Getty Images
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ’الیکٹیبلز‘ کا تصور نیا نہیں۔ ایک صدی قبل 1923میں تشکیل پانے والی ’یونینسٹ‘ جماعت جاگیرداروں اور گدی نشینوں یعنی الیکٹیبلز پر مشتمل پارٹی تھی۔
سنہ 1937 میں جب پنجاب اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی پارٹی نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور اُن کے لیڈروں کو احساس ہوا کہ اگر اُن کی جماعت نے ایسے اُمیدواروں کو اپنے ہاں جگہ نہ دی تو پنجاب میں ان کی سیاست پنپ نہ سکے گی۔
سنہ 1946 کے الیکشن میں مسلم لیگ نے جب الیکٹیبلز پر انحصار کیا، تو بھرپور کامیابی سمیٹی۔ جان آرشمٹ کی کتاب ’گرہ کھلتی ہے: جہاد کے دور کا پاکستان‘ میں رقم ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ’مسلم لیگ نے بااثر شخصیات کا تعاون حاصل کر لیا اور ان لوگوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 1946 کے انتخابات میں جاگیردارانہ سیاست کے بل بوتے پر اپنے مخالفین کو شکست سے دوچار کر دیا۔‘
تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں اہم ترین نشستوں پر جاگیردار طبقہ - ممدوٹ ہوں یا دولتانہ یا دستی - کا قبضہ رہا۔ ایوب خان جیسے آمر کو بھی الیکٹیبلز کی ضرورت پڑی۔
سنہ 1970 کے الیکشن میں ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں الیکٹیبل خاندانوں کا زور ٹوٹا اور پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے متوسط طبقے کے افراد کی بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی ممکن ہوئی۔
پروفیسرمحمد صدیق قریشی کی کتاب ’پولیٹیکل کلچر اِن پاکستان‘ میں درج ہے کہ ’سنہ 1970 کے الیکشن میں پہلی بار 55 سیٹیں متوسط طبقہ کے حصہ میں آئیں۔‘ تاہم اُس الیکشن میں بھی قومی اسمبلی کی 52 سیٹوں پر جاگیردار طبقے کا قبضہ رہا۔ جبکہ پانچ سیٹوں پر سرمایہ داروں کی اِجارہ داری قائم ہوئی۔
پھر سنہ 1977 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایک بارپھر الیکٹیبلز خاندانوں پر انحصار کرنا پڑا۔
سنہ 1985 کے عام انتخابات سے 2018 تک کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ البتہ 2013 میں پاکستان تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے نئے چہروں کو سامنے آنے کا موقع ملا تو پی ٹی آئی کے حوالے سے یہ تاثر ملا کہ اب الیکٹیبلز کے مقابلے میں عام افراد کو ٹکٹ دیے جائیں گے۔
مگر 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے الیکٹیبلز پر ہی انحصار کیا حالانکہ عمران خان کہتے تھے کہ وہ کسی بھی ’داغدار‘ شخص کو اپنی پارٹی کا اُمیدوار نہیں بنائیں گے۔ بعدازاں اُنھوں نے بھی الیکٹیبلز کی حمایت کی۔
اقتدار چھن جانے کے بعد عمران خان نے اپنے انٹرویوز میں کہا کہ ان کی جماعت کو اب ’الیکشن میں جیت کے لیے الیکٹیبلز کی ضرورت نہیں۔‘
اب یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی نے الیکٹیبلز پر انحصار کیا ہے یا نہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ الیکٹیبلز کے سیاسی کردار کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیتے ہیں کہ الیکٹیبلز کون ہوتے ہیں اور موجودہ الیکشن میں اِن کو سیٹ نکالنے میں کن چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔
Getty Imagesالیکٹیبلز کون ہوتے ہیں اور ان کا کیا اقسام ہیں؟
ایک ایسا اُمیدوار جو اپنی ذاتی حیثیت کی بنیاد پر سیٹ نکال سکتا ہو، الیکٹیبل تصوّر کیا جاتا ہے۔ یہ اُمیدوار اپنے حلقے کے اندر برادری، دھڑا، شرافت، تھانہ کچہری کی سیاست، سماجی خدمت، معاشی حیثیت، عقیدت یا پھر خوف کا ووٹ بینک رکھتا ہے۔
اِس ووٹ بینک کا حجم اتنا ہو جاتا ہے کہ جب مقامی پینل، پارٹی ووٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ، جیسے دیگر فیکٹرزکا ووٹ بینک شامل ہوتا ہے تو اُس کی جیت یقینی ہوجاتی ہے۔
تاہم بعض الیکٹیبلز کو کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اپنے تئیں سیٹ نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
الیکٹیبلز کی دو اقسام ہیں۔ اوّل وہ جو تاریخی پسِ منظر رکھتے ہیں اور سیاسی روایت کے تیئں چلے آ رہے ہیں۔ دوسرے وہ جو سیاسی عمل کے تسلسل اور سماجی تغیرات کے ارتقائی عمل میں حادثاتی و اتفاقی طور پر ابھرے ہیں۔
اوّل الذّکر وہ ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں گدی نشین خانوادے یا خانقاہی گھرانے بنائے گئے جن کا سماجی مرتبہ زمینداری و مذہبی اثر و رسوخ کا مجتمع تھا۔ اس کے ساتھ وہ جاگیردار اور قبائلی سردار جن کی سیاسی قوت کا منبع اُن کو ملنے والی جاگیریں اور بطور قبائلی سردار مراعات تھیں۔
مؤخرالذکر وہ جن کی طاقت کا دار و مدار زمینداری یا پیری مریدی کی بجائے پیسے کی فراوانی پر ہے۔ ان میں کاروبار، صنعت کار اور اوور سیز آمدن کا پسِ منظر رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ ہیں جو دیرپا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ رہ کر اپر مڈل کلاس شہری بنے۔ ان کی بدولت تاریخی و روایتی سیاسی خانوادوں کی اجارہ دارانہ اور سیاسی بالادستی کمزور پڑی۔
واضح رہے کہ الیکٹیبلز محض وہ اُمیدوار نہیں جو اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
سیاسی مباحث میں ایسے الیکٹیبلز زیادہ زیرِ بحث آتے ہیں جو وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ وہ الیکٹیبلز جو وفاداریاں تبدیل نہیں کرتے ان کا کردار اکثر مخفی رہتا ہے۔ اب دو طرح کے الیکٹیبلز کے طرزِ سیاست پر نظر ڈالتے ہیں۔
اوّل: وہ الیکٹیبلز جو تقریباً ہر درپیش انتخابات اور ضمنی انتخابات کے وقت بھاؤ تاؤ کی طرح اپنی سیاسی صف بندی پر غور کرتے ہیں کہ آیا موجودہ سیاسی وابستگی آگے بڑھانی ہے یا متبادل پیشکش قبول کرنی ہے۔ یا پھر اپنی شرائط موجودہ اور متوقع وابستگیوں کو پیش کر کے صف بندی کرنی ہے۔ ان الیکٹیبلز کی سیاست پارٹی ووٹ بینک سے کم متاثر ہوتی ہے کیونکہ عموماً یہ ابھرتی یا اقتدار پاتی جماعتوں سے جوڑ توڑ کرتے ہیں۔
ان الیکٹیبلز میں روایتی زمیندار خانوادے اور گدی نشین گھرانے ہیں جنھیں اپنے مزارعین، مریدین اور سیاسی مقلدین میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے مسلسل اقتدار میں رہنا پڑتا ہے اور وہ کسی نہ کسی صورت اقتدار میں شامل رہتے ہیں۔
دوم: دوسرے وہ الیکٹیبلزجو برسوں تک کسی ایک سیاسی جماعت یا الیکٹیبلز کے اتحاد سے اپنی وابستگی جوڑ رکھتے ہیں اور اُس جماعت یا دھڑے کی حد تک اپنی گرفت مضبوط کرلیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور اتحادی الیکٹیبلز انھیں عموماً نظر انداز نہیں کرتے اور یہ اپنے زیر اثر علاقے کی حد تک اُس جماعت یا الیکٹیبلز اتحاد کی تجسیم ہوتے ہیں۔
Getty Imagesرواں الیکشن میں الیکٹیبلز کو سیٹ نکالنے میں کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟
پاکستان کے سیاسی و انتخابی نظام میں الیکٹیبلز حقیقت ہیں، کوئی مفروضہ نہیں۔ تاہم بعض اُمیدوار، الیکٹیبلز کی مروجہ اصطلاح پر پورا نہیں اُترتے مگر اپنے تاثر کی بنیاد پر الیکٹیبلز کی سیاسی حیثیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ایسے اُمیدوار شکست سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ سنہ 2018 میں پی ٹی آئی کا حصّہ بننے والے چند اُمیدوار ایسے بھی تھے جو 2013 کے الیکشن میں بھی سیٹ نہیں نکال پائے تھے اور سنہ 2018 میں الیکٹیبلز کے تاثر پر پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے میں تو کامیاب ہوئے مگر ہار گئے۔
یہاں اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جیسا کہ نذر محمد گوندل، ندیم افضل چن، فردوس عاشق اعوان، ڈاکٹر نثار جٹ، معظم جتوئی، عظیم الدین لکھوی وغیرہ۔
اب آتے ہیں موجودہ الیکشن میں عمران خان کے اُس بیان کی طرف کہ اس بار اُن کی جماعت کو الیکٹیبلز کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ نجی چینل ہم نیوز سے وابستہ صحافی زاہد گشکوری کہتے ہیں کہ ’چاروں صوبائی و قومی اسمبلی کی 859 نشستوں پر تحریک انصاف جن آزاد اُمیدواروں کی حمایت کر رہی ہے، اُن میں 444 ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ قومی وصوبائی اسمبلیوں کا الیکشن لڑیں گے۔ یعنی پچاس فیصد لوگ نئے ہیں۔ یہ وہی صورتحال ہے جو 2013 کے الیکشن میں تھی جب تحریک انصاف نے چالیس فیصد نئے لوگوں کو متعارف کروایا تھا۔‘
زاہد گشکوری کہتے ہیں کہ ’سنہ 2018 کے الیکشن میں 79 امیدوار جو براہِ راست الیکشن جیت کر آئے تھے، وہ پی ٹی آئی کو چھوڑ چکے ہیں۔ یعنی اس بار ان کے پاس الیکٹیبلز نہیں ہیں۔‘
Getty Images
8 فروری کو ہونے والا الیکشن الیکٹیبلز کے لیے کئی طرح کے چیلنجز کا حامل ہوسکتا ہے؟ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی سطح پر جو الیکٹیبلز پی ٹی آئی مخالف دھڑوں سے وابستہ ہیں، اُنھیں ’عمران فیکٹر‘ کا چیلنج درپیش ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کی قیادت میں پی ڈی ایم کی لگ بھگ سولہ ماہ کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کا باعث نہ بن سکی، پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے الیکٹیبلز کو ووٹرز کے غصّے کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
واضح رہے کہ چاروں صوبوں میں الیکٹیبلز کی نوعیت اور سیاست مختلف قسم کی ہے۔ جو الیکٹیبلز کا تصور خیبرپختونخوا میں ہے، ویسا پنجاب میں نہیں۔
خیبر پختوا کے صحافی علی اکبر کہتے ہیں کہ ’خیبرپختونخوا میں الیکٹیبلز کا تصور کم ہے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ دس سیٹیں ہوں گی۔ پنجاب کی طرح یہاں لوگ برادری کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتے۔ یہاں نہ بڑے زمیندار ہیں اور نہ ہی پیری مُریدی کا انفلوئس۔‘
علی اکبر کہتے ہیں ’یہاں بڑے اہم لوگ جیسے آفتاب شیرپاؤ، اسفند یارولی، ارباب فیملی، سلیم سیف اللہ برادران بھی ہار جاتے ہیں۔‘
اسی طرح اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی میر اسلام کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں بلوچ بیلٹ اور پشتون بیلٹ کا مزاج مختلف ہے۔ بلوچ بیلٹ میں الیکٹیبلز کا کلچر ہے۔ جھل مگسی کی نواب ذوالفقار مگسی کی فیملی کو دیکھ لیں۔ خالد مگسی، نواب زادہ طارق مگسی الیکٹیبلز ہیں۔ بگٹی فیملی الیکٹیبلز تصور ہوتی ہے، مگر اب یہ کمزور ہو رہی ہے۔
’نواب ثنا اللہ زہری، جام کمال، اختر مینگل، اسلم رئیسانی اور محمود اچکزئی الیکٹیبلز ہیں۔ مگر محمود اچکزئی پچھلی مرتبہ ہار گئے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے الیکٹیبلز پارٹیاں تبدیل کرتے رہتے ہیں، بعض خاندان اپنی پارٹیوں کے سربراہ ہیں۔
اگر سندھ کی سطح پر الیکٹیبلز خاندان کی بات کریں تو یہاں کی دیہی ثقافت میں الیکٹیبلز خاندانوں کی سیاست مضبوط ہے۔
سندھ کی سیاست پر نظررکھنے والے صحافی گل محمد بلوچ کہتے ہیں کہ ’اس الیکشن میں بھی سندھ کے کئی الیکٹیبلز خاندانوں کی سیاست موثر حیثیت کی حامل ہے۔ ٹھٹھہ کے شیرازی، عمر کوٹ کے تالپور، مٹھی تھر کے ارباب، خیبرپور کے پیرپگاڑو، دادو کے جمالی، گھوٹکی کے مہر سیاسی سطح پر بہت انفلوئنس رکھتے ہیں۔‘
گل محمد بلوچ کہتے ہیں کہ ’بعض الیکٹیبلز کو ابھی تک کسی نے مائنس نہیں کیا ہے۔‘
انتخابی سروے اور تجزیوں پر مبنی ادارہ ’ڈیٹا ورس‘ کے سربراہ حاشر ابن ارشاد پنجاب کے حوالے سے کہتے ہیں ’ہمارے بعض سرویز میں یہ بات سامنے آئی کہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نہیں بنے گی، پی ٹی آئی بطور پارٹی ختم کردی گئی ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں ’لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ 9 مئی کے واقعات سازش کے ذریعے کروائے گئے اور اِس میں مسلم لیگ ن کا ہاتھ ہے۔ یہی پہلو مسلم لیگ ن کے اُن اُمیدواروں کے لیے جو خود الیکٹیبلز ہیں، خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس یہ خیال ظاہر کرتے ہیں ’پی ٹی آئی نے اس بار الیکٹیبلز کے مفروضے کو توڑ دیا ہے۔
’اگر الیکشن فری اینڈ فئیر ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ (آزاد امیدواروں کی) بڑی تعداد جیت سکتی ہے۔‘