انڈیا کی خلائی گاڑی چندریان تھری کو چاند کے قطب جنوبی حصے پر کیا ملا؟

اردو نیوز  |  Aug 30, 2023

انڈیا کی خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ چندریان تھری کے روور نے چاند پر منجمد پانی کی تلاش کے دوران قطب جنوبی حصے کے قریب سلفر اور دیگر کئی عناصر کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انڈیا کے چندریان تھری مشن کے بڑے اہداف میں سے ایک ’پانی سے بننے والی برف‘ کی تلاش ہے جس کے حوالے سے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر چندریان اس برف کی تلاش میں کامیاب ہوا تو مستقبل میں چاند پر انسانوں کی رہائش میں مدد مل سکتی ہے۔

انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے اپنی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’مون روور کے لیزر سے چلنے والے سپیکٹرو سکوپ آلے نے چاند کی سطح پر ایلومینیم، آئرن، کیلشیم، کرومیم، ٹائٹینیم، مینگنیز، آکسیجن اور سلیکان کا بھی پتہ لگایا۔‘

روور بغیر ڈرائیور کے گاڑی کی طرح ہوتا ہے جو چاند کی سطح پر موجود مواد اور زلزلے کی سرگرمی کے بارے میں معلومات کا جائزہ لینے کے لیے بنایا گیا ہے۔

اسرو نے چندریان تھری کے روور سے آئندہ 14 دنوں میں تجربات کرنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ ’روور نے واضح طور پر سلفر کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ یہ منجمد پانی کو بھی تلاش کر رہا ہے۔‘

اسرو کے چیئرمین ایس سومناتھ کا کہنا ہے کہ روور چاند کے ماحول اور زلزلے کی سرگرمیوں کا بھی مطالعہ کرے گا۔

انڈیا کی جانب سے چاند کے لیے روانہ کیا جانے والا چندریان تھری مشن بدھ کو چاند کے جنوبی حصے پر اُترا تھا۔

چندریان مشن 40 دن کے طویل سفر کے بعد 23 اگست کو چاند کے جنوبی قطب حصے پر اُترا (فوٹو: اے این آئی)چندریان 3 جس کا سنسکرت میں مطلب ’چاند گاڑی‘ ہے، بدھ کو انڈیا کے مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے کے بعد چاند کے قطب جنوبی کی سطح کو چھوا تھا۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق چندریان تھری کی کامیابی کے ساتھ چاند پر اترنے کے بعد انڈیا کی سپیس ایجنسی اسرو کے چیف ایس سومانتھ نے کہا کہ ’انڈیا اب چاند پر ہے۔‘

چندریاں مشن 14 جولائی کو انڈیا کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے روانہ ہوا تھا اور 40 دن کے طویل سفر کے بعد یہ 23 اگست کو چاند کے جنوبی قطب پر اُترا۔

چار سال قبل 2019 میں چندریان 2 کے لانچ میں لینڈر ماڈیول چاند کی سطح سے 2.1 کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ گیا تھا تاہم لینڈر ماڈیول معمولی تکنیکی خرابی کی وجہ سے کریش ہو گیا تھا۔ 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More