EPA
ایرانی حکام نے عوامی مقامات پر ایسی خواتین کی شناخت کرنے کے لیے کیمروں کے استعمال کا منصوبہ بنایا ہے جو حجاب کے قوانین کی پابندی نہیں کر رہیں۔
ایران کی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ جن خواتین نے سر نہیں ڈھانپا ہو گا، ان کو فون پر ایک تنبیہی پیغام موصول ہو گا جس میں انھیں نتائج سے خبردار کیا جائے گا۔
پولیس کے مطابق اس حکمت عملی سے حجاب کے قانون کے خلاف مزاحمت کم کرنے میں مدد ملے گی۔
تہران میں اخلاقی پولیس کی جانب سے ’غلط طریقے سے‘ حجاب پہننے کے الزام میں حراست میں لی گئی ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد ستمبر میں ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
ایران میں خواتین کے لیے عوامی مقامات پر حجاب نہ پہننا غیر قانونی ہے، تاہم بڑے شہروں میں بہت سی خواتین قواعد کے باوجود اس کے بغیر گھومتی ہیں۔
اس قانون کے خلاف غصے اور مایوسی نے ایرانی معاشرے میں اختلاف کو ہوا دی ہے۔
ایران کی سرکاری اسلامی ریپبلک نیوز ایجنسی کی جانب سے پولیس کا بیان شائع کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نئے نظام کے تحت سمارٹ کیمرے اور دیگر آلات کا استعمال کیا جائے گا تاکہ حجاب کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی شناخت کی جا سکے اور ان کو تنبیہی پیغامات بھیجے جا سکیں۔
Getty Images
واضح رہے کہ ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین پر سر کو حجاب سے ڈھانپنے کا قانون موجود ہے جس کی خلاف ورزی پر جرمانہ یا قید ہو سکتی ہے۔
پولیس کی جانب سے تازہ بیان میں حجاب کو ’ایرانی قوم کی تہذیب کی بنیاد‘ قرار دیا گیا ہے اور کاروباری افراد کو کہا گیا ہے کہ وہ بھی اس قانون کی پابندی میں مدد کریں۔
ایران میں بے حجاب خواتین پر عوامی مقامات پر حملے بھی عام ہیں۔
گذشتہ ہفتے ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ایک شخص نے دو خواتین پر دہی پھینکی اور بعد میں ان خواتین کو حجاب قانون کے تحت حراست میں لے لیا گیا۔ ان پر دہی پھینکنے والے شخص کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
سعودی عرب، ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال: ’تاریخی‘ معاہدے پر اسرائیل کو تشویش
ایران میں احتجاج: گولیوں سے آنکھیں زخمی ہونے کے باوجود متاثرین کے حوصلے بلند ہیں
سارا خادم: شطرنج کی بہترین ایرانی کھلاڑی جسے سکارف سے انکار پرجلاوطن ہونا پڑا
ایران میں اب تک حجاب کے خلاف احتجاج کرنے والے ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ گذشتہ سال دسمبر سے اب تک چار افراد کو موت کی سزا دی جا چکی ہے تاہم ایران میں سخت گیر بازو کا اصرار ہے کہ اس قانون کی پابندی کروانے کے لیے اور اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
گذشتہ ہفتے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ ’ایرانی خواتین کو مذہبی ضرورت کے تحت حجاب پہننا ہو گا۔‘
تاہم ایران کے عدالتی نظام کے سربراہ غلام حسین محسینی نے جمعے کے دن خبردار کیا کہ ’وسیع پیمانے پر سختی سے خواتین کو قانون پر عمل درآمد کے لیے مجبور کرنا شاید سب سے بہتر راستہ نہیں ہو گا۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ ’ثقافتی مسئلے کو ثقافتی طریقے سے حل کرنا ہو گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان مسائل کو گرفتاریوں اور قید سے حل کریں تو اس سے مسائل بڑھیں گے اور ہم افادیت نہیں دیکھ سکیں گے۔‘