Getty Images
’میں اپنے پارٹنر کے ساتھ رہتا ہوں اور کوئی بھی دن ایسا نہیں ہے جو خوف کے سائے میں نہ گزرا ہو۔ سپریم کورٹ فیصلہ سنا چکا ہے کہ ہم جنس پرست ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔ پہلے یہ خدشہ تھا کہ جیسے ’علی گڑھ‘ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کوئی میرے گھر میں نہ گھس آئے۔ مجھے سات سال قید کی سزا کے خواب بھی آتے ہیں۔‘
یہ ڈاکٹر پرساد راج دانڈیکر کے الفاظ ہیں جو ممبئی میں اپنے پارٹنر کے ساتھ گذشتہ 18 سالوں سے مقیم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کے گھر والے ان کے پارٹنر کے بارے میں جانتے ہیں لیکن ان کے ذہن میں یہ بات 24 گھنٹے گردش کرتی رہتی ہے کہ ان کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کاغذات میں میرا پارٹنر میرا دوست ہے۔ اگر میں بیمار ہو جاؤں یا کوئی حادثہ ہو جائے تو وہ ہسپتال میں میرے لیے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے پاس کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ اگر میں اتنے عرصے سے اس کے ساتھ ہوں تو میں چاہوں گا کہ جس شخص سے میں محبت کرتا ہوں وہ میرا خیال رکھے، میرے ساتھ رہے، لیکن میرے پارٹنر کو وہ قبولیت نہیں ملے گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان جیسے لوگوں کو کرائے پر گھر لینے، گھر خریدنے اور یہاں تک کہ بچہ گود لینے میں بھی مسائل ہیں۔
سائکائٹرک سوسائٹی آف انڈیا سے وابستہ ڈاکٹروں کے مطابق انڈیا میں دماغی صحت کے بارے میں بیداری تو ہے لیکن اس کمیونٹی کا ایک بڑا طبقہ دماغی صحت اور اپنے شہری حقوق سے لاعلم رہنا چاہتا ہے۔
حال ہی میں انڈین سائیکاٹرک سوسائٹی (آئی پی ایس) نے کہا ہے کہ ہم جنس پرست بھی جنسی طور پر نارمل لوگ ہیں، یہ کوئی بگاڑ یا بیماری نہیں ہے۔
آئی پی ایس نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ ہم جنس پرستوں کے ساتھ بھی ملک کے عام لوگوں جیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔
ان کے مطابق جس طرح ایک شہری کو تعلیم، ملازمت، مکان، حکومت یا فوج میں نوکری، جائیداد، شادی اور گود لینے کا حق حاصل ہے، وہی حقوق اس کمیونٹی کے لوگوں کو ملنے چاہئیں۔ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ اس برادری کے لوگ یہ سب کام نہیں کر سکتے۔ اور اگر یہ حقوق دینے میں ان کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے تو اس سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔
اس سوسائٹی میں انڈیا کے پانچ وسطی، مشرقی، شمالی، جنوبی اور مغربی زونوں کے نفسیات کی دنیا کے ڈاکٹرز شامل ہیں اور انھوں نے ہم جنس پرستوں کے حق میں بات کی ہے۔
یہ انڈیا کی ہم جنس پرستوں کی سب سے بڑی اور دنیا کی دوسری بڑی سوسائٹی ہے اور اس کے 8000 اراکین ہیں۔
اس سے قبل سنہ 2018 میں سوسائٹی نے ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے نکالنے کی حمایت کی تھی۔
Getty Imagesہم جنس پرستوں کی ذہنی صحت
سپریم کورٹ نے سنہ 2018 میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دے دیا تھا، لیکن ہم جنس شادی کو تسلیم کرنے کی درخواستوں کی سماعت رواں ماہ آئینی بنچ میں ہونے والی ہے۔
لکھنؤ کے ڈاکٹر ایم علیم صدیقی کا کہنا ہے کہ اس کمیونٹی کے لوگ دہری زندگی گزار رہے ہیں جس سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ سوسائٹی معاشرے کے ہر طبقے، بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں، ہم جنس پرستوں وغیرہ کی ذہنی صحت کے بارے میں مطالعہ کرتی ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ یہ لوگ پیشہ ورانہ طور پر کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہوں، ان کی ذاتی زندگی کی خواہش پوری نہیں ہوتی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ خاندان کو اپنے جنسی رجحان یا پسند کے بارے میں نہیں بتا پاتے ہیں۔ جب وہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں خاموش کرا دیا جاتا ہے یا انھیں علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایسے لوگ جب دماغی صحت کے مسائل کے ساتھ آتے ہیں تو ان سے تین سے چار بار ملنے کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ ان کا اصل مسئلہ شناخت کا ہے جسے قبول نہیں کیا جا رہا اور یہی ان کی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔‘
اس نکتے کی ڈاکٹر الکا سبرامنیم مزید وضاحت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’اس برادری کے لوگ امتیازی سلوک کا شکار ہیں، انھیں طعنے دیے جاتے ہیں، ایسے میں جب وہ باہر نکل کر اپنے بارے میں بات کرتے ہیں، تو انھیں بتایا جاتا ہے کہ یہ چیز غلط ہے۔‘
ڈاکٹر الکا بتاتی ہیں: ’ایسی صورت حال میں یہ لوگ خود کو دبا ہوا محسوس کرتے ہیں، وہ ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ وہ ڈپریشن جیسی پریشانی کے مسئلے سے نبرد آزما ہوتے ہیں اور خودکشی کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔ تاہم اب خودکشی کے معاملات میں کمی آئی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’انڈیا کے نوجوانوں میں بیداری آرہی ہے۔ ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے باہر کر دیا گیا ہے جبکہ بہت سی کمپنیوں نے اپنے متنوع بنانے کے پروگرام کے تحت ایسی کمیونٹی سے آنے والے لوگوں کو منتخب کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے ترقی پسند اقدامات معاشرے کے لیے بہت اہم ہیں۔‘
Getty Imagesگود لینے کے حقوق
آئی پی ایس کے نائب صدر ڈاکٹر لکشمی کانت راٹھی کا کہنا ہے کہ سوسائٹی نے ہم جنس پرستوں کو شادی کا حق دینے پر ایک ماہ تک بات چیت کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستوں کو شادی کا حق ملنے کے بعد ہی بچہ گود لینے کے حق کی بات ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ وہ دو باتوں پر توجہ دینے کی بات کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم جنس پرستوں کو شادی کا حق مل جائے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ تین سال تک شادی قائم رکھتے ہیں، اس شادی میں برادری کے کسی فرد کو یہ حلف دینا چاہیے کہ اگر شادی نہیں چلتی یا بچہ کسی واقعے کی وجہ سے یتیم ہو جائے تو برادری کا کوئی فرد اس کی دیکھ بھال کرے گا۔‘
یہ بھی پڑھیے
انڈیا میں ہم جنس پرستوں سے موبائل ایپس کے ذریعے بلیک میلنگ
عدالتی فیصلے کے باوجود ہم جنس پرست انڈین جوڑا اب بھی اپنے خاندانوں سے خوف زدہ کیوں؟
ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر معاملات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اس کمیونٹی کے لوگوں کے رشتہ دار ان سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں لیکن ہم جنس پرستوں کے آپس کے تعلقات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں بچے کی پرورش پر کوئی اثر نہ پڑے اس لیے انڈرٹیکنگ ضرور دی جائے۔
ڈاکٹر الکا کہتی ہیں: ’ہم نے کئی ممالک میں تحقیق کی جہاں ہم جنس پرستوں کو شادی کرنے اور بچہ گود لینے کا حق حاصل ہے، جیسے کہ امریکہ، کینیڈا وغیرہ۔ ان ممالک کا مطالعہ کرنے سے کوئی ایسا منفی ڈیٹا نہیں ملا جس سے یہ معلوم ہو کہ ہم جنس پرستوں کو یہ حق دینے سے معاشرے یا بچوں پر کوئی برا اثر ہوا ہو۔‘
Getty Imagesجن ممالک میں ہم جنس پرستوں کی شادی قابل قبول ہے
دنیا کے 30 سے زیادہ ممالک میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔
حال ہی میں تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جہاں ہم جنس شادی اب غیر قانونی نہیں رہی۔
نیدرلینڈز دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے سنہ 2001 میں ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دی تھی۔
اگر کچھ ممالک نے عدالت کے ذریعے تو کچھ نے ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پرستوں کو شادی کا حق دیا ہے۔
ان ممالک میں امریکہ، آسٹریلیا، آئرلینڈ اور سوئٹزرلینڈ بھی شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ، فرانس، سپین، جرمنی، سویڈن، ڈنمارک، آئس لینڈ اور بیلجیم بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔