پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں ’سنگل ڈیجٹ تک کمی‘ کے حکومتی دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 04, 2024

Getty Images

’ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی کا مطلب یہ نہیں کہ یہ منفی یا کم ہو گئی ہے، پاکستان میں اب بھی کنزیومر پرائس انفیلیشن یعنی عام صارفین کی روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں اب بھی بڑھ رہی ہیں۔

’پاکستان میں مہنگائی کے اعداد و شمار ہمیشہ سالانہ تجزیہ پر بتائے جاتے ہیں، مجموعی طور پر گذشتہ چار برسوں کے دوران پاکستان میں مہنگائی میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔۔۔ اور حالیہ اعداد و شمار پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، پاکستانی روپیہ کمزور اور عوام پِس چکے ہیں۔‘

یہ چند ایسے تبصرے ہیں جو معاشیات سے واقفیت رکھنے والے مختلف سوشل میڈیا صارفین پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے مہنگائی کی شرح کم ہونے کے دعوے کے بعد کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

پاکستان کے ادارہ شماریات نے دو ستمبر کو ملک میں مہنگائی سے متعلق رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگست 2023 مہنگائی کی جو شرح 27.84 فیصد تھی وہ رواں برس اگست میں کم ہو کر 9.6 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ اکتوبر 2021 کے بعد ملک میں مہنگائی کی سب سے کم شرح ہے۔ اکتوبر 2021 میں یہ شرح 9.2 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

حکومت کا مہنگائی میں کمی کا دعوی کیا ہے؟

ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی سے متعلق جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی تقریباً تین سال بعد ’سنگل ڈیجٹ‘ پر آگئی اور رواں برس اگست میں مہنگائی کی شرح 9.64 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی مہنگائی کی شرح میں کمی اور دیگر معاشی اشاریوں میں بہتری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فچ کے بعد، عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے حال ہی میں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو اپ گریڈ کیا، جو کہ ’بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے ملک کے مثبت معاشی اشاریوں کا اعتراف ہے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کے دن اسلام آباد میں وفاقی کابینہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’مہنگائی کا بوجھ آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے، مہنگائی کی شرح میں کمی آرہی ہے اور اگست میں مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ پر آگئی ہے، گذشتہ سال اسی عرصے کے دوران یہ شرح 27 فیصد تھی۔‘

ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی سے متعلق ماہانہ رپورٹ میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق افراطِ زر کی شرح 34 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئی ہے جس کا بنیادی اثر ’نان پیرش ایبل‘ یعنی طویل عرصے تک محفوظ رہنے والی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر ہے۔ تاہم، دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں میں قابل ذکر دگنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

Getty Images

ادارہِ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگست 2024 میں سالانہ بنیادوں پر کنزیومر پرائس انڈیکس گذشتہ مہینے میں 11.1 فیصد تھی، یوں ماہانہ مہنگائی کی شرح 0.39 فیصد رہی جب کہ اگست 2023 میں مہنگائی کی شرح 27.4 فیصد تھی۔

اس طرح مالی سال 2025 کے پہلے دو ماہ جولائی اور اگست کے دوران اوسط مہنگائی 10.36 فیصد رہی جو گذشتہمالی سال کے اسی عرصے کے دوران 27.84 فیصد تھی۔

ادارہِ شماریات کا کہنا ہے کہ اگست میں شہری علاقوں میں مہنگائی 0.27 اور دیہی علاقوں میں 0.55 فیصد بڑھی جس کے بعد اگست میں شہروں میں مہنگائی کی شرح 11.71 فیصد اور دیہات میں یہ شرح 6.73 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

واضح رہے کہ وزارتِ خزانہ نے اپنے ’ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک‘ رپورٹ میں کہا تھا کہ اگست میں مہنگائی 9.5 سے 10.5 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے جب کہ ستمبر میں مہنگائی مزید کم ہو کر 9 سے 10 فیصد کے درمیان متوقع ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برآمدات، درآمدات اور ترسیلاتِ زر میں اضافے کا رجحان ہے جبکہ اگست میں برآمدات 2.5 ارب سے 3.2 ارب ڈالرز کے درمیان متوقع ہیں۔

عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ کرتے ہوئے آؤٹ لک مستحکم سے مثبت کر دیا تھا اور پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ ’سی اے اے 3‘ سے ’سی اے اے 2‘ کر دی تھی۔

پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام: ’اب ہم ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکتے ہیں‘شرح سود میں کمی: پاکستان میں مہنگائی کم ہوئی یا اس کی مزید بڑھنے کی رفتار رُک گئی؟بجلی کا وہ ’ایک اضافی یونٹ‘ جو آپ کے بل میں دوگنا اضافے کی وجہ بنتا ہےبجلی کی قیمتوں میں اضافہ: ’تندور پر بھی جب پنکھا لائٹ جلنے سے بجلی کا بل بڑھے گا تو روٹی کی قیمت پر اثر پڑے گا‘اشیائے ضرورت کی قیمتیں رواں برس اگست کے مقابلے میں گذشتہ برس کتنی تھیں؟

پاکستان کے ادارہِ شماریات کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ رواں برس اگست میں مہنگائی کی شرح میں کمی کی ایک وجہ گذشتہ سال اگست میں مہنگائی کی بلند شرح کے ساتھ ساتھ گندم، آٹے اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں کمی آنا ہے۔

جبکہ رواں برس حکومت کی جانب سے بجٹ میں لگائے گئے بھاری ٹیکسوں کے باعث کپڑے، جوتے، جلد خراب ہونے والی اشیائےِ خوردونوش، مکان کے کرائے، پانی، بجلی، گیس، ایندھن، صحت کی خدمات اور تعلیمی اخراجات کی قیمتوں میں دو گنا اضافہ ہوا۔

گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس اگست میں گیس کی قیمتوں میں 319 فیصد، گاڑیوں کے ٹیکس میں 169 فیصد،ٹرانسپورٹ سروسز میں 23 فیصد اضافہ ہوا۔

جبکہ پیاز کی قیمتوں میں 136 فیصد، تازہ سبزیوں میں 77 فیصد، دالوں کی قیمتوں میں 43 فیصد، تازہ پھلوں کی قیمتوں میں 27 فیصد، دودھ کے پاؤڈر میں 24 فیصد، گوشت کی قیمت میں 20 فیصد اور دودھ کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

واضح رہے کہ رواں برس حکومت نے بجٹ میں ان اشیا پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا تھا۔

جبکہ اس کے برعکس، رواں برس اگست میں گذشتہ سال کے مقابلے میں گندم کی قیمتوں میں 37 فیصد، گندم کے آٹے کی قیمت میں 34 فیصد، اور کوکنگ آئل میں 12 فیصد کمی، چائے کی قیمت میں تین فیصد، چینی کی قیمت میں تقریباً چار فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔

BBCروز مرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں فرق کا چارٹ (ذریعہ ادارہ شماریات پاکستان)

تو کیا پاکستان میں مہنگائی واقعی کم ہوئی، جس کی بنیاد پر ایک عام پاکستانی کو کوئی ریلیف ملا ہو؟ اس سلسلے میں ہم نے حکومتی اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے بی بی سی نے ماہرین معیشت سے اس بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی ہے۔

کیا پاکستان میں مہنگائی واقعی کم ہوئی؟Getty Images

ماہرینِ معیشت کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال مہنگائی میں کمی نہیں آئی بلکہ اس کے بڑھنے کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود ابھی بھی عام فرد کے لیے صورتحال بہت پریشان کن ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد اضافہ اس وقت خط غربت سے نیچے ہے یعنی ایک تہائی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

ثنا توفیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مہنگائی کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ سینسیٹو پرائس انڈیکیٹر (ایس پی آئی) کے ذریعے سودا سلف اور روزمرہ خریداری میں شامل اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ مہنگائی نے آپ کی گروسری باسکٹ کو کس حد تک متاثر کیا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس اشاریے کے مطابق ’اس گروسری باسکٹ میں سب سے زیادہ حصہ تقریباً 34 سے 35 فیصد خوراک کا ہے اور اگر کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں پر اثر پڑے گا تو یقیناً ایک عام صارف کی زندگی پر بھی اثر مرتب ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ مہنگائی کی شرح کا جائزہ لیتے وقت پیٹرولیم، ٹرانسپورٹ اور ہاؤسنگ انڈیکس کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ اس ماہ مہنگائی کی شرح میں کمی سنگل ڈیجٹ میں آئی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ پیٹرولیم مصنوعات، ٹرانسپورٹ اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا ہونا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مہنگائی کی شرح میں کمی نظر آنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ برس ہمارا بیس انڈیکس ہی بہت زیادہ تھا اس لیے تمام اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ رواں برس جو بھی اعداد و شمار سامنے آئیں گے وہ یقیناً گذشتہ برس سے کم ہوں گے۔‘

Getty Images

’حکومت اس کو اپنی کامیابی نہیں کہہ سکتی کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بین الاقوامی منڈی میں کمی کے باعث ہے اور بجلی کی قیمت اور ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں بھی کمی کا تعلق تیل کی قیمت سے ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ایک عام آدمی کو سب سے زیادہ روز مرہ کی کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں سے فرق پڑتا ہے جن میں سے زیادہ تر گذشتہ سال کے مقابلے میں بڑھی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ حالیہ مون سون کے باعث کھانے کی قیمتوں میں آنے والے ماہ میں کوئی کمی متوقع نہیں ہے اور عام آدمی کے لیے رواں سال بجٹ اور عائد ٹیکسز کے باعث قوت خرید اتنی کم ہو گئی ہے کہ اس کے لیے قیمتوں میں معمولی فرق اس کی جیب پر ریلیف میں کوئی فرق نہیں ڈالتا۔

مہنگائی کی شرح میں کمی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو بالکل اس کی رفتار میں کمی آئی ہے اور رواں برس یہ امید کی جا رہی ہے کہ ملک میں مہنگائی کے بڑھنے کی رفتار گذشتہ برس کے مقابلے میں کم ہو کر 10 سے 11 فیصد رہے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ حکومت ٹیکس ہدف سے دو ماہ پیچھے ہیں ایسے میں یہ خدشہ بھی ہے کہ کہیں حکومت کوئی منی بجٹ نہ لے آئے ایسے میں ٹیکسوں کا نیا بوجھ عوام کی کمر مزید توڑ سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ حکومت نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے وقت شرح سود میں بھی کمی لا سکتی ہے۔

’اگر ایسا ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ ملک میں معاشی تیزی آئے گی اور سرمایہ داروں کا مارکیٹ کے ماحول پر مثبت اثر پڑے گا۔ جس سے نہ صرف کاروباری دنیا میں معمولی تیزی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی قوت خرید بھی بہتر ہو سکتی ہے۔‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر معیشت سمیع اللہ طارق بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ملک میں مہنگائی کے بڑھنے کی رفتار میں کمی ہوئی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کو اگر آسان الفاط میں بیان کیا جائے تو مہنگائی میں کمی کچھ اس طرح ہوئی کہ گذشتہ برس جو چیز 100 روپے سے بڑھ کر 127 روپے کی ہوئی تھی رواں برس اگست میں وہ 100 روپے سے بڑھ کر 109 روپے کی ہوئی ہے۔‘

’مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ 100روپے والی چیز کم ہو کر 90 روپے پر آ گئی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کسی گھر کا زیادہ خرچ اس کی گروسری باسکٹ پر ہے تو یقیناً اسے مہنگائی کی اس سست ہوتی رفتار سے زیادہ فرق محسوس نہیں ہو گا کیونکہ آپ کی مہنگائی کے اشاریوں میں 34 سے 35 فیصد حصہ صرف گروسری باسکٹ کا ہے۔‘

سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ حکومت کا اعداد و شمار کا ہیر پھیر ہے، گذشتہ برس عدم استحکام کے باعث آپ کا بیس یونٹ ہی بہت زیادہ تھا، اگر عوام کو حقیقی ریلیف دینا ہے تو حکومت کو کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کو قابو میں لانے کے ساتھ ساتھہاؤسنگ اور دیگر اشاریوں پر بھی توجہ دینا ہو گی۔‘

اسی بارے میںبجلی کے بل میں ’چھپے‘ وہ ٹیکس جو حکومت آپ سے وصول کر رہی ہےکیا چھت پر سفید رنگ کرنے سے گھر کو ٹھنڈا رکھنے کے ساتھ ساتھ بجلی کے بل میں کمی ممکن ہے؟پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ کن بڑے شعبوں سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مظاہرین کیا چاہتے ہیں اور احتجاج پرتشدد کیوں ہو گیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More