سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت تین اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزاروں کے وکلا کو تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ وہ اس مقدمے کا فیصلہ ہونے تک عدالتی بینچز کی تشکیل سینیئر ساتھی ججز جسٹس طارق مسعود اور اعجاز الحسن کی مشاورت سے کریں گے۔پیر کو اٹارنی جنرل فار پاکستان منصور اعوان نے کیس میں اپنے دلائل مکمل کیے۔سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اس کیس کے لیے تشکیل دیے گئے فل کورٹ میں عدالت عظمیٰ کے تمام 15 ججز شامل ہیں جنہوں نے پیر کو یہ مقدمہ سنا۔عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے متعلق کیس کی سماعت ٹی وی پر لائیو نشر کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد پہلی بار یہ کارروائی سرکاری ٹیلی ویژن کے ذریعے دکھائی گئی۔اس قانون میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیارات سمیت مختلف مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز پر مشتمل کمیٹی بنانے کا کہا گیا تھا۔اس کیس میں درخواست گزاروں کے وکلا خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ اور امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل دیے۔ سماعت میں وقفے سے قبل انہوں نے کہا کہ مجھے سے 22 سوال پوچھے گئے تھے کیا آج ہی جواب دوں یا وقت ملے گا؟ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام رکا ہوا ہے اس سلسلہ کو مزید نہیں چلنے دینا چاہتا۔قبل ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے عوامی مفاد کے آرٹیکل 184 تین کے تحت درخواست پر ہمالیہ جیسی بڑی غلطی ریکوڈک کیس میں معاہدہ کالعدم قرار دے کر کی تھی۔ اس فیصلے کے بعد عالمی سطح پر ملک کو ساڑھے چھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ کیا اتنی بڑی غلطی ہمیں سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے؟اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل میں کہا کہ فُل کورٹ کا تشکیل دیا جانا خوش آئند ہے، بینچز کی تشکیل اگر کمیٹی کرے گی تو اس کے نتائج بھی اچھے ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اپیل پر بڑا بینچ تشکیل دینے کے لیے قانونی شق بھی شفافیت لائے گی۔ سپریم کورٹ کا اصل کام تو اپیلوں پر فیصلہ کرنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ’صبح سے ہم یہ مقدمہ سن رہے ہیں اب تک 150 کیسز کا اضافہ ہوچکا ہوگا، سسٹم تباہ کرنا ہے تو یہ مقدمہ اگلے ماہ بھی سن سکتے ہیں۔‘چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ اپنا بوجھ تقسیم کرنا چاہتے ہیں، ’معاملے کو صرف اپنے سر کیوں لوں۔‘جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کل پارلیمنٹ ترمیم کر کے تین رکنی کمیٹی سترہ رکنی کر دے تو کیا ہوگا؟جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ اگلی پارلیمنٹ اگر چیف جسٹس کو اختیار واپس دے دے تو کیا صورتحال ہو گی؟چیف جسٹس نے کہا کہ مفروضوں پر بات نہیں کریں گے، جب معاملہ سامنے آیا تو دیکھیں گے۔ ’پارلیمان خلا میں کام نہیں کرتی، زیرالتوا مقدمات نہ ہوتے تو قانون سازی کی ضروت نہ پڑتی۔ لوگوں کے مقدمات کے فیصلے نہیں ہو رہے اس بات کی تکلیف ہے۔‘اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکم امتناع کے باوجود دو سینیئر ججز سے پوچھ کر فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’اصول کی بات سمجھنے کے لیے سوال کر رہا ہوں، کسی تنازع کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔‘اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمان چاہے تو چیف جسٹس کا اختیار بحال کر سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کس بینچ نے کون سا مقدمہ سننا ہے اس معاملے پر یہ قانون بھی خاموش ہے، کیا تین رکنی کمیٹی چیف جسٹس کو ایک ماہ کے لیے کوئٹہ بھیج سکتی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ بینچ تشکیل دینے کے لیے قانون کے تحت کمیٹی کا کبھی اجلاس ہی نہیں ہوا کیونکہ قانون بننے سے پہلے ہی معطل ہو گیا تھا، کمیٹی خود طے کرے گی کہ اس نے کام کیسے کرنا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ سوموٹو کے لیے عوامی مفاد کا کیس بنتا ہے یا نہیں کمیٹی کیسے طے کر سکتی ہے؟ سوموٹو لینا اور عوامی اہمیت کا حامل ہونا عدالت طے کر سکتی ہے۔ کیا تین رکنی کمیٹی کا انتظامی فیصلہ چیلنج ہوسکتا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس اکیلا سوموٹو لے تو کیا یہ درست ہے اور کمیٹی لے تو غلط؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کمیٹی کو قانون میں عدالتی اختیارات دیے گئے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرٹیکل 184 تین میں لفظ سپریم کورٹ لکھا ہوا ہے، سپریم کورٹ کا مطلب ہے چیف جسٹس اور تمام ججز۔جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ کیا کمیٹی میں متاثرہ فریق کیس عوامی اہمیت کا ہونے پر دلائل دے سکیں گے؟چیف جسٹس نے کہا کہ رجسٹرار آفس کئی آئینی درخواستوں پر اعتراض لگاتا ہے، کئی غیر سنجیدہ درخواستوں پر رجسٹرار اعتراضات میں نے چیمبر میں برقرار رکھے۔ ایک جج چیمبر میں فیصلہ کرے تو کہانی ختم ہوجاتی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں کوئی حق متاثر نہیں ہو رہا۔’میں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا تابع ہونے کا حلف نہیں لیا‘سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں وکیل خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ اپنے دلائل میں میری رائے یا میری مرضی کے مطابق کے بجائے یہ بتائیں کہ اس قانون میں آئین اور قانون کے متصادم کیا ہے۔‘چیف جسٹس نے کہا کہ ’میری یا آپ کی رائے کیا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بتائیے کہ آئین کے خلاف کیا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’میں نے آئین و قانون کے تابع ہونے کا حلف اٹھایا ہے۔ اس ملک میں مارشل لا بھی لگے، اس دوران بھی فیصلے ہوئے۔ میں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا تابع ہونے کا حلف نہیں لیا۔‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ’اس قانون کا نفاذ ہونے سے اُن کے اختیارات کم اور ختم ہونے اس برقرار رہیں گے اس لیے اُن کا فائدہ تو کالعدم ہونے میں ہے۔‘سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‘درخواست گزار کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے کہ آپ آرٹیکل 184 تین میں عدالت میں آئے۔‘جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اگر پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کر دی ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔‘’ہم 15 غیرمنتخب لوگ بیٹھ کر قانون بنائیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟‘جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ ’پاکستان میں قوانین پارلیمنٹ سے آتے ہیں۔ پوری دنیا میں چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس کا اختیار واپس لینے سے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی کیسے ہو گئی۔‘انہوں نے کہا کہ ’کیا ہم 15 غیرمنتخب لوگ بیٹھ کر قانون بنائیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟ اسے عدلیہ کی آزادی اور چیف جسٹس کے اختیار سے نہ جوڑیں۔ اگر منتخب نمائندے کوئی قانون بنائیں تو اس میں کیا برا ہے۔‘قانون کے خلاف دلائل خواجہ طارق رحیم اور امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دیے (فوٹو: سکرین گریب)جسٹس جمال خان مندوخیل نے خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ کے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔‘جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار آئین نے دیا ہے۔‘درخواست گزار امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’اگر اس قانون کی توثیق ہوئی تو یہ تاریخ کی بدترین مثال ہو گی۔‘پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں اس سے قبل کیا کیا ہوا؟سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بینچ نے قانون پر عمل درآمد روکتے ہوئے حکمِ امتناع جاری کر رکھا تھا۔اتوار کو نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایوانِ صدر میں حلف اُٹھانے کے بعد سپریم کورٹ جا کر رجسٹرار کو ہدایات جاری کیں۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مقدمے کی سماعت کے لیے اس سے قبل آٹھ رُکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔اس قانون کے تحت پارلیمان نے سپریم کورٹ میں بینچز کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات میں تبدیلی کر رکھی ہے۔عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس وقت سپریم کورٹ میں 15 ججز کام کر رہے ہیں۔قبل ازیں 15 ستمبر جمعے کو رجسٹرار آفس کی جانب سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے کیس کو 18 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔’عدالت آنے والے سائلین سے مہمان جیسا سلوک کریں‘قبل ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پیر کی صبح اپنی گاڑی میں پروٹوکول کے بغیر سپریم کورٹ پہنچے تو عدالت کے سٹاف نے ان کا استقبال کیا۔سپریم کورٹ کی گیلری میں کھڑے ہو کر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے سٹاف سے مختصر گفتگو میں کہا کہ ’عدالت اور سپریم کورٹ میں لوگ خوشی سے نہیں آتے۔ وہ اپنے مسئلے ختم کرنے کے لیے آتے ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’براہ کرم آپ کے ان(سائلین) کے ساتھ ایسا سلوک کیجیے جیسا کہ ایک میزبان مہمان سے کرتا ہے۔‘بینچ میں کون کون شامل ہیں؟پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مقدمے کی سماعت کے لیے تشکیل دیے گئے فل کورٹ بینچ میں چیف جسٹس قاضی قائز عیسیٰ کے علاوہ 14 ججز میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔