BBC
ٹیچر سے کوڈر بننے والی جیسیکا گلبرٹ کہتی ہیں: ’میں نے کبھی بھی اپنے آپ کو کسی ایسے شخص کے طور پر نہیں دیکھا جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں کام کر سکے۔‘
یہ وہ جذبہ ہے جس کے بارے میں بہت سی خواتین بات کرتی ہیں اور اعداد و شمار بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہنر کے معاملے بڑا فرق نظر آتا ہے۔ اندازوں کے مطابق سنہ 2025 تک ہر 115 ٹیکنالوجی کی نوکریوں کے لیے صرف ایک اہل عورت ہو گی۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور ریاضی (STEM) میں مردوں کے مقابلے خواتین کے کام کرنے کے امکانات کم ہیں۔
بہرحال، کچھ ایسی خواتین بھی ہیں جنھوں نے اس رجحان کو بدلنے کی کوشش کی ہے اور کریئر کے لیے ایک نئی راہ پر گامزن ہوئی ہیں۔
برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات کے مطابق سنہ 2021 میں پچھلے سال کے مقابلے میں 15 ہزار سے زیادہ خواتین پروگرامرز اور سافٹ ویئر ڈویلپرز کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ ویب ڈیزائنرز کے طور پر کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں تقریباً 10 ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔
تاہم تنظیم ’شی کوڈز‘ کے اعدادوشمار کے مطابق اتنے زیادہ اضافے کے باوجود خواتین فی الحال کوڈنگ کی ملازمتوں کا صرف 25 فیصد حصہ ہیں۔
’مشکل لیکن قابل قدر‘BBCجیسیکا گلبرٹ ٹیچر سے کوڈر بن گئیں
گلاسگو سے تعلق رکھنے والی جیسیکا پہلے رینفریو شائر کے ایک پرائمری سکول میں استانی تھیں اور وہ پانچ سال تک کلاس روم میں رہنے کے بعد برن آؤٹ کے مقام پر پہنچ گئی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ شام کے وقت اور ہفتے کے دنوں میں بھی تیاری کرتی تھیں اور اپنے خرچ پر بچوں کے لیے وسائل جمع کرتیں یا خاندان اور دوستوں سے وہ چیزیں ادھار مانگتیں جس کا وہ کلاس میں استعمال کر سکتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس سے کبھی نہیں نکل سکتی تھی۔‘
28 سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ انھیں ٹیک میں ملازمتوں کے بارے میں اس وقت تک ’کوئی اندازہ نہیں تھا‘ جب تک کہ انھوں نے کوڈ فرسٹ گرلز کا ایک انسٹاگرام اشتہار نہیں دیکھا جس میں کوڈنگ پر آٹھ ہفتے کا مفت کورس پیش کیا گیا جا رہا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سکول میں میرے پاس سائنس یا ریاضی نہیں تھی اس لیے مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ میں کوڈنگ کر سکتی ہوں۔ میرے حساب سے وہ دروازے بند تھے۔۔۔ سچ پوچھیں تو میں یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ سافٹ ویئر انجینیئر کیا ہوتا ہے۔
’میں نے فرض کر لیا کہ یہ ایک عجیب سے لڑکوں کا کام ہے۔ میں یقینی طور پر ایسی کسی دوسری خواتین کو نہیں جانتی تھی جسے میں ایک رول ماڈل یا ترغیب کے طور پر دیکھ سکتی تھی۔‘
یہ بھی پڑھیے
کمپیوٹر کوڈنگ سیکھنے سے 'آپ کی زندگی بدل جائے گی‘
کمپیوٹر کوڈنگ کی دنیا میں مزید خواتین کو لانے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟
ابتدائی کورس کے بعد جیسیکا نے شام کے وقت کوڈنگ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی ٹھان لی اور وہ سکول میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایسا کرنے لگیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ’مشکل لیکن قابل قدر‘ تھا۔
اب وہ سکائی بیٹنگ اینڈ گیمنگ میں ایک جونیئر سافٹ ویئر انجینیئر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کردار میں بہت زیادہ خوش ہیں حالانکہ وہ اس سے اتنے پیسے نہیں کماتیں جتنا وہ ٹیچر کے طور پر کماتی تھیں۔
جیسیکا فیس بک پر ایک گروپ ’تدریس کے بعد زندگی‘ کا حصہ تھیں اور وہاں اپنی کہانی شیئر کرنے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ ان باکس ’دوسرے اساتذہ کے پیغام سے بھر گیا تھا کہ وہ بھی کریئر بدلنا چاہتے ہیں۔‘
اس کے بعد انھوں نے سوشل پلیٹفارم انسٹا گرام پر ٹیچر ٹو کوڈر نام کا صفحہ شروع کیا تاکہ دوسری خواتین کو یہ بتایا جا سکے کہ ٹیکنالوجی کی نوکری میں کیا کیا ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں پہلے کمپیوٹر سائنس دانوں یا ذہین افراد کو ہی کوڈنگ والا سمجھتی تھی۔ لیکن اگر آپ بات چیت کرنے اور مسائل حل کرنے میں اچھے ہیں تو آپ ٹیکنالوجی کے شعبے میں نوکری کر سکتے ہیں۔‘
غیر استعمال شدہ جوہر یا صلاحیتBBCتسلیمہ فردوس نے این ایچ ایس کی ملازمت چھوڑ کر کوڈنگ سیکھی
25 سالہ تسلیمہ فردوس نے یونیورسٹی میں بائیو میڈیکل سائنس کی تعلیم حاصل کی اور ایک دن ڈاکٹر بننے کا ارادہ رکھتی تھیں، اور اس لیے وہ لندن کی نیشل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) میں ہیلتھ کیئر اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ 'این ایچ ایس واقعی جدوجہد کر رہا تھا اور مجھے محسوس ہوا کہ میری خدمات کی پزیرائی نہیں ہو رہی ہے۔'
ایک نوجوان خاتون کے کوڈر بننے کی کہانی پڑھنے کے بعد انھوں نے سوچنا شروع کیا کہ کیا وہ کریئر بدل سکتی ہیں لیکن چونکہ وہ خالص سائنس کا پس منظر رکھتی تھیں اس لیے وہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے کے بارے میں شکوک شبہات کا شکار تھیں۔
وہ کہتی ہیں: 'میں سوچنا شروع کیا کہ آخر مجھے کیا کھونا ہے؟' اس لیے میں نے 14 ہفتے کا کوڈنگ بوٹ کیمپ کرنے کا فیصلہ کیا جس میں مجھے پائتھن اور ایس کیو ایل کی بنیادی باتیں سکھائی گئيں۔
'میری ٹیم مکمل طور پر مردوں والی ہے لیکن یہ شروعات تھی۔'
وہ مزید کہتی ہیں: 'مجھے نہیں لگتا کہ کریئر کو تبدیل کرنا اتنا مشکل ہے جتنا کہ پہلے ہوا کرتا تھا۔ اگر آپ سخت محنت کرنے اور وقت لگانے کے لیے تیار ہیں، تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ٹیک جاب آپ کے لیے نہیں ہے۔'
او این ایس لیبر فورس کے جون کے سنہ 2022 کے سروے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں ملک میں پروگرامرز، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ پروفیشنلز، ویب ڈیزائن پروفیشنلز اور ڈیٹا اینالسٹ کے طور پر512,900 مرد کام کر رہے تھے، وہیں ان شعبہ جات میں صرف 113,900 خواتین یہ کام کر رہی تھیںجو کہ کل کا صرف 18.17فیصد ہوتی ہیں۔
خواتین کا قائم کردہ 'کوڈ فرسٹ گرلز' خواتین کو مفت کوڈنگ کورسز فراہم کرتا ہے اور یہ کمپنیوں کو نئی تربیت یافتہ خواتین ڈویلپرز کے ساتھ منسلک کرکے انھیں جاب دلانے میں مدد کرتا ہے۔
سوشل انٹرپرائز کی چیف ایگزیکٹیو اینا بریلز فورڈ کہتی ہیں کہ خواتین کو ایس ٹی ای ایم کے ساتھ مخصوص کرئیر سے متعلق دقیانوسی تصورات کے بارے میں اپنی سوچ بدلنے کا موقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتی ہیں: 'اس معاملے میں غیر استعمال شدہ ٹیلنٹ والے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جنھوں نے اپنا مطالعہ مختلف شعبوں میں کیا اور مختلف کریئر میں شروعات کی۔
'یہ وہ امیدوار ہیں جنھوں نے پہلے کبھی ایس ٹی ای ایم والے کریئر پر یہ سوچ کر غور نہیں کیا ہو گا کہ یہ صرف مردوں کے لیے ہے، یا یہ کہ ان کے پاس صحیح مہارت نہیں ہے۔ لیکن وہ ٹیکنالوجی میں چیزوں کو بہتر کرنے کے لیے بہت سارے تجربے کے ساتھ آتی ہیں۔'