انڈیا میں انشورنس کا وہ سکینڈل، جس نے محمد علی جناح کے تاجر دوست کو جیل پہنچا دیا

بی بی سی اردو  |  Jan 04, 2025

BBCرام کرشن ڈالمیا

ہندوستان جیسی مضبوط منڈی والے ملک میں بہت سے صنعتی گروہ تھے جنھوں نے تقسیم سے پہلے ہی مختلف شعبوں میں تجارت کی۔

غیر اخلاقی ذرائع سے دولت کمانے، بدعنوانی کے ذریعے کاروبار کرنے یا بائیں بازو کے طریقوں سے پروان چڑھنے کے الزامات تقسیم کے بعد اکثر کاروباریوں یا صنعتی گروپوں کے خلاف لگائے جاتے رہے ہیں۔

تاجروں اور سیاست دانوں کے تعلقات، مخالفین کی طرف سے الزامات اور اس کے معنی اور سیاست میں ہلچل عام چیز ہے تاہم تقسیم کے فوراً بعد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک طاقتور گروہ کہٹرے میں کھڑا ہوا۔

سنہ 1950 کی دہائی میں انڈیا کا اس وقت کا تیسرا سب سے بڑا گروپ بدعنوانی کے الزامات میں الجھ گیا۔

اس وقت کی نہرو حکومت نے اس صنعتی گروپ کی تحقیقات کرائیں اور اس گروپ کو قصوروار پایا۔ یہ ڈالمیا جین گروپ تھا!

خاص بات یہ ہے کہ ڈالمیا جین گروپ کو کٹہرے میں لانے والے شخص خود نہرو کے داماد تھے یعنی فیروز گاندھی !

یہ کیس کیا ہے؟ ڈالمیا جین صنعتی گروپ کا سکینڈل کیا ہے اور اس کمپنی کی دلچسپ تاریخ کیا ہے؟

ڈالمیا جین گروپ نے مختلف شعبوں میں توسیع کی

آزاد انڈیا میں صنعت کاری کو زیادہ زور دیا گیا۔ صنعتی گروہوں میں جو اس وقت بڑے اور ملک گیر تھے، ڈالمیا جین گروپ کا نام سب سے پہلے لیا جاتا تھا۔

اگرچہ ماضی میں بھی ان پر بدعنوانی کا الزام لگایا جاتا رہا لیکن آزاد انڈیا میں صنعت کاری کو فروغ دینے میں اس جماعت کی شراکت کو اب بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔

ڈالمیا جین گروپ سیمنٹ، بینکنگ (انڈیا بینک اور پنجاب نیشنل بینک)، انشورنس (انڈیا انشورنس)، میڈیا (بینیٹ کولمین)، چینی، کاغذ، کیمیکل، ٹیکسٹائل، ہوا بازی، موٹر گاڑیاں، بجلی کی تقسیم، بسکٹ مینوفیکچرنگ کے لیے کام کرتا اور دودھ کا کاروبار مختلف علاقوں میں پھیلا ہوا تھا۔

رام کرشن ڈالمیا اس گروپ کے سربراہ تھے۔ درحقیقت وہ آزادی سے پہلے یعنی 1930 کی دہائی سے ایک سرکردہ تاجر تھے۔

قدرتی طور پر ان کا نام ہندوستان کی تقسیم کے بعد پہلے چند بڑے کاروباری افراد میں شامل تھا۔

Srishti Publishersجوئے کی عادت سے کاروباری شخصیت تک

ڈالمیا، جو کبھی بہت غریب تھے اتنے عظیم کیسے بن گئے اس کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ ڈالمیا نے 1949 میں امریکی پریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس کی تفصیل بتائی۔

اس سفر کو بھاسور مکھرجی نے اپنی کتاب 'The Founding Fathers of Fraud'میں درج کیا۔

راجستھان کے علاقے چداوا میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ڈالمیا نے اپنا بچپن کلکتہ میں گزارا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد ایک بڑے خاندان کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ گئی۔

وہ اپنے چچا موتی لال جھنجھن والا کے ساتھ کام پر جاتے تھے۔ وہاں انھوں نے تجارت میں بہت سی چیزیں سیکھیں۔

انھوں نے خاص طور پر چاندی کی تجارت کی تمام تدبیریں سیکھ لیں۔ ابتدائی طور پر اچھی رقم کمانے کے بعد، وہ قیاس آرائیوں اور جوئے کا عادی ہونے کی وجہ سے دوبارہ مالی پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔

قرض میں ڈوبے ڈالمیا نے ایک نجومی کی مدد لی اور چاندی کی تجارت میں بہت زیادہ منافع کمانے کے لیے خطرہ مول لیا۔ اس کا ذکر بھی انھوں نے اپنی سوانح عمری اور انٹرویوز میں کیا۔

اس منافع کے بعد ڈالمیا نے سٹے بازی چھوڑ دی اور اپنی توجہ کاروبار پر مرکوز کر دی۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ، اس گروپ پر فنڈز کے غلط استعمال، امیر کمپنیوں کے فنڈز کو ان کے نجی کاروبار میں منتقل کرنے اور ان کی انشورنس کمپنیوں کے فنڈز کو غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا۔

انڈیا میں بینک پر فراڈ کا الزام: ’مینیجر نے میرے جعلی دستخط کر کے چیک بُکس بنائیں، میرے 16 کروڑ روپے ڈوب گئے‘انڈیا میں 190 کروڑ روپے کا ڈیجیٹل فراڈ جو ایک خاتون کی کال اور لوکیشن ٹریس کرنے پر بے نقاب ہوابینک اشورنس میں ’فراڈ‘ کیا ہے اور صارفین اپنی ڈوبی رقوم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟اندرا گاندھی کا روپ اور آواز کی نقل کر کے بینک سے 60 لاکھ روپے کیسے نکلوائے گئےنہرو کے داماد نے اس فراڈ کا پردہ فاش کیا

فیروز گاندھی آزاد انڈیا کے پہلے عام انتخابات میں رائے بریلی کے حلقے سے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ درحقیقت عوام کے نمائندے کے طور پر یہ ان کی پہلی تقریر تھی۔

1955 میں، ایک تحقیقات سے معلوم ہوا کہ پالیسی ہولڈرز کی جانب سے انشورنس کمپنی میں لگائے گئے فنڈز کی ایک بڑی رقم غائب ہو گئی تھی۔

اس پس منظر میں اس وقت کے صدر نے نومبر میں انشورنس ایکٹ کو مضبوط بنانے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا۔ اس آرڈیننس کو قانون میں تبدیل کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں بحث چل رہی تھی۔ اس قانون کی حمایت میں فیروز گاندھی نے تقریباً ایک گھنٹہ پچاس منٹ کی تقریر کی۔

فیروز گاندھی نے کہا ’بہت سی نئی کمپنیاں کاروبار میں داخل ہوئی ہیں کیونکہ انشورنس کا کاروبار بہت منافع بخش ہے۔ کم سرمائے کی ضرورت اور لوگوں کی طرف سے ادا کیے جانے والے بڑے پریمیم کو استعمال کرنے کے مواقع کا ان کمپنیوں کے ذریعے غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

NEHRU MEMORIAL MUSEUM AND LIBRARYفیروز گاندھی نے ہی اس سکینڈل کو بے نقاب کیا تھا

اسی تقریر میں فیروز گاندھی نے آخر کار ڈالمیا جین گروپ کے زیر کنٹرول انڈیا انشورنس کمپنی کو نشانہ بنایا۔

انھوں نے الزام لگایا کہ انڈیا انشورنس کمپنی نے پینشنرز کے فنڈز سے دو کروڑ 20 لاکھ روپے کا غلط استعمال کیا۔ فیروز گاندھی کی اس تقریر کے بعد حکومت کی توجہ انشورنس انڈسٹری میں ہونے والی بددیانتی کی طرف مبذول کرائی گئی۔

ڈالمیا نے 1936 میں انڈیا انشورنس کمپنی خریدی اور صرف ایک سال میں کمپنی کا ٹرن اوور 25 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔

بھاسور مکھرجی نے کتاب ’فاؤنڈنگ فادرزآف فراڈ‘ میں ذکر کیا کہ فیروز گاندھی نے اپنی ڈرامائی تقریر میں ڈالمیا گروپ کا مذاق اڑایا۔

ڈالمیا نے چاندی کی تجارت کیسے شروع کی اور ایک نجومی کی پیشگوئی پر وہ کیسے امیر ہوئے اس کی کہانی بھی پارلیمنٹ میں سنائی گئی۔

فیروز گاندھی نے یہ بھی تنقید کی کہ اب ڈالمیا انشورنس عوام کے پیسے سے جوا کھیل رہی ہیں۔

اس سلسلے میں ڈالمیا کی بیٹی نیلیما ڈالمیا آدھار نے اپنی کتابFather's Dearest: The Life and Times of R. K. Dalmiya میں لکھا ہے کہ ’1955 میں پارلیمنٹ میں فیروز گاندھی کے پرزور مطالبہ نے نہرو کو وہ موقع فراہم کیا جس کا وہ انتظار کر رہے تھے۔ پھر ویوین بوس کمیشن آف انکوائری کے قیام سے ڈالمیا بدترین صورتحال میں پھنس گئے۔‘

کمیشن آف انکوائری، جرم اور سزاGetty Imagesجواہر لال نہرو

اس کے بعد نہرو کی قیادت میں حکومت ہند نے 11 دسمبر 1956 کو ڈالمیا جین گروپ آف کمپنیز کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس انکوائری کا مقصد اس بات کی تحقیقات کرنا تھا کہ آیا اس گروپ کی کمپنیوں میں فراڈ، بے ایمانی یا غیر قانونی لین دین ہو رہا ہے۔

بمبئی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس آر ٹنڈولکر اور اس وقت کے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ویوین بوس کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کیا۔

ٹنڈولکر کے علاوہ، کمیشن میں ابتدائی طور پر این آر مودی، آڈٹ فرم اے ایف فرگوسن اینڈ کمپنی کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور انکم ٹیکس کمشنر ایسسیچوہدری ممبر تھے۔ 20 اگست 1958 کو جسٹس ویوین بوس نے بیماری کی وجہ سے ٹنڈولکر کے بعد اس کمیشن کی قیادت سنبھالی۔

اس کمیشن آف انکوائری نے اپنی 815 صفحات پر مشتمل رپورٹ 15 جون 1962 کو پیش کی۔

کمیشن آف انکوائری نے کہا کہ رپورٹ میں پایا گیا کہ ڈالمیا گروپ نے لوگوں کے فنڈز کا غلط استعمال کیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ گروپ نے سرکاری کمپنیوں، بینکوں اور انشورنس کمپنیوں سے ذاتی استعمال کے لیے پیسے لیے تھے۔

ڈالمیا گروپ نے اس کمیشن پر سوال اٹھاتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1952 کے تحت کمیشن آف انکوائری غلط اور اس ایکٹ کا اطلاق نجی کمپنیوں پر نہیں ہوتا۔

تاہم عدالت نے اس دلیل کو مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔

بالآخر ڈالمیا کو تہاڑ جیل میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔

اس گھپلے کے سامنے آنے کے بعد 19 جنوری 1956 کو انڈیا میں انشورنس انڈسٹری کو نیشنلائز کر دیا گیا۔

اس کے بعد ڈالمیا کی صنعتی سلطنت زوال پذیر ہونے لگی۔

Getty Imagesمحمد علی جناحڈالمیا کے اہم شخصیات سے تعلقات

درحقیقت دوسری عالمی جنگ کے بعد سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں پیشرفت میں تیزی آئی۔ اس عرصے کے دوران بہت سی انڈین کاروباری شخصیات نے اسے اپنے نجی اثاثوں کو بڑھانے کے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔ ڈالمیا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔

ایک بڑے تاجر کے طور پر ڈالمیا کے محمد علی جناح، جمنالال بجاج، جے کے برلا، بیکانیر، جے پور، دربھنگہ، جودھ پور، جام نگر کے مہاراجہ، حیدرآباد کے نظام کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔

ابتدائی دنوں میں ڈالمیا کانگریس اور مہاتما گاندھی کے دلدادہ تھے لیکن بعد میں ڈالمیا ہی جواہر لال نہرو کی ناقد بن گئے۔

آزادی سے پہلے کے بہت سے لیڈروں اور انقلابیوں کے ساتھ یعنی ڈاکٹر راجندر پرساد، سبھاش چندر بوس، ولبھ بھائی پٹیل، جے پرکاش نارائن سے ان کے اچھے تعلقات تھے۔

وہ جواہر لال نہرو سے کبھی نہیں ملے تاہم محمد علی جناح کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار تھے۔ وہ ان کے خاص قریبی دوست تھے۔ ڈالمیا کا گھر جناح کے گھر سے صرف پانچ منٹ کی دوری پر تھا اور وہ اکثر ساتھ وقت گزارتے تھے۔ ڈالمیا نے خود جناح کا بنگلہ 10، اورنگزیب روڈ (اب ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام روڈ) دہلی میں تقسیم کے بعد دو لاکھ روپے میں خریدا تھا۔

ڈالمیا ایک مذہبی انسان تھے۔ انھوں نے گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے لیے بہت کام کیا۔

ڈالمیا کا نام گاندھی کے قاتل کی ڈائری میں

مہاتما گاندھی کو قتل کرنے والے نتھورام گوڈسے نے قتل سے پہلے بہت ریکی کی تھی۔ جنوری 1948 میں دہلی آنے والے نتھورام گوڈسے نے دہلی ریلوے سٹیشن سے ہی ڈالمیا کو فون کیا۔

اس بارے میں معلومات ڈالمیا کی بیٹی نیلیما ڈالمیا نے Father's Dearest: The Life and Times of R. K. Dalmiyaمیں فراہم کیں۔

اپنی کتاب میں وہ لکھتی ہیں کہ ’گوڈسے نے محسوس کیا کہ ڈالمیا ایک امیر اور طاقتور ہندو ہیں جن کی آواز ملک کے کونے کونے تک پہنچتی ہے۔ اس لیے اس نے سوچا کہ ڈالمیا اس مشن میں مدد کر سکتے ہیں۔ وہ ڈالمیا کے بارے میں اور کچھ نہیں جانتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ ایک مذہبی ہندو ہیں اور انھوں نے کھل کر کانگریس کے لیے سخت ناپسندیدگی ظاہر کی ہے۔‘

انھوں نے یہ سوچ کر فون نہیں اٹھایا کہ شاید کال کرنے والا کسی خیراتی ادارے سے پیسے مانگنے کے لیے فون کر رہا ہے تاہم بعد میں یہ عمل ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔

کیونکہ گاندھی کے قتل کے بعد جب نتھورام گوڈسے پکڑا گیا تو ڈالمیا کا رابطہ نمبر ان کی ڈائری میں درج تھا تاہم پولیس ایسا کوئی ثبوت نہیں حاصل کر سکی کہ ڈالمیا قتل میں ملوث تھے۔

اندرا گاندھی کا روپ اور آواز کی نقل کر کے بینک سے 60 لاکھ روپے کیسے نکلوائے گئےانڈیا میں رقم کی ادائیگی کا سادہ نظام جو کاروبار کے ساتھ ساتھ فراڈ بھی آسان بنا رہا ہےانڈیا میں 190 کروڑ روپے کا ڈیجیٹل فراڈ جو ایک خاتون کی کال اور لوکیشن ٹریس کرنے پر بے نقاب ہوا13 ہزار تنخواہ لینے والے سرکاری ملازم پر 21 کروڑ روپے غبن کا الزام: ’ملزم نے گرل فرینڈ کو چار کمروں کا اپارٹمنٹ خرید کر دیا،‘ پولیسانڈیا میں بینک پر فراڈ کا الزام: ’مینیجر نے میرے جعلی دستخط کر کے چیک بُکس بنائیں، میرے 16 کروڑ روپے ڈوب گئے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More