے ادارے نیشنل انسٹٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کے ترجمان ڈاکٹر ممتاز علی خان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ کوئی نیا وائرس ہے اور یہ پہلی مرتبہ 2001 میں آیا تھا۔‘

ڈاکٹر ممتاز نے تصدیق کی کہ اس ’موسمی وائرس‘ کے پاکستان میں ایکٹیو کیسز ضرور موجود ہیں اور ملک میں اس وائرس کے کیسز کی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔

Getty Imagesیہ ایک پرانا وائرس ہے لیکن اس کا اینٹی وائرس نہیں بنا ہےایچ ایم پی وی کیا ہے؟

امریکہ کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق اس وائرس کی پہلی بار شناخت 2001 میں ہوئی تھی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس سے کئی دہائیوں سے زیادہ عرصے سے موجود ہے۔

عام طور پر اس کی علامات زکام یا فلو جیسی ہوتی ہیں۔ اس میں کھانسی، بخار، ناک بند ہونا اور سانس کا مشکل سے آنا شامل ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ بہت زیادہ سنگین ہو سکتا ہے۔

سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ وائرس ہر عمر کے لوگوں میں سانس کی بیماری جیسے برونکائٹس یا نمونیا کا سبب بن سکتا ہے، لیکن زیادہ تر چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور کمزور مدافعتی نظام والے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔

اس وائرس کی مدت کا دورانیہ تین سے چھ دن ہے، اور بیماری کی مدت وائرس سے متاثر ہونے کی شدت کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے لیکن یہ وائرس دیگر سانس کے انفیکشن کی طرح ہے۔

سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ اس کے جائزے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وائرس موسم سرما کے آخر اور معتدل آب و ہوا میں موسم بہار کے دوران سب سے زیادہ فعال ہوتا ہے۔

پاکستان کے قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ)کے ترجمان ڈاکٹر ممتاز کے مطابق اس وائرس کی علامات بھی نزلے اور زکام سے ملتی جلتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ وائرس ’پانچ سال سے کم عمر بچوں، حاملہ خواتین، ذیابطیس یا کینسر کے مریضوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

یہ وائرس چھینک کی بوندوں، قریبی ذاتی رابطے، اور وائرس سے آلودہ علاقوں کو چھونے کے بعد منھ، ناک یا آنکھوں کو چھونے سے پھیلتا ہے۔

جبکہانڈیا کے ڈاکٹر روی نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’یہ ایک موسمی انفیکشن ہے۔ یہ انفلوئنزا کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس میں عام طور پر بچے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔ اور بوڑھے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن انفیکشن کا امکان اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا کہ کورونا وائرس میں ہوتا ہے۔‘

انڈین ریاست کرناٹک کے محکمہ صحت اور خاندانی بہبود کے ایک تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا میں ابھی ایچ ایم پی وی کے کیسز میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ہے۔

وزیر صحت دنیش گنڈو راؤ کی صدارت میں محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدیداروں کی میٹنگ کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'تشویش کی کوئی وجہ نہیں ہے، لیکن احتیاطی تدابیر کی سفارش کی جاتی ہے۔‘

پریگابالین: اضطراب کا علاج کرنے والی سکون آور دوا کا غلط استعمال کیوں بڑھ رہا ہے اور یہ کیسے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟اگر آپ کے جسمانی اعضا غلط جگہ پر ہوں تو کیا یہ خطرے کی بات ہے؟پاکستان میں ’سانس لینے کی جنگ‘: بیجنگ اور لندن نے بدترین سموگ کے مسئلے کا حل کیسے نکالا؟پنجاب میں پھیلتی خسرہ کی وبا: وجوہات کیا ہیں اور حکومت روک تھام کے لیے کیا کر رہی ہے؟BBCسانس لینے میں تکلیف ہو سکتی ہےیہ کورونا وائرس سے کتنا مختلف ہے؟

ڈاکٹر انیش ٹی ایس کیرالہ ون ہیلتھ سنٹر فار نیپاہ ریسرچ اینڈ ریسیلینس کے نوڈل آفیسر ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایچ ایم پی وی کووڈ 19 سے مختلف ہے۔ کووڈ ایک نیا وائرس تھا۔ اس کی وجہ سے کسی بھی انسان میں دوسرے وائرسوں کی طرح اس کے خلاف قوت مدافعت نہیں تھی۔‘

ڈاکٹر کانگ نے کہا کہ ’اگر ہم ایسے وائرسوں کی درجہ بندی کریں جو بچوں کے لیے خطرہ ہیں، تو میں آر ایس وی (یعنی رسپائریٹری سنسائٹل) وائرس کو نمبر ایک وائرس کے طور پر رکھوں گا۔‘

’سانس لینے میں تکلیف کی وجہ کی تحقیقات کے دوران ایچ ایم پی وی کا پتہ چلا۔ اس لیے ابتدائی طور پر اس کے بارے میں زیادہ معلومات سامنے نہیں آئیں لیکن اب یہ واضح ہے کہ یہ ایچ ایم پی وی ہے۔‘

آر ایس وی ایک عام لیکن انتہائی متعدی وائرس ہے جو دسمبر-جنوری کے دوران اپنے عروج پر ہوتا ہے۔

یہ پھیپھڑوں، ناک اور گلے کو متاثر کرتا ہے اور کمزور افراد میں سنگین بیماری یا موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

ڈاکٹر انیش اور ڈاکٹر کانگ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جب بچہ پانچ سال یا اس سے زیادہ کا ہو جاتا ہے تو وہ اس وائرس سے مکمل قوت مدافعت حاصل کر لیتا ہے۔

ڈاکٹر کانگ نے کہا کہ ’اس وائرس سے دوبارہ انفیکشن ہوسکتا ہے، لیکن یہ عام طور پر ہلکا انفیکشن ہوتا ہے۔ یہ بہت چھوٹے بچوں، بوڑھوں یا ایسے لوگوں میں ہو سکتا ہے جن کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا ہے یا جن کو دائمی پلمونری بیماری ہے یا پھر دوسرے لوگ جن کو کوئی مرض لاحق ہے یا ان کی قوت مدافعت کمزور ہے ان کے لیے یہ طویل عرصے تک کھانسی کا باعث بن سکتے ہیں، لیکن ہمارے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘

Getty Imagesدوریاں بنا کر رکھیںایسے میں لوگوں کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

ڈاکٹر روی کا کہنا ہے کہ سب سے بہترعمل انفیکشن سے بچنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر لوگوں میں نزلہ یا کھانسی کی علامات ہیں، تو وہ سب سے بہتر کام یہ کر سکتے ہیں کہ وہ گھر میں رہیں کیونکہ ایچ ایم پی وی کی روک تھام کے لیے کوئی اینٹی وائرل نہیں ہے۔‘

اگرچہ انفیکشن کا امکان کووڈ جتنا زیادہ نہیں ہے تاہم انھوں نے بتایا ’یہ انفیکشن ہجوم میں پھیلتا ہے۔ اس لیے بھیڑ بھاڑ والی جگہوں سے بچیں۔‘

پاکستان میں ڈاکٹر ممتاز بھی ایسا ہی مشورہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ’اس وائرس کے خلاف ویکسین تاحال نہیں بنائی جا سکی ہے لیکن کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس سے بچا جا سکتا ہے: جیسے کہ منھ پر ماسک پہنیں، بڑے اجتماعات میں نہ جائیں اور نزلہ و زکام میں بھی فوراً کسی ماہرِ صحت سے رجوع کریں۔‘

جو لوگ کبھی سگریٹ نہیں پیتے انھیں بھی پھیپھڑوں کا کینسر کیوں ہو جاتا ہے؟بچے کا نپل منھ میں نہ لینا، چھاتی میں درد اور سوجن: دودھ پلانے والی ماؤں کو پریشان کرنے والی باتیں اور ان کے حل پریگابالین: اضطراب کا علاج کرنے والی سکون آور دوا کا غلط استعمال کیوں بڑھ رہا ہے اور یہ کیسے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟اگر آپ کے جسمانی اعضا غلط جگہ پر ہوں تو کیا یہ خطرے کی بات ہے؟ہمارے جسم میں موجود ’دوسرا دل‘ کیسے کام کرتا ہے؟پنجاب میں پھیلتی خسرہ کی وبا: وجوہات کیا ہیں اور حکومت روک تھام کے لیے کیا کر رہی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More