BBC
کسی شاعر کا کسی دوسری زبان کے شاعر سے موازنہ کوئی نئی بات نہیں لیکن جب کسی شاعر کا دیوتاؤں اور مقدس شخصیات سے مقابلہ ہو تو یہ جائے حیرت ہے۔
اور یہ مرتبہ کسی اور کو نہیں بلکہ 13ویں صدی کے صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی کو ملا ہے جن کے بارے میں برطانوی مذہبی سکالر اور صوفی روایت کے استاد اینڈریو ہاروی نے کہا ہے کہ ’رومی ایک عظیم صوفی تھے جو اپنی دانشوری میں افلاطون تھے تو اپنے وژن اور صادق جذبے میں مہاتما بدھ تھے۔‘
یہی نہیں رومی کی بانسری کو کسی نے قدیم یونانی مذہب اور اساطیر کے دیوتا پین سے ملایا ہے جو جنگل، چرواہوں اور ریوڑ کے دیوتا ہیں اور دیہاتی موسیقی اور فی البدیہیت کے ماہر اور اپسراؤں کے ساتھی ہیں تو کسی نے رومی کی ’نالۂ نے‘ (بانسری کی فریاد) کو ’مرلی کی تان‘ یعنی ہندوؤں کے بھگوان سری کرشن کی بانسری سے ملایا ہے۔
امریکی شاعر اور جارجیا یونیورسٹی میں فیکلٹی کولمین بارکس نے لکھا ہے کہ کس طرح انگریزی کے معروف شاعر رابرٹ بلائی نے انھیں رومی سے متعارف کروایا۔
وہ لکھتے ہیں کہ یہ سنہ 1976 کا واقعہ جب رابرٹ بلائی نے انھیں ایک بوسیدہ سی کتاب سے رومی کے کلام کے انگریزی ترجمے کا اقتباس سنانا شروع کیا اور بارکس کو یہ محسوس ہوا کہ گویا ان پر علم و آگہی کا ایک نیا دبستان کھل گیا اور وہ ایک عالم محویت میں بلائی کو سنتے رہے۔
یہاں تک کہ اخیر میں بلائی نے بارکس سے کہا ’تم انھیں ترجمے کی قید سے آزاد کر دو‘ وہ یہ چاہتے تھے کہ رومی کی تخلیق کی از سر نو تشریح و تعبیر کی جائے اور ان کے کلام کی روح کا ترجمہ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔
شاعر جن کی کتابیں آج بھی مغرب میں بے حد مقبول ہیں
شاید یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر میں اپنی پہچان رکھنے والی ٹائم میگزین نے سنہ 2002 کے اکتوبر میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھا: ’آج ایک کامیاب شاعر بننے کے لیے کیا ضروری ہے؟ بنیادی طور پر، ایک معجزہ، کیونکہ شاعری کی کتابیں شاذ و نادر ہی بکتی ہیں۔ زیادہ تر پبلشرز کی طرف سے چند ہزار کاپیوں کی فروخت اچھی سمجھی جاتی ہیں۔ چند لاکھ کاپیوں کا خیال تو نایاب ہے اور گنے چنے خوش قسمت امریکی شاعروں نے ہی ایسی تعداد دیکھی ہے۔
’تو چلیے آج امریکہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے شاعر سے پوچھتے ہیں۔ پریشان نہ ہوں کیونکہ وہ اب ہم سے بات کرنے کے لیے موجود نہیں۔ وہ تقریباً آٹھ صدیاں قبل وسطی ایشیا میں پیدا ہونے والے ایک مسلمان صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی ہیں۔‘
ٹائمز نے یہ بھی لکھا کہ ایوارڈ یافتہ فلم ساز اولیور سٹون رومی پر فلم بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور جب میں نے یہ جاننے کی جستجو کی کہ آيا فلم بنی کہ نہیں تو پتا چلا کہ اسی سلسلے میں جب انھوں نے ایران کا گذشتہ دہائی کے اوائل میں دورہ کیا تو ان کے بیٹے شاں اولیور نے اسلام قبول کر لیا۔ شاں ماں کی طرف سے مسیحی ہیں جبکہ والد کی جانب سے یہودی تھے۔
ٹائم میگزین نے مزید لکھا ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس حقیقت سے لطف اندوز ہوتے کہ معروف امریکی گلوکارہ میڈونا نے دیپک چوپڑا کی سنہ 1998 کی سی ڈی 'اے گفٹ آف لو' کی موسیقی کو ان کے حمدیہ اشعار کے ترجمے پر ترتیب دیا تھا جبکہ امریکی فیشن ڈیزائنر ڈونا کرن نے ان کی شاعری کو اپنے فیشن شوز کے پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں یوگا سینٹرز میں رومی کے کلام پر مبنی گیتوں کو روحانی تربیت کے لیے پس منظر موسیقی کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
مستقبل کے شاعر اور مبشر
ڈاکٹر افضل اقبال نے 'مولانا رومی حیات و افکار' نامی کتاب تحریر کی ہے اور اس کے دیباچے میں انھوں لکھا ہے کہ 'رومی محض فرد اور معاشرے کی اصلاح و ترقی کے معلم و مبلغ نہیں بلکہ انفرادی زندگی اور معاشرتی نظام سے گزر کر ارتقائے انسانی کے شارح اور علم بردار ہیں۔
’اپنے ایسی ہی اقدار کے سبب وہ قدیم و جدید کی تفریق سے ماورا ٹھہرتے ہیں بلکہ جدید ترین انسانی ترقیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔‘
’رومی آج بھی زندگی کے دقیق اور الجھے ہوئے معاملات و مسائل کی عقدہ کشائی کا اعجاز دکھا سکتے ہیں۔ ان کے ہاں ناکامی اور مایوسی کے اندھیرے نہیں، امید اور کامرانی کی تابناک کرنیں جھلملا رہی ہیں۔
’وہ جس قدر ماضی و حال کے شاعر سمجھے جاتے ہیں اس سے بڑھ کر مستقبل کے شاعر اور مبشر کہے جا سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’ایسا صاحب بصیرت شاعر کسی خاص ملک یا زبان کا فنکار یا مفکر نہیں ہوتا، وہ تو بنی نوغ انساں کا شاعر ہوتا ہے۔ ایک کائناتی فنکار، ایک ابدی صاحب فکر و نظر، ایک آفاقی دانشور۔‘
رومی شاعر سے کہیں زیادہ صوفی تصور کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ مغرب سے پہلے مشرق میں انتہائی مقبول رہے ہیں اور اردو کے نامور شاعر، شاعر مشرق علامہ اقبال خود کو ان کا ’مرید ہندی‘ کہتے ہیں اور لکھتے ہیں:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گِل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
رومی اور تصوف ایک دوسرے کا مترادف
جہانِ تصوف میں رومی کا مقام اس قدر بلند و بالا ہے کہ تصوف کے تعلق سے کوئی بھی کتاب اٹھالیں وہ رومی کے ذکر سے خالی نہیں ہو گی۔ رومی کے اثرات نے تمام جغرافیائی سرحدیں عبور کر لی ہیں۔
عرب ہو کہ عجم، مشرق ہو کہ مغرب ہر جگہ تصوف کے سلسلے سے رومی کے افکارو خیالات کی جلوہ نمائی ہے۔ چنانچہ یہ کہا جائے کہ رومی اور تصوف ایک دوسرے کا مترادف ہیں تو یہ بے جا نہ ہو گا۔
رومی زمان و مکان کی قید سے آزاد اور عشق حقیقی کے علمبردار کے طور پر ہر جگہ جلوہ گر ہیں اور سوشل میڈیا کی آمد کے بعد سے تو ان کے اقوال ہر جگہ کسی وائرل پوسٹ کی طرح گردش کرتے ہیں اور موقعے اور مناسبت سے ایسے حسب حال نظر آتے ہیں کہ ڈاکٹر افضل اقبال کا قول بالکل صادق نظر آتا ہے کہ وہ ’مستقبل کے شاعر اور مبشر‘ ہیں۔
ایسے میں مادہ پرستی کی علامت سمجھے جانے والے مغرب میں ان کی پزیرائی جائے حیرت نہیں۔ دانشوروں کا خیال ہے کہ مادہ پرستی کے فاسد اثرات سے نجات کا اگر کوئی راستہ ہے تو وہ رومی ہیں۔
رومی کو مغربی ممالک میں متعارف کروانے کا سہرا جرمن نژاد آسٹریائی سفیر جوزف وان ہیمر پُرستگال کے سر جاتا ہے جنھوں نے انیسویں صدی کے اوائل میں مشرقی افکار خیالات کی ترجمانی کرنے والا جریدہ نکالنا شروع کیا۔
خواجہ حافظ شیرازی کی شاعری سے متاثر پُرستگال نے رومی کی مثنوی اور ان کے دیوان پر 70 صفحات پر مشتمل ایک مضمون لکھا جس میں وہ کہتے ہیں کہ حافظ کی شاعری اگر چاند ستاروں سے آگے کی سیر کراتی ہے تو رومی ہمیں اپنی روحانی قوت کے بازو پر زمان و مکان کی حدود سے باہر لے جاتے ہیں۔
انھوں نے مزید لکھا کہ رومی ’مشرق کے سب سے بڑے صوفی شاعر ہیں‘ اور ’صوفیوں کے امام ہیں‘ جبکہ ان کی مثنوی ’تمام صوفیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔‘
ابتدائی حالات
مولانا رومی کی سب سے بنیادی سوانح 'مناقب العارفین' میں لکھا ہے کہ وہ سنہ 1207 میں افغانستان کے شہر بلخ میں پیدا ہوئے اور اسی وجہ سے وہ خود کو بلخی بھی کہتے تھے اور انھیں اس پر فخر بھی تھا۔
ان کے والد کا نام بہاد الدین ولد تھا اور وہ خود کو ’سلطان العلما‘ کہتے تھے کیونکہ ان کے مطابق انھیں یہ خطاب پیغمبر اسلام نے خواب میں دیا تھا اور اس خواب کو اس وقت کے بہت سے علما نے بیک وقت دیکھا تھا۔
مولانا رومی کا شجرۂ نسب اگر والد کی طرف سے اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر سے ملتا ہے تو والدہ مومنہ کی طرف سے وہ اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی سے جا ملتے ہیں۔ اس کا ذکر سر جیمس ولیمس ریڈ ہاؤس نے اپنی کتاب ’لیجنڈز آف صوفی‘ میں بھی کیا ہے۔
مولانا بہاؤالدین اپنے بیٹے رومی کو بہت عزیز رکھتے تھے اور انھیں ’خداوندگار‘ کہتے تھے۔
دریا آگے پیچھے سمندر
کہا جاتا ہے کہ جب منگول وسط ایشیا پر حملہ آور ہوئے تو مولانا بہا الدین اپنے خانوادے اور چند شاگردوں کو لے کر مغرب کی جانب روانہ ہو گئے۔ ان کے ترک وطن کی ایک توجیہ یہ دی جاتی ہے کہ دوسرے علما انھیں زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے اور سلطان العلما کہے جانے کے سبب قاضیِ شہر ان سے یک گونہ حسد رکھتا تھا۔
کہتے ہیں کہ جب یہ قافلہ بغداد کی جانب رواں دواں تھا تو راستے میں نیشاپور میں مولانا کی ملاقات مشہور صوفی شاعر فرید الدین عطار سے ہوئی۔ نیشا پور آج ایران کے صوبے خراسان میں واقع ہے۔
روایت میں ہے کہ عطار نے رومی کی روحانی بصیرت کو فوراً پہچان لیا۔ انھوں نے دیکھا کہ بازار میں اس وقت کے رواج کے مطابق بیٹا پیچھے اور باپ آگے آگے جا رہا ہے تو انھوں نے برجستہ کہا: ’ایک دریا کے پیچھے سمندر چلا آ رہا ہے۔‘
انھوں نے رومی کو اپنی کتاب ’اسرار نامہ‘ عطا کی جسے ’پندنام عطار‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب روحانی روشن خیالی اور بصیرت کا خزینہ کہی جاتی ہے جس میں دنیا کی بے رغبتی اور روحانی اسرار و رموز در ج ہیں۔
ہر چند کہ اس ملاقات کا ذکر بنیادی کتابوں میں نہیں لیکن بعد کی تصانیف میں تواتر سے یہ بات کہی گئی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب وہ نیشا پور سے گزرے تھے تو عطار زندہ تھے اور یہ کہ ان کی مثنوی پر عطار کے اسرار نامے کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی ہے۔
رومی اور شمس تبریزی
رومی کی زندگی میں پانچ افراد کی بہت اہمیت رہی ہے۔ ان میں ایک ان کے والد دوسرے، ان کے استاد برہان الدین محقق اور تیسرے ان کے دوست اور پیر و مرشد شمس تبریزی، چوتھے صلاح الدین زرکوب اور پانچویں حسام الدین۔
رومی کے بارے میں جہاں مولانا جامی کا یہ شعر
مولی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر رومی نہ ہوتے تو شمس تبریزی کو بھی کوئی نہیں جانتا اور ان کی بزرگی اور کمالات سے واقف نہیں ہو پاتا۔
کہا جاتا ہے کہ شمس تبریزی یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ خدا انھیں اس شخص سے ملا دے جو ان کی صحبت کا متحمل ہو سکے اور پھر ان کی ملاقات رومی سے قونیہ میں ہوتی ہے۔
رومی کے سوانح نگار افلاکی اور سپہ سالار نے لکھا ہے کہ شمس رات کے وقت وارد ہوئے تھے اور ان دونوں کی ملاقات سرائے کے باہر ایک دکان پر ہوئی تھی جہاں شہر کے سربر آوردہ لوگ ملا کرتے تھے۔
رومی کے ایک اور سوانح نگار گل پنہار کا کہنا ہے کہ اب نہ وہاں کوئی سرائے ہیں نہ کوئی دکان ہے بلکہ اس جگہ کو 'مجمع البحرین' (دو سمندروں کے ملنے کی جگہ) کہا جاتا ہے اور مولوی سلسلے کے لوگ ہر سال موم بتیاں جلا کر اور چراغاں کر کے اس ملاقات کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
مغرب میں بعض افراد نے ان دونوں کے تعلق کو متنازع عینک سے بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں۔
جب ان دونوں کی ملاقات ہوئی تھی تو شمس تبریزی کی عمر ساٹھ سے تجاوز کر چکی تھی جبکہ رومی اپنی تیس کی دہائی میں تھے اور یہ کہ رومی کے بیٹے ولد نے لکھا ہے کہ رومی یہ کہتے تھے کہ انھیں اگر اپنے والد کی مزید صحبت میسر ہو جاتی تو وہ سلوک کے راستے میں شمس تبریزی کے مرہون منت نہ ہوتے۔
یہ بھی پڑھیے
آثارِ جنوں، جہانِ رومی، شریمد بھگوت گیتا
رومی آج بھی امریکہ میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر کیوں ہیں؟
ہندوستانی خواتین کے حُسن کے معترف امیر خسرو
افلاکی کے مطابق شمس تبریزی کو جب رومی اپنے گھر لے کر آئے تو 40 دنوں تک ان کے ساتھ ایک حجرے میں رہے جہاں کوئی مخل نہ ہو سکتا تھا، گویا یہ کسی قسم کی چلہ کشی تھی۔ ایک روایت کے مطابق دونوں تین ماہ تک ایک کمرے میں رہے جبکہ سپہ سالار نے لکھا ہے کہ دونوں چھ ماہ تک رومی کے ایک معتمد صلاح الدین زرکوب کے ایک حجرے میں مقیم رہے جہاں شیخ صلاح الدین کے علاوہ کسی کی رسائی نہ تھی۔
بہر حال رومی اور شمس تبریزی کے والہانہ تعلق کی وجہ سے ان کے شاگردوں میں حسد بڑھنے لگی اور کہا جاتا ہے کہ ان کے کسی بیٹے یا شاگردوں نے مل کر شمس تبریزی کا کام تمام کر دیا۔
شمس تبریزی کی غیبت سے رومی اس قدر ملول رہنے لگے کہ وہ دنیا سے بے خبر ہو گئے۔
رومی شعر گوئی کو برا سمجھتے تھے لیکن شمس تبریزی کی وجہ سے وہ اس کی جانب مائل ہوئے اور انھوں اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد کی شان میں اشعار لکھنے کے ساتھ ساتھ شمس تبریزی کے لیے بھی ہزاروں اشعار کہے۔ یہاں تک کہ ان کے دیوان کو دیوان رومی کی جگہ دیوان شمس تبریزی یا دیوان کبیر کہا جاتا ہے۔
اس میں تقریباً 50 ہزار اشعار بتائے جاتے ہیں جبکہ انھوں نے اس کے علاوہ ایک مثنوی چھوڑی ہے جو ’مثنوی مولی معنوی‘ کے نام سے جانی جاتی ہے اور یہ چھ جلدوں میں ہے اور اس میں تقریباً 27 ہزار اشعار ہیں۔
یہ مثنوی صوفیا کی محفلوں میں اسی طرح پڑھی جاتی ہے جیسے وہاں قرآن کی تلاوت ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس سے انسان کے اندر کی دنیا روشن ہوتی ہے۔
علامہ اقبال نے اس بات کو ایک مصرعے ’اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
PA Mediaترکی کے شہر قونیہ میں ہر سال رومی کا عرس منایا جاتا ہے اور محفل سماع آراستہ ہوتی رہتی ہےسماع
صوفیہ میں جب حال کی کیفیت پیدا ہوتی تو وہ ایک عالم محویت اور وجد کے عالم میں رقص کرنے لگتے جسے سماع کہا جاتا تھا۔ رومی کے وقت سماع کی محفلیں ہوتی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کی نانی نے انھیں اس محفل میں شرکت کرنے کی بات کہی تھی۔
ہر چند کہ اسلام میں اس کے جائز یا ناجائز ہونے پر ابھی تک بحث جاری ہے لیکن رومی کے بعد سماع کا چلن بہت عام ہو گیا۔ ایک روایت کے مطابق وہ اس سے واقف تھے لیکن ایک دم عالم محویت میں وہ صلاح الدین زرکوب کی دکان سے گزر رہے تھے جہاں سونے چاندی کے ورق کوٹے جا رہے تھے وہ اس کی لے میں کھو گئے۔
افلاکی نے لکھا ہے کہ جب ہتھوڑی کی لے میں ڈوبی ہوئی آواز پر رومی وجد میں آ گئے تو شیخ صلاح الدین خود باہر نکل آئے اور رومی کے ساتھ اس وجد و رقص میں شریک ہو گئے اور اپنے شاگردوں اور کاریگروں کو اشارہ کیا کہ وہ اپنے ہاتھ نہ روکیں خواہ اس میں کتنا ہی سونا ضائع کیوں نہ ہو جائے۔ یہ رقص کی حالت ظہر سے عصر تک قائم رہی اسی دوران کچھ اور لوگ بھی شامل ہو گئے۔
مشہور بزرگ سری سقطی کا قول ہے کہ سماع زرخيز زمین کے لیے بارش کی طرح ہے۔ لیکن یہ ایک خطرناک چیز ہے جسے قابو میں کرنے کے لیے شیخ کا ہونا ضروری ہے۔ سماع کو امام غزالی نے اگر مباح قرار دیا ہے تو رومی نے قطیعت کے ساتھ کہا ہے کہ 'پہلے سماع کی اہلیت حاصل کرو پھر سماع اختیار کرو۔ میں نے کل گل شکر کو سونگھا تو کل کی بو نہیں محسوس ہوئی کیونکہ میں آمادہ نہیں تھا۔'
Getty Imagesترکی کے قونیہ میں رومی کا مزار مرجع خلائق ہےمثنوی مولائے روم اور وفات
مولانا رومی نے فیہ ما فیہ، مجالس سبع، دیوان کبیر جیسی کئی تصانیف چھوڑی ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی تصنیف مثنوی مانی جاتی ہے جس میں اسرار کی پرتیں ہیں۔
رومی کی مثنوی مخفی، ملکوتی اور پراسرار حقائق کے مجموعے کے طور پر دنیا بھر میں توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اگر دنیا میں الہامی کتابوں کی ایک فہرست مرتب کی جائے تو اس میں بھی مثنوی کو اہم مقام حاصل ہوگا۔
لیکن مولانا روم نے اس مثنوی کو مکمل نہیں کیا اور اسے ادھورا چھوڑ دیا اور اس ضمن میں انھوں نے فرمایا کہ جس سوراخ سے روشنی آ رہی تھی وہ بند ہو چکا ہے اور یہ کہ اس کی تکمیل کوئی ایسا شخص کریگا جس کے اندر وہی نور جلوہ گر ہوگا جو میرے اندر ہے۔
چنانچہ کئی لوگوں نے مثنوی کی کہانی کو پورا کرنے کی کوشش کی لیکن ہندوستان کے ایک عالم مفتی الہی بخش کو یہ شرف حاصل ہوا کہ مجموعی طور پر ان کی تکملہ کو مثنوی کا تکملہ مانا جاتا ہے۔
مولانا رومی کو اپنی مثنوی کی اہمیت کا بخوبی علم تھا اس لیے انھوں نے چوتھے حصے کے دیباچے میں کہا ہے کہ مثنوی عطیات میں سب سے اعلی اور انعامات میں بیش بہاترین خزانہ ہے، یہ دوستوں کے لیے نور اور آنے والی نسلوں کے لیے خزانہ ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ آنے والے زمانے میں اس کی حیثیت ایک خلیفہ کی ہو گی جس سے لوگ روشنی حاصل کریں گے۔
رومی کی موت 17 دسمبر سنہ 1273 میں ہوئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 68 سال تین ماہ بتائی جاتی ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ تجہیزو تکفین کا سامان درست کیا گیا۔ رومی کے بیٹے سلطان ولد نے لکھا ہے کہ جنازے کو جب باہر لایا گیا تو قیامت ازدھام تھا۔
ہر قوم و ملت کے لوگ ساتھ تھے، سب روتے جاتے تھے، مسلمان قرآن کی تلاوت کر رہے تھے تو یہودی تورات کی اور مسیحی انجیل کی۔ یہودیوں اور مسیحیوں کو ان سے حد درجہ عقیدت تھی۔ ان کے جنازے کے گرد سے ہٹایا جاتا تو وہ نہ ہٹتے اور یہ کہتے کہ ’ہم نے اپنے پیغمبروں کو ان کے ذریعے پہچانا۔‘
جنازہ صبح کو روانہ ہوا لیکن شام تک کہیں جا کر قبرستان پہنچا۔ راستے میں چھ بار بیرونی تابوت بدلا گیا کیونکہ لوگ اس کی لکڑیاں توڑ توڑ کر تبرک کے طور پر لے جانے لگے تھے۔