دنیا کی تین سب سے بااثر خواتین نے بی بی سی نیوز کو بتایا ہے کہ وہ جلد سے جلد نابالغ بچوں کی شادیوں کے رواج کا خاتمہ چاہتی ہیں۔
مشیل اوباما، امل کلونی اور ملنڈا فرینچ گیٹس نے گزشتہ سال اس معاملے پر اپنی غیر سرکاری تنظیموں کے اشتراک کا اعلان کیا تھا۔
حالیہ صورت حال میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ نابالغ بچوں کی شادیوں کا رواج 300 سال تک ختم نہیں ہو سکے گا۔
تاہم سابق صدر اوباما کی اہلیہ نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو کل حل ہو سکتا ہے۔‘
تینوں خواتین نے ملاوی اور جنوبی افریقہ کے دورے کے دوران بی بی سی 100 وومین سے خصوصی بات چیت کی۔
26 سالہ لوسی نے آنسووں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’میں بہت جذباتی محسوس کر رہی ہوں۔‘
لوسی ملاوی کے وسطی خطے میں ایک لڑکیوں کے سکول کی لائبریری میں موجود تھیں جس کے باہر امریکی سیکرٹ سروس کے اہلکار تعینات تھے۔ لوسی نے چند لمحوں قبل ہی لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ بڑی عمر کے مردوں سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کو روکا جائے۔ اچانک ان پر جذبات حاوی ہو گئے۔
ان کے قریب ہی ایک میز پر دنیا کی تین بااثر خواتین خاموشی سے ان کی کہانی سن رہی تھیں۔ یہ ملنڈا گیٹس، امل کلونی اور مشیل اوباما تھیں۔
’گرلز ناٹ برائیڈز‘ نامی این جی او کے مطابق ملاوی وہ ملک ہے جہاں 42 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔ جس مقام پر یہ سکول واقع ہے، وہاں 33 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر سے پہلے ہی حاملہ ہو جاتی ہیں اور تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔
لوسی بھی ایسی ہی لڑکیوں میں سے ایک ہو سکتی تھیں۔ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ 14 سال کی عمر میں سکول چھوڑ دیں۔ لیکن لوسی نے ان کی بات نہیں مانی اور اپنے گاؤں سے یونیورسٹی جانے والی پہلی لڑکی بنیں۔
تعلیم کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اب وہ ’ایج افریقہ‘ نامی تنظیم میں ضلعی سربراہ ہیں۔ یہ تنظیم ملاوی میں لڑکیوں کو وظیفے دیتی ہے کیوں کہ ملک میں سیکنڈری تعلیم مفت نہیں ہے۔ لوسی بھی اسی پروگرام کا حصہ تھیں اور اب اپنے جیسی لڑکیوں کی مدد کرتی ہیں۔
لوسی کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ ان کی کامیابیوں پر بہت خوش ہیں لیکن ان کے والد نہیں۔ لوسی کے مطابق ان کے والد اب تک ایک خودمختار بیٹی کے تصور سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔ یہ تمام باتیں کرتے ہوئے ہی لوسی پر ان کے جذبات حاوی ہوئے۔
لوسی کے بائیں جانب بیٹھی سابق امریکی خاتون اول نے کہا ’کیا آپ اپنے والد کو میری جانب سے ایک پیغام دیں گی؟ اگلی بار جب ان سے ملاقات ہو تو کہنا مشیل اوباما اور باراک اوباما کو لوسی پر فخر ہے۔‘
لوسی نے مسکرا کر ان کی جانب دیکھا۔ ان کے دائیں جانب بین الاقوامی انسانی حقوق کی بیرسٹر امل کلونی بیٹھی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’تم ان کو یہ بھی بتانا کہ اب تم ایک وکیل بھی ہو۔‘
گزشہ سال اشتراک کے اعلان کے بعد مشیل اوباما، امل کلونی اور ملنڈا گیٹس نے ملاوی اور جنوبی افریقہ تاکہ اس معاملے پر کام کرنے والی تنظیموں کی مدد کی جا سکے اور متاثرہ لڑکیوں اور خواتین سے ملاقات کی جائے۔
مشیل اوباما کی تنظیم ’گرلز اوپرچیونٹی الائنس‘ نے دنیا بھر میں ایسی لڑکیوں کی نشان دہی کر رکھی تھی جن کو شادی اور حاملہ ہونے کی وجہ سے سکول چھوڑنا پڑا۔ امل کلونی کی تنظیم دیہی علاقوں میں لڑکیوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگہی فراہم کرنے پر کام کر رہی ہے۔ ملنڈا گیٹس کی تنظیم کی ترجیح نظام صحت کی بہتری ہے جس میں کم عمر لڑکیوں کو پیچیدہ مسائل کے دوران مدد فراہم کرنا بھی شامل ہے۔
یہ تینوں ہی لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے دفاع کی جنگ لڑ رہی ہیں اور اسی لیے یہ اتحاد قدرتی تھا۔
امل کلونی نے بی بی سی 100 وومین کو بتایا کہ ’یہ بہت ہی اچھی شراکت اور دوستی ہے، ہم تینوں کے بیچ۔‘
امل کا کہنا تھا کہ ’گیٹس فاؤنڈیشن سے ابتدائی بات چیت کے دوران میں نے کہا آپ بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہیں لیکن آپ قانون کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کر رہیں۔ آپ معاشی مسائل اور صحت کو دیکھ رہی ہیں۔ شاید ہم پارٹنر شپ قائم کر سکتے ہیں؟‘
ملنڈا گیٹس، جن کے لیے سکول کی بچیوں نے زور و شور سے تالیاں بجائیں، نے کہا کہ یہ ان کا ملاوی کا پانچواں دورہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’خواتین اکھٹا ہو کر بہتر کام کرتی ہیں۔ میری اپنے سے بڑی خواتین سے بات ہوئی جو سی ای او کے عہدے تک پہنچیں اور ان کو اس بات کا افسوس تھا کہ وہ دیگر خواتین سے مل کر ایسا نہیں کر سکیں، کہ انھوں نے اور خواتین کو اپنے ساتھ ترقی کے سفر میں شامل نہیں کیا۔ جس نسل کا میں حصہ ہوں، مشیل اور میری عمر ایک جتنی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ سب کو اپنے ساتھ ترقی میں شامل کریں۔‘
یونیسیف کے مطابق 65 کروڑ لڑکیاں اور خواتین ایسی ہیں جن کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی گئی اور اس وقت دنیا بھر میں سالانہ ایک کروڑ 12 لاکھ لڑکیوں کی شادی قانونی طریقے سے روایتی انداز میں اتنی ہی عمر میں کر دی جاری ہے۔
جنوبی ایشیا اور افریقہ میں یہ تناسب زیادہ ہے لیکن یہ مسئلہ صرف جنوب کا ہی نہیں۔ امریکہ کی پانچ ریاستوں میں شادی کے لیے کم سے کم عمر کی کوئی حد مقرر نہیں جب تک والدین کی اجازت شامل ہو۔
ملاوی جیسے ممالک میں 18 سال سے کم عمر میں شادی کیخلاف قوانین تو بنائے گئے ہیں لیکن ثقافتی رکاوٹیں ان قوانین کے آڑے آ جاتی ہیں۔ سوموار کو ان تینوں خواتین کے دورہ کے بعد ملک کے صدر لازارس چاکویرا نے ایک قومی حکمت عملی کے لیے فنڈنگ کا اعلان کیا۔ تاہم اب تک کم عمری کی شادیوں پر بہت کم ہی سزائیں دی گئی ہیں۔
انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی کی رائے میں لوگوں تک آگاہی پہنچانا ہی اس مسئلے کا ایک حل ہے۔ ان کا ویجنگ جسٹس فار ویمن پروگرام ملاوی کی خواتین وکلا کی ایسوسی ایشن کو فنڈ فراہم کرتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت قانونی ماہرین کو دیہی علاقوں میں جانے کے لیے مدد فراہم کی جاتی ہے۔
ملاوی کی 85 فیصد سے زائد خواتین نامساعد حالات میں دیہی علاقوں میں رہتی ہیں، جہاں بجلی اور سڑک تک کی سہولت میسر نہیں۔
امل کلونی کے مطابق ’ہم نے ایک ایسا نظام انصاف کا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جس کے تحت وکلا سے بھری ایک وین دیہی علاقوں میں ان لڑکیوں کے پاس جاتی ہے اور ان لڑکیوں کو پیشہ ور وکلا کی ٹیم ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دیتی ہے۔ یہ وکلا ان لڑکیوں کو کہتے ہیں کہ اگر آپ کو یہ حقوق نہیں مل رہے تو پھر وہ ان کے تحفظ کے لیے مفت قانونی مدد کے لیے تیار ہیں۔‘
امل کلونی کا کہنا ہے کہ ’ہم انصاف کی جنگ لڑیں گے اور ہم اسے جنگ اس وجہ سے کہتے ہیں کیونکہ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ یہ ایسا ہوگا۔‘
ان کے مطابق ’اس مقصد کے لیے آپ کو اتحاد بنانے پڑتے ہیں اور پھر اس طرح کی ناانصافیوں کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے مقابلہ بہت ہمت اور استقامت سے کرنا پڑتا ہے۔‘
بی بی سی نے ایک قانونی کلینک کا دورہ کیا، جو مِچنجی ضلعے میں ایک عارضی ٹینٹ کے نیچے قائم کیا گیا تھا۔ یہاں ایک ہزار سے زیادہ لوگ موجود تھے جن میں زیادہ تر خواتین تھیں۔ ان خواتین میں کچھ کم عمر حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔ وہ ہم سے یہ پوچھ رہی تھیں کہ سکول میں بچوں کو جنم دینے کے بعد ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
مشیل اوباما کا کہنا ہے کہ وہ جن لڑکیوں کے لیے لڑ رہی ہیں ان میں انھیں اپنا عکس نظر آتا ہے۔ ’مجھے ان لڑکیوں میں اپنی بچیوں کا عکس نظر آتا ہے۔‘
تاہم یہ ایک مسئلہ ہے کہ اس معاملے کا خاص طور پر کوئی فوری حل نہیں ہے۔ رواں برس کے دوران ایک رپورٹ جاری ہوئی جس میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے کہا کہ ملک میں مجموعی شادیوں میں 19 فیصد تعداد بچوں کی شادیوں کی بنتی ہے۔ یہ تعداد 10 برس قبل 23 فیصد تھی۔
اس رپورٹ کے مطابق بچوں کی شادی جیسی رسم کو ختم کرنے کے لیے تین صدیاں لگ سکتی ہیں۔
مشیل اوباما نے کہا کہ ’یہ ایک بہت فوری نوعیت کا مامعلہ ہے۔ ہم اسے نظر انداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے اور یہ فرض کرتے ہیں کہ ہم آگے چل کر مزید بڑے معاملات میں کچھ بہتری لا سکتے ہیں، جیسا کہ غربت، موسمیاتی تبدیلی، جنگ اور دیگر سب مسائل۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہماری کم از کم آدھی آبادی درست راستے پر ہو۔‘
ان کے مطابق ’یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کل تک حل ہو سکتا ہے۔ اگر دنیا کے تمام رہنما اکھٹے ہو جائیں اور اسے اپنی ترجیح بنا لیں تو پھر یہ مسائل حل ہونے میں تین صدیاں نہیں لیں گے۔ بس ایک نسل ہی ان مسائل پر قابو پا سکتی ہے۔‘
مشیل اوباما، امل کلونی اور ملنڈا گیٹس نے ملاوی کا دورہ اس لیے بھی کیا کیوں کہ ان کے انفرادی پروگرام بھی اس ملک میں پراجیکٹس میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی شراکت کے دیرپا اثرات کیا ہوں گے؟ یہ طے ہونا باقی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ مقامی تنظیموں کی مدد کریں گی جو برسوں سے مقامی سطح پر کام کر رہی ہیں۔
امل کلونی کا کہنا تھا کہ ’جن بین الاقوامی تنظیموں کو ان معاملات سے نمٹنا چاہیے، جیسا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل یا طاقتور حکومتیں، وہ کام نہیں کر رہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ خیراتی اداروں اور انفرادی کوششوں کو ہی ایک اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔‘
BBC