سومناتھ مندر: جب ’بت شکن‘ محمود غزنوی کی طرف سے مسمار کی گئی عبادت گاہ کا دوبارہ افتتاح کیا گیا

بی بی سی اردو  |  Jan 30, 2024

Getty Images

گذشتہ پیر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا باضابطہ افتتاح کیا۔ یہ پہلا موقع نہیں جب سرکاری سطح پر کسی مندر کا افتتاح کیا گیا ہو۔

اس سے قبل آزادی کے چار برس بعد 1951 میں بھی اسی طرح کی ایک بڑی تقریب میں تعمیر نو کے بعد سومناتھ مندر کا افتتاح اس وقت کے ملک کے صدر راجندر پرساد نے کیا تھا۔

وزیراعظم جواہر لال نہرو نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ بطور صدر سومناتھ مندر کی تقریب میں شرکت اور اس کا افتتاح نہ کریں لیکن صدر نے ان کے مشورے کو نہیں مانا تھا۔

گجرات کے مغربی ساحل پر واقع سومناتھ مندر کا شمار انڈیا کے اہم ترین ہندو مندروں میں ہوتا ہے۔ تاریخی کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ سومناتھ مندر کو سب سے پہلے 1026 میں محمود غزنوی نے ایک حملے میں مسمار کر دیا تھا۔

1947 میں تقسیم ہند کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے سومناتھ مندر کی تعمیر نو میں مدد کی۔ یہ مندر جب 1951 میں دوبارہ بن کر تیار ہوا تو اس وقت انڈیا کے صدر راجند پرساد کو اس کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے نہرو کے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کے صدر کی حیثیت سے اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔

سومناتھ مندر گجرات کی جونا گڑھ ریاست میں واقع ہے۔ ویب سائٹ پر مندر کی معلومات کے مطابق ’یہ مندر شری سومناتھ مہادیو یعنی شیو دیوتا کے 12 قدیم مندروں کے سلسلے کا پہلا مقدس مقام ہے۔ اسی مقدس مقام سے بھگوان شری کرشن نے آخری سفر کیا تھا۔‘

سمندر کنارے پتھر سے تعمیر اس مندر کو محمود غزنوی نے نہ صرف لوٹا بلکہ عصری مورخین کے مطابق اس میں موجود بتوں کو بھی توڑا تھا۔

محمود غزنوی کے عہد کے مورخین اور بعد میں انڈیا کی سلطنت عہد کے کئی اہم مورخین نے اپنی کتابوں میں سومناتھ پر محمود غزنوی کے حملے کا ذکر کیا۔ بیشتر نے سومناتھ میں رکھے ہوئے بت کو ’منات‘ اور ’لات‘ کا بت بتایا۔

مورخین کے مطابق لات اور منات اسلام سے پہلے عربوں کی دو اہم دیویاں تھیں اور انھیں ’خدا کی بیٹیاں‘ مانا جاتا تھا۔ ان کے بت خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تھے۔ اسلام آنے کے بعد ان بتوں کو توڑ دیا گیا تھا۔

Getty Imagesانڈین ریاست گجرات میں واقع سومنات مندر کا سنہ 1847 میں ہاتھ سے بنایا گیا ایک خاکہ

محمود غزنویکے دو عصری مورخین اور شاعروں نے سومناتھ پر حملے کے واقعے کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے۔ فرخی سیستانی اس عہد کے ایک نامور شاعر تھے اور اس وقت کے تیزی سے ابھرتے ہوئے غزنی کے دربار سے وابستہ تھے۔

انھیں شاعری کی صنف ’قصیدہ‘ لکھنے میں مہارت حاصل تھی۔ اس صنف میں بادشاہ کی صلاحیت اور کارناموں کو مبالغے اور افسانوی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔

فرخی نے ذکر کیا ہے کہ وہ محمود غزنوی کی سومناتھ مہم کے دوران ان کے ساتھ تھے تاہم مندر پر محمود غزنوی کے حملے اور اسے گرائے جانے کے بارے میں کوئی مربوط ذکر نہیں۔

دوسرے ہم عصر مورخ گردیزی تھے جنھوں نے سومناتھ کے واقعے کے تیس برس گزرنے کے بعد اپنی کتاب ’زین الاخبار‘ میں اس کا مفصل ذکر کیا۔ سیستانی اور گردیزی دونوں نے سومناتھ مندر پر محمود غزنوی کے حملے کا ایک عجیب جواز پیش کیا تھا۔

فارسی کی کتابوں میں سومناتھ کو ’سومنات‘ کہا گیا۔ سومناتھ کے حملے کے ضمن میں عصری مورخین نے محمود کو ایسے بت توڑنے والا بتایا جن کی عبادت اسلام آنے سے پہلے بھی کی جاتی تھی۔

فرخی سیستانی کے مطابق ’سومنات سو – منات کا بگڑا ہوا نام تھا جو عرب کی دیوی ’منات‘ سے منسوب تھا۔‘منات اسلام سے قبل عرب کے خطوں میں ایک دیوی کے طور پر پوجی جاتی تھی۔ اسلام سے قبل عرب کے لوگ لات، ‏عزا اور منات کو ’خدا کی تین بیٹیوں‘ کے طور پر پوجتے تھے۔ اسلام سے پہلے جب یمن، شام، ایتھوپیا، مصر اور عراق وغیرہ سے لوگ اس وقت حج کے لیے کعبہ آتے تھے تو طواف کے بعد منات کے مندر بھی جاتے تھے۔

لات، منات اور عزا کے بت کعبہ میں رکھے ہوئے تھےاور انھیں بیشتر بتوں پر فوقیت حاصل تھی۔

فرخی اور گردیزی کے مطابق یہ روایت تھی کہ پیغمبر اسلام ’نے ہدایت دی تھی ان بتوں کو توڑ دیا جائے لیکن کسی طرح منات کی مورتی وہاں سے خفیہ طریقے سے گجرات کے قدیم ساحلی شہر کاٹھیواڑ بھیج دی گئی جہاں سبھی لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔‘

مورخ رومیلا تھاپر نے اپنی کتاب ’سومناتھ: دی مینی وائسس آف ہسٹری‘ میں لکھا ہے کہ ’منات کے بارے میں کہیں کہیں ذکر ہے کہ اسے ایک لمبے کالے پتھر کی شکل میں پوجا جاتا تھا۔ حالانکہ عرب میں اس کی مورتیاں ایک عورت کی شکل میں ملی تھیں۔ سومناتھ کے مندر میں کالے پتھر کی شکل میں لمبے کالے رنگ کے پتھر کے’شیو لنگم‘ سے یہ مورخین کنفیوژ ہوئے ہوں گے یا یہ اس پر حملہ کرنے کا جواز پیش کرنے کی ان کی بعد کی سوچ ہو سکتی ہے۔‘

گردیزی نے لکھا ہے کہ ’سومناتھ کے عقیدت مندوں کو یقین تھا ان کا بت اتنا طاقتور ہے کہ محمود غزنوی اسے تباہ نہیں کر سکے گا۔‘

اس وقت کے ایک صوفی فریدالدین عطار نے سومناتھ کے بت کو اسلام سے قبل عرب میں پوجی جانے والی دیوی ’لات‘ سے منسوب کیا۔ انھوں ے مزید لکھا جب اسے تباہ کیا گیا تو اس میں سے بے پناہ ہیرے جواہرات نکلے۔

13ویں صدی کے مورخ ابن الاثیر نے اپنی کتاب ’الکامل فی التاریخ‘ میں لکھا کہ سومناتھ کا بت توڑنے کا محمود کا ایک مقصد ہندوؤں کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنا تھا کہ یہ ناقابل تسخیر ہے۔

انھوں نے لکھا ’کہا جاتا ہے کہ اس بت کی پوجا سے لوگوں کو شفا ملتی ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ مندر پتھروں کی بنیاد پر قائم تھا اور اس میں لکڑی کے 56 کھمبے تھے۔‘ ان کے مطابق اس مندر میں بڑے بڑے بت تھے جو شیوا لنگم کی شکل میں تھے۔ مندر میں ایک ہزار سے دو ہزار برہمن اور تین سو دیو داسیاں اور موسیقار اس کی خدمت پر مامور تھے۔‘

اس وقت کے دوسرے بڑے مندروں سے موازنہ کرنے پر اس میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی نظر آتی ہے۔

13ويں صدی کے فارسی کے معروف شاعر شیخ سعدی نے بھی اپنی مشہور کتاب ’بوستان‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔

انھوں نے اس میں دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے سومناتھ کا دورہ کیا تھا حالانکہ اس کے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے۔

وہ لکھتے ہیں ’یہ بت ہاتھی کے دانت کا بنا ہوا ہے اور بہت خوبصورت ہے۔ اسے ’منات‘ کی طرح زیورات سے آراستہ کیا گیا ہے۔ یہ بت اتنا متوازن اور صحیح بنا ہوا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں اسے دیکھنے آتے ہیں۔‘

13ویں صدی کے مورخ منہاج الدین سراج نے اپنی کتاب ’طبقات ناصری‘ میں سومناتھ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’محمود نے ہزاروں مندروں کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔ وہ سومناتھ سے منات کا بت اپنے ساتھ لائے اور اسے چار ٹکڑوں میں توڑ دیا۔ اس کے دو ٹکڑے غزنی کے محل اور مسجد میں لگا دیے گئے اور ایک ایک ٹکڑا مکہ اور مدینہ بھیج دیا گیا۔‘

Getty Images

البیرونی نے بھی لکھا ہے کہ سومناتھ مندر کے پتھر اور تھانیسرکے پیتل کے بتوں کو توڑ کر غزنی کی عمارت میں لگایا دیا گیا تھا۔

دو صدی بعد ایک اور مورخ حبیب السیارنے سومناتھ کا ذکر ایک بڑے مندر کے طور پر کیا اور بقول ان کے اس میں ’لات‘ کا بت آویزاں تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مہینے کی بعض راتوں میں ہزاروں عقیدت مند یہاں جمع ہوتے ہیں۔

انڈیا کے معروف مورخ عرفان حبیب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سومناتھ کے بارے میں ہندو روایات اور حکایات میں اس طرح کا ذکر نہیں ملتا۔ ’اسے مسلم مورخین نے بہت زیادہ اچھالا۔ شیخ سعدی نے اس کے بارے میں طرح طرح کی بے بنیاد باتیں پھیلائیں۔ علاؤالدین خلجی کے زمانے میں مورخین نے اس کے بارے ميں طرح طرح کے مبالغہ آمیز ورژن پیش کیے۔‘

اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ محمود غزنوی کے مورخین انھیں خلیفہ کی نظروں میں نہ صرف ایک بت شکن کے طور پر پش کرنا چاہتے تھے بلکہ انھیں انڈیا میں ’اسلامی حکومت‘ کا بانی بھی بنا کر بھی پیش کر رہے تھے۔

حالانکہ ملک کے ایک بڑے حصے میں کئی صدی پہلے عرب حملہ آور اپنی حکمرانی قائم کر چکے تھے۔

محمود کے حملے کے بعد یہ مندر کافی عرصے تک ٹوٹا پڑا رہا۔ بعد میں مغل بادشاہ اکبر نے مندر میں شیو لنگا کی پوجا کی اجازت دی اور مندر کے انتظام کے لیے افسران مامور کیے۔

اکبر کے مورخ ابوالفضل فیضی نے سومناتھ کا ذکر کرتے ہوئے محمود کے حملے کو ’متعصبین کے ذریعے پاکیزگی کی لوٹ‘ قرار دیا تھا۔

رومیلا تھاپر نے لکھا ہے کہ اکبر کے تقریباً سو برس بعد اورنگزیب نے اپنی موت سے ایک برس قبل 1706 میں سومناتھ کو مسمار کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد سومناتھ مندر ویران پڑا رہا۔

1842 میں انگریزی فوج کو افغانستان کی مہم میں زبردست نقصان پہنچا تھا۔ انگریزوں نے جوابی کارروائی کی اور واپسی میں غزنی سے صندل کی لکڑی کا بنا ہوا ایک دروازہ اپنے ساتھ لائے۔

انھوں نے دعوی کیا کہ یہ سومناتھ کا دروازہ ہے جو محمود غزنوی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ انگریزوں نے اسے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے استعال کیا۔

لارڈ ایلن بورو نے گیٹ لانے کو ’ایک توہین کا انتقام‘ قرار دیا تھا۔

لارڈ بورو نے کہا ’برٹش حکومت نے آپ کے پیار کا کیسا جواب دیا ہے۔ وہ آپ کی عزت کو اپنی عزت تصور کرتی ہے۔ اس نے اپنے بازوؤں کی قوت سے سومناتھ کا دروازہ آپ کو واپس لا دیا، جو برسوں سے افغانوں کی یادگار بنا ہوا تھا۔‘

بعد کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس کا سومناتھ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

آزادی کے وقت ریاست کے مسلم نواب نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا تھا لیکن ریاست کی ہندو اکثریت نے اس فیصلے کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔نواب پاکستان چلے گئے اور دیوان نے ریاست انڈین انتظامیہ کے حوالے کر دی۔

وزیر داخلہ سردال پٹیل نے 1947 میں جونا گڑھ کا دورہ کیا۔ وہ سومناتھ مندر بھی دیکھنے گئے جس میں صرف پتھر کے کچھ ستون باقی بچے تھے اور وہ ویران پڑا تھا۔

انھوں نے جونا گڑھ میں ایک بڑی عوامی ریلی میں اس مندر کی تعمیر نو کا اعلان کیا۔ کابینہ نے اس کی منظوری دی لیکن جب پٹیل اور کانگریس کے ایک دیگر لیڈر کے ایم منشی اس کی توثیق کے لیے گاندھی کے پاس گئے تو انھوں نے کہا ’مندر کے لیے پیسہ حکومت کی طرف سے نہیں آنا چاہیے۔ اس کی تعمیر نو کے اخراجات کی ذمہ داری عوام کو اٹھانی چاہیے۔‘

مئی 1951 میں جب سومناتھ مندر مکمل طور پر بن کر تیار ہوگیا تو مندر ٹرسٹ نے صدر راجند پرساد کو اس کے افتتاح کے لیے مدعو کیا۔

مورخ رام چندر گوہا نے اپنی کتاب ’انڈیا آفٹر گاندھی‘ میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم نہرو گھبرا گئے ۔ انھوں نے صدر کو لکھا ’میں اعتراف کرتا ہوں کہ سومناتھ کی غیر معمولی افتتاحی تقریب سے آپ کی وابستگی کے خیال کو میں پسند نہیں کرتا ہوں۔ یہ محض ایک مندر میں جانے کا معاملہ نہیں یہ تو کوئی بھی کر سکتا ہے لیکن ایک ایسی تقریب میں شرکت کرنا جس کے بہت سے مضمرات ہوں مناسب نہیں۔‘

صدر راجندر پرساد نے انھیں جواب میں لکھا کہ وہ صدر کے طور پر اس کا افتتاح کرنے میں کچھ غلط نہیں سمبجھتے۔ وہ سومناتھ گئے اور ایک بڑی تقریب میں نو تعمیر سومناتھ مندر کا صدر کے طور پر افتتاح کیا۔

ایک مہینے بعد نہرو نے انھیں لکھا ’میں سومناتھ کے سلسلے میں فکر مند ہوں۔ جیسا کہ مجھے خدشہ تھا یہ معاملہ اب سیاسی اہمیت اختیار کر رہا ہے۔۔۔ اس معاملے میں ہماری پالیسی پر تنقید کی جا رہی ہے کہ کس طرح ایک سیکولر ریاست ایسی کسی تقریب سے خود کو وابستہ کر سکتی ہے جس کی نوعیت بنیادی طورپر مذہب پرستی کی ہو۔‘

ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر حکومت کی سرپرستی میں ہوئی ہے۔ مندر، اس کے راستوں اور شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے حکومت نے اربوں روپے صرف کیے ہیں۔

22 جنوری کو جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کا افتتاح کیا توکسی نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ سیکولر انڈیا میں وزیر اعظم کی حیثیت سے انھیں کسی عبادت گاہ کا افتتاح نہیں کرنا چاہیے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More