چولستان میں نظر آنے والی نایاب جنگلی بلی کی نسل کو معدومیت کا خطرہ کیوں ہے؟

اردو نیوز  |  Apr 23, 2025

پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں ایک نایاب نسل کی بلی دیکھی گئی ہے۔ کیراکل (سیاہ گوش) نامی اس نایاب بلی کو رحیم یار خان کے صحرائے چولستان میں نایاب چنکارہ ہرن کے شکار کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

کیراکل ایک نایاب نسل کی بلی ہے جو پاکستان میں معدومیت کے خطرات سے دوچار ہے۔

فہد ملک جنگلی حیات کے بچاؤ کے لیے سرگرم ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس بلی کا سائنسی نام کیراکل (Caracal)  ہے۔ یہ لفظ ترک زبان کے لفظ Karakulak (یعنی کالا کان) سے نکلا ہے جسے سِیاہ گوش یعنی کالے کان بھی کہتے ہیں۔‘

گذشتہ روز صحرائے چولستان میں پٹرولنگ کرتے ہوئے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر مجاہد کلیم کو یہ بلی نظر آئی۔ انہوں نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ پنجاب میں پہلی بار کسی کیراکل یا سیاہ گوش بلی کی ویڈیو ریکارڈ ہوئی۔

رحیم یار خان کے اسسٹنٹ چیف وائلڈ لائف رینجر مجاہد کلیم کے مطابق یہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں ایک تاریخی لمحہ تھا۔

ان کے بقول ’وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار و افسر مختلف مقامات پر پٹرولنگ کرتے ہیں تاکہ جانوروں کے لیے ممکنہ خطرات کو کم کیا جاسکے اور ان پر نظر رکھی جائے۔ اس دوران میں نے صبح ساڑھے 7 بجے کے قریب کیراکل کو دیکھا جو ایک ہرن کو شکار کرنے جا رہی تھی۔‘

اس نایاب نسل کی بلی کو عموماً کم دیکھا جاتا ہے۔ مجاہد کلیم کے مطابق عام طور پر اس کا نظر آنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

’یہ بات درست ہے کہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے پیشہ ور لوگوں کے لیے ایسے مواقع تاریخی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیوں کہ یہ بلی صحراؤں میں پائی جاتی ہے اور اپنے مسکن سے مشابہت رکھتی ہے جب کہ یہ معدومیت کے خطرے سے دوچار نایاب نسل کی بلی ہے جس کی وجہ سے اسے دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی بھی وائلڈ لائف افسر کے لیے ایسے لمحات تاریخی تصور کیے جاتے ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق پنجاب میں اس بلی کا قدرتی مسکن چولستان ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)ان کے مطابق اس طرح کی بلی رواں ماہ کے دوران تین بار حرکت کرتے ہوئے دیکھی گئی۔ ’لیکن اس کے دیکھے جانے کا دورانیہ اس قدر کم ہوتا ہے کہ اس لمحے کو ریکارڈ کرنا ممکن نہیں ہوتا البتہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ہم نے اس کی باقاعدہ ویڈیو بنائی ہے۔‘

کیراکل یا سیاہ گوش ایک خوبصورت اور نایاب جنگلی بلی ہے جس کی آنکھیں دیگر جانوروں کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں۔

یہ صحرا میں صحرائی چوہوں، خرگوش، اور ہرن سمیت دیگر جانوروں کو قریباً 10 فٹ کے فاصلے تک چھلانگ لگا کر شکار کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق پنجاب میں اس بلی کا قدرتی مسکن چولستان ہے جبکہ یہ پاکستان کے ان علاقوں کے علاوہ شمال مغربی انڈیا، وسطی ایشیا، ایران اور افریقہ میں بھی پائی جاتی ہے۔

فہد ملک کے مطابق یہ ایک درمیانے قد کی جنگلی بلی ہے جس کی جنگلی آبادی اب عام نہیں رہی۔

’پاکستان میں یہ بہت کم نظر آتی ہے اور اب صرف چولستان سمیت جنوبی پنجاب کے چند علاقوں، سندھ اور بلوچستان کے مخصوص مقامات پر کم تعداد میں موجود ہے۔ یہ خشک علاقوں، جھاڑیوں، گھاس کے میدانوں، نیم صحرائی علاقوں اور پتھریلی زمینوں کو بھی اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔‘

وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے مجاہد کلیم کے بقول یہ بلی انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ (فوٹو: ایکس)ان کے مطابق یہ چوںکہ چنکارہ ہرن جیسے جانوروں کا شکار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس لیے مقامی لوگ اکثر اسے اپنی بھیڑ بکریوں کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں اور نقصان کے اندیشے پر اسے مار دیتے ہیں۔

اس بلی کی جسامت کی وجہ سے بھی لوگ اس سے ڈر جاتے ہیں۔ یہ نہ تیندوے جیسی ہے اور نہ عام بلی جیسی، یہ اپنی درمیانی جسامت کی وجہ سے خرگوش، مرغیوں، اور بھیڑ بکریوں پر حملہ آور ہوتی ہے اس لیے انسان اسے مار دیتے ہیں۔

تاہم وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے مجاہد کلیم کے بقول یہ بلی انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتی۔

فہد ملک بتاتے ہیں کہ اس کی خصوصیات میں اس کا مضبوط جسم، لمبے پاؤں، چھوٹا چہرہ، لمبے بالوں والے کان، نسبتاً چھوٹی دم اور کُتے کے جیسے نوکیلے دانت ہیں۔ ماہرین کے مطابق حملے کے خطرے کے پیش نظر کیراکل کو مار دینے اور ان کے مسکن کو متاثر کرنے کی وجہ سے یہ نایاب ہوتی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے فہد ملک بتاتے ہیں ’اس کے نایاب ہونے میں بھی انسان ہی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ان نظرانداز انواع میں شامل ہے جنہیں پاکستان میں فوری تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے قدرتی مسکن پر بلا ضرورت زرعی، تجارتی اور چراگاہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔‘

ان کے مطابق اس وقت پاکستان میں اس جنگلی بلی کو مؤثر تحفظ فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

مجاہد کلیم کے بقول ’وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ تمام ایسے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔ صحرا میں ہمارے اہلکار ہمہ وقت مصروف ہوتے ہیں۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More