پنجاب کی وزارت داخلہ نے حال ہی میں ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ پنجاب فرانزک لیب کی سکیورٹی اور طریقہ کار کس حد تک فول پروف ہے اور اس کو مزید بہتر بنانے کی کتنی ضرورت ہے۔ پنجاب فرانزک لیب سے متعلق حکام کی تشویش معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ لیب میں ہونے والی چوری ہے جس نے سب کی دوڑیں لگوا دیں۔پچھلے ہفتے پنجاب فرانزک لیب کے ایک ملازم کو پولیس نے اس وقت حراست میں لیا جب وہ منشیات فروخت کر رہا تھا۔
تھانہ مصطفیٰ آباد میں درج ایف آئی آر کے مطابق فرانزک لیب کا ملازم خالد مشتاق نہ صرف لیب سے منشیات چوری کرنے میں ملوث ہے جبکہ اس نے فرانزک رپورٹ کے لیے آیا ہوا ایک پستول اور گولیاں بھی چوری کی ہیں۔ پولیس کے مطابق وہ لیب سے چیزیں چرا کر آگے بیچنے کا کام کرتا ہے۔
پولیس نے ملزم کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ پستول بیچنے کے لیے گاہک ڈھونڈ رہا تھا۔گرفتار ی کے وقت اس سے 100 گرام آئس بھی برآمد ہوئی وہ بھی اس نے لیبارٹری سے ہی چوری کی تھی۔ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کے دیگر ساتھیوں کی تلاش کا عمل بھی شروع کیا گیا تو پولیس کو ایک اور احتشام نامی شخص تک بھی پہنچی جس سے 200 گرام آئس برآمد ہوئی۔پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں افراد گینگ کی شکل میں لیب سے چرایا گیا اسلحہ اور منشیات فروخت کرنے میں ملوث تھے۔خیال رہے کہ فرانزک لیب انتہائی حساس ادارہ ہے اور پاکستان بھر سے ڈین این اے کے لیے سیمپلز یہیں بھیجے جاتے ہیں۔فرانزک لیب کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے کسی بھی بیرونی شخص کو لیب کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔لیب میں جرائم سے تعلق رکھنے والے مواد کو تحقیق کے لیے لایا جاتا ہے (فوٹو: فری پک)پنجاب بھر کے پولیس سٹیشنز سے آنے والے ثبوت ایک خاص طریقہ کار کے تحت لیب کے اندر لے جائے جاتے ہیں جہاں ان کو نئے کوڈ دیے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی طریقے سے اس کی جانچ نہ ہو سکے کہ یہ ثبوت کہاں سے آئے ہیں۔فرانزک رپورٹ مکمل ہونے کے بعد ثبوت اور رپورٹ پولیس کے حوالے کر دی جاتی ہے، تاہم ملک بھر سے فرانزک کے لیے آںے والے مواد کا زیادہ لوڈ ہونے کی وجہ سے رپورٹ کے لیے کئی ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور اکثر اس کی اکثر شکایت بھی سامنے آتی رہتی ہے۔پنجاب کی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے ایڈیشنل سیکریٹری برائے انٹرنل سکیورٹی کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو دوروز میں اس بات کی تحقیقات کرے گی کہ لیب سے چوری کا یہ معاملہ کس حد تک سنگین ہے۔اس کمیٹی کے دیگر دو ارکان میں فرانزک لیب کے ڈائریکٹر ایڈمن اور محکمہ داخلہ کے سیکشن آفیسر برائے خودمختار ادارہ جات شامل ہیں۔ یہ کمیٹی نہ صرف سابق ملازموں بلکہ موجودہ ملازمین سے بھی انکوائری کرے گی۔پنجاب کے سیکرٹری داخلہ نورالامین داخلہ کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ ’پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی پاکستان کی پہچان ہے۔ اس کو بدنام کرنے کوشش کی گئی ہے، اس میں ملوث تمام کرداروں کو سزا دی جائے گی۔