چنئی کا ’آخری یہودی‘ جو تاریخ میں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہے

بی بی سی اردو  |  Feb 08, 2024

ڈیوڈ لیوی کا دعویٰ ہے کہ وہ انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں رہنے والے آخری یہودی تھے۔

اس دعوے کی بنیاد وہ سرکاری ریکارڈ ہے جس کے مطابق تمل ناڈو کے شہر چنئی میں زندگی بسر کرنے والا آخری یہودی خاندان ڈیوڈ لیوی کا ہی تھا۔

بی بی سی اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا کہ ڈیوڈ اور ان کی اہلیہ تمل ناڈو میں رہنے والے آخری یہودی تھے یا نہیں۔

ڈیوڈ نے 2020 میں ایک پراپرٹی کی تنازع کے سبب ’سکیورٹی وجوہات‘ کی بنا پر انڈیا چھوڑ دیا تھا اور آج کل وہ اپنے خاندان کے ساتھ جرمنی میں مقیم ہیں۔ لیکن اُن کا کہنا ہے کہ چنئی ان کے لیے ہمیشہ پہلا گھر رہے گا اور وہ انڈیا میں اپنی برادری کے ثقافت اور تاریخ کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔

ڈیوڈ کے پرتگالی نژاد خاندان کی تقریباً 10 نسلیں چنئی میں رہی ہیں جو کہ برطانوی راج میں ریاست مدراس کا حصہ تھا۔

ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ اُن کی پردادی کا نام روزا تھا جس کا مطلب تمل زبان میں ’پھول‘ ہے۔ انھوں نے ایمسٹرڈم کے ایک ہیروں کے تاجر آئزک ہینریکس ڈی کاسترو سے شادی کی تھی جس کے بعد یہ دونوں مدارس آ گئے تھے۔

ڈیوڈ کے دادا اور دادی 1944 میں جرمنی کے ایک دورے کے دوران ہولوکاسٹ میں مارے گئے تھے۔

اس جوڑے کی ہلاکت کے بعد ان کے اکلوتے صاحبزدے لیوی ہینریکس ڈی کاسترو انڈیا لوٹ آئے تھے۔

ڈیوڈ برسوں سے چنئی میں رہنے والے اپنے خاندان اور دیگر یہودیوں کی تاریخ کو اپنے فیس بُک اکاؤنٹ پر محفوظ کر رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی تمل کو بتایا کہ ’میں ایسا اس لیے کرتا ہوں تاکہ میرے آبا ؤ اجداد کی میراث میرے ساتھ ہی نہ مر جائے۔‘

لیکن آج کل انھوں نے اپنے خاندان کی تاریخ کو محفوظ کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ سنہ 2020 میں انھوں نے تمل ناڈو کے محکمہ آثارِ قدیمہ کو ایک خط لکھا تھا اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کے خاندان کے نوادرات کو میوزیم میں رکھیں تاکہ وہ تاریخ میں محفوظ ہو سکیں۔

ان نوادرات میں چاندی سے لکھی گئی کچھ مقدس یہودی تحریریں، برتن، مذہبی اوراق اور یہودیوں کی ایک عبادت گاہ سے حاصل ہونے والی کچھ اشیا تھیں۔ اس عبادت گاہ کے آخری پیشوا ڈیوڈ کے دادا تھے۔

انڈیا میں 2011 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق ملک میں اس وقت 4 ہزار 429 یہودی آباد تھے اور ان میں سے صرف دو تمل ناڈو میں موجود تھے۔ سنہ 1921 میں مدراس میں یہودیوں کی تعداد 45 تھی۔

تمل ناڈو کے محمکہ آثارِقدیمہ کا کہنا ہے کہ وہ میوزیم سے متعلق ڈیوڈ کی درخواست پر غور کر رہے ہیں۔

محکمہ آثارِقدیمہ کے ڈائریکٹر ٹی ادے چندرن کا کہنا ہے کہ ’ہمارے محققین ابھی ان اشیا کی عمر اور ملکیت کی تصدیق کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ان تمام چیزوں کی تصدیق ہونے میں مزید ایک برس لگ سکتا ہے۔

مقامی ماہرینِ برائے آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان اشیا کی تاریخی اہمیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس سے یہودی برادری کے ایسے رُخ کا پتا چلتا ہو جو کہ کافی غیرمعروف ہے۔

انڈین تاریخ دان وینکٹیش رام کرشن کہتے ہیں کہ 17 ویں صدی میں جب یہودی اپنے خلاف ہونے والے مظالم کی وجہ سے سپین چھوڑ رہے تھے اس وقت چنئی ان کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سارے خاندان ایسے تھے جو یورپ میں مقیم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ہیروں کی تجارت کرتے تھے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’جب ان کی تجارت نے فروغ پانا شروع کیا تو چنئی میں ایک سڑک کا نام بھی ایک یہودی سے منسوب کر دیا گیا۔ شہر میں کورل مرچنٹ سٹریٹ آج بھی موجود ہے۔‘

تاریخ دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیوڈ کے خاندان سے حاصل ہونے والے نوادرات سے مجموعی طور پر انڈیا میں رہائش پزیر یہودی برادری کی تہذیب پر بھی روشنی ڈالی جا سکے گی۔

تمل ناڈو کے علاوہ کئی یہودی خاندان انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ، مغربی ریاست مہاراشٹر اور مشرقی بنگال میں بھی آباد ہوئے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں یہودیوں کی تہذیب اور تاریخ تیزی سے عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہے۔

ایک اور تاریخ دان کرما چندرن کہتے ہیں کہ کیرالہ میں 11 ویں صدی سے 16 ویں صدی تک یہودیوں کی آٹھ عبادگاہیں بنائی گئی تھیں لیکن اب ان میں سے صرف ایک موجود ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کیرالہ کی حکومت کو ان تاریخی مقامات کی حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا ایک ایسا ملک ہے جو بین الامذاہب اتحاد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہودیوں کی نسلوں نے انڈیا میں ایک پُرامن اور محفوظ زندگی گزاری ہے اور ان کی تاریخ اب انڈیا کی تاریخ ہے۔‘

لیکن ڈیوڈ کہتے ہیں کہ تمل ناڈو میں بھی یہودیوں کی عبادت گاہیں لاپرواہی کا شکار ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ چنئی میں یہودیوں کی دو عبادت گاہیں ہوا کرتی تھیں جو کہ 17 ویں صدی میں بنائی گئی تھیں۔

ڈیوڈ کا کہنا کہنا ہے کہ دونوں عبادت گاہیں اب چنئی میں موجود نہیں اور آخری عبادت گاہ کو 1968 میں مسمار کر دیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری پوری برادری بکھر گئی اور ہم اپنی پراپرٹی کو بچانے کے لیے لڑ بھی نہیں سکے۔‘

تاریخ دان رام چندر ویتھیاناتھ کہتے ہیں کہ تمل ناڈو کے عجائب گھروں اور کلچرل سینٹرز میں یہودی برادری کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہاں رہنا والے یہودی ’مقامی لوگوں اور ان کی معاشرتی تحریکوں سے جُڑے ہوئے تھے‘ اور درست ہو گا کہ حکومت ڈیوڈ کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے ان کے خاندانی نوادرات کو عجائب گھروں میں محفوظ رکھے۔

ڈیوڈ کا بھی کہنا ہے کہ نوادرات کو محفوظ بنانا ان کا ذاتی خواب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ مقدس نوادرات ہیں جو میرے آباؤ اجداد احترام سے استعمال کیا کرتے تھے۔‘

ختنے کی رسم یہودیوں میں کیوں باقی رہی اور مسیحیوں نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟کیبوتز: یہودی برادری کا انوکھا طرز زندگی جس نے اسرائیلی ریاست کو استحکام بخشااسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا اور غزہ کے ساتھ اِس کے تنازع کی تاریخ کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More