انڈیا میں کوئی ایسا ہفتہ نہیں گزرتا ہوگا جب مغلوں کا نام نہ لیا جائے۔ ایسے میں غالب کا ایک شعر یاد آنا بے محل نہیں ہوگا۔
’ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر‘
بات تعلیم کے نصاب کی ہو یا پھر انڈیا میں انتخابات کی، معیشت کی بات ہو یا پھر کچھ اور غالب کے بادۂ و ساغر کی جگہ سوشل میڈیا پر بابر، اکبر اور اورنگزیب کے تذکرے چلتے ہی رہتے ہیں۔
انڈیا میں مغلیہ سلطنت کے بانی حکمراں ظہیر الدین محمد بابر کو دنیا سے رخصت ہوئے تقریبا 500 سال ہو چکے ہیں لیکن گذشتہ ایک دہائی سے جتنی بار سوشل میڈیا پر بابر اور مغلوں کا نام لیا گیا، اتنا شاید کسی اور کا نام نہیں لیا گیا ہو گا۔
انڈیا میں ’ہندو نواز‘ جماعت بی جے پی کے حکومت میں آنے کے بعد سے مغلوں کے متعلق نئے نئے بیانیے جاری ہوتے ہیں۔
تازہ مباحثہ اس وقت شروع ہوا جب انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے معاشی مشیر سنجیو سانیال نے کہا کہ ’بابر سے لے کر اورنگزیب تک سب یہاں رہنے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ یہاں سے جانا چاہتے تھے اور وہ اس لیے نہیں جا سکے کیونکہ راستے مسدود ہو چکے تھے۔‘
ان کے اس بیان کی سوشل میڈیا پر سخت مخالفت ہو رہی ہے اور سنجیو سانیال کے پوڈکاسٹ کے بعد تاریخ داں بھی اس مباحثے میں کود پڑے ہیں۔
ایشیا نیوز انٹرنیشل کی صحافی سمتا پرکاش کے ساتھ بات چیت کے دوران انھوں نے جو کہا وہ ویڈیو وائرل ہو گئی ہے اور انھیں تاریخ دانوں کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے خود ٹوئٹر پر اپنی بات رکھی ہے لیکن اب موقف قدرے مختلف ہے۔
سانیال کی وضاحت
سانیال نے ٹوئٹر پر لکھا کہ سمتا پرکاش کے ساتھ میرے حالیہ پوڈکاسٹ میں یہ ذکر کیا کہ مغلوں نے بار بار انڈیا سے وسطی ایشیا کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ ’ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگ اس سے مکمل طور پر ناواقف ہیں۔ یہاں صرف ایک بار کی تاریخ پیش کی جا رہی ہے جب اورنگزیب نے خود سنہ 1646-47 میں ایک ایسی کوشش کی تھی۔‘
اور اس کے ساتھ انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے رچرڈ فولٹز کا مضمون شامل کیا جس میں انھوں نے بلخ پر مغلوں کے قبضے کی تاریخ بیان کی جسے جرنل آف اسلامی سٹڈیز میں سنہ 1996 میں شائع کیا گيا۔
لیکن پوڈ کاسٹ میں انھوں نے جو کہا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مغل انڈیا میں رہنا نہیں بلکہ یہاں سے جانا چاہتے تھے اور تاریخ دانوں نے ان کی اسی بات کا جواب دیا ہے۔ کچھ لوگ راستوں کے بند ہوجانے کے بیان کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
https://twitter.com/sanjeevsanyal/status/1644276664006787073
انڈیا کے معروف سکالر اور کئی کتابوں کے مصنف، رکن پارلیمان ششی تھرور نے حال ہی بارھویں جماعت کے نصاب سے مغل دربار کو ہٹائے جانے بارے میں جاری ایک مباحثے کے سلسلے میں جو کہا لوگ اسے بھی نقل کر رہے ہیں۔
انھوں نے ٹوئٹر پر ایک صارف کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’آپ بنیادی طور پر غلط ہیں۔ بابر کے بعد ہر کوئی مغل بادشاہ کسی انڈین عورت کا بچہ تھا۔ انھیں کسی دوسرے آبائی وطن کا پتا نہیں تھا۔ وہیہیں رہے، پیار کیا، مرے اور یہیں دفن ہوئے، اپنے وسائل یہیں خرچ کیے اور اپنی وراثت ہم ہندوستانیوں کے لیے چھوڑی۔ میں بالکل نہیں چاہوں گا کہ ان میں سے کوئی بھی پاکستان کے حصے میں جائے۔‘
معروف تاریخ داں اور مغلوں پر کئی کتابوں کے مصنف ولیم ڈالرمپل سے جب ایک صارف کلیان رمن نے سانیال کے بیان کے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے لکھا: ’یہ درست ہے کہ بابر دولت کے لیے آيا تھا اور انھیں ہندوستان بہت پسند نہیں آیا۔ یہ بھی درست ہے کہ زیادہ تر مغل بادشاہوں نے سمرقند کو حاصل کرنے کی کوشش کی اور اپنی سلطنت کو شمال کی جانب بڑھانے کی کوشش کی لیکن اکبر کے بعد سے ان کے خون میں زیادہ تر بطور خاص راجپوت (خون) شامل ہوا اور وہ ہندو مت اور دیگر دوسری ہندوستانی چیزوں میں دلچسپی لینے لگے اور پوری طرح سے ہندوستانی بن گئے تھے۔‘
یوسف انصاری خود کو تاریخ میں دلچسپی رکھنے والا کہتے ہیں۔ انھوں نے سنجیو سانیال کا جواب دیتے ہوئے لکھا: ’مغل وسطی ایشیا کے کچھ حصوں کو اپنی تیموری وراثت کے طور پر دیکھتے تھے۔ جس طرح بابر ہندوستان کو اپنے وسیع تیموری سلطنت کے حصے کے طور پر دیکھتے تھے کیونکہ تغلق کے دہلی پر امیر تیمور نے سنہ 1398 میں قبضہ کیا تھا۔ اس لیے مسٹر سانیال کے توڑ مڑوڑ کر پیش کرنے کی کوشش کو درست کرنا ضروری ہے۔‘
اس کے ساتھ انھوں نے بابر نامہ سے اقتباس پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’سانیال کے دعوے کے برخلاف بابر نے اپنی تصنیف بابر نامہ میں واضح طور پر لودھی سلطنت پر حملہ کرنے کے اپنے مقصد کو بیان کیا ہے۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’بابر دہلی کو (سمرقند اور دسرے وسط ایشائی حصوں کی طرح) اپنا جائز ورثہ سمجھتے تھے اور انھوں نے اسے حاصل کیا تاکہ تیمور کی سلطنت کی بازیافت کر سکیں۔‘
انھوں نے اس سلسلے میں بابر نامہ، تزک جہانگیری، رقعات عالمگیری اور جوز گومنز کی تصنیف ’مغل وارفیئر‘ کے حوالے سے ایک تھریڈ شیئر کیا اور لکھا کہ ’میری اپیل ہے کہ تاریخ کی اس قسم کی سیاسی مسخ کنی سے بچا جائے جو آج ہم زیادہ تر دیکھ رہے ہیں۔ ہاں، ہمارا ماضی وہ میدان جنگ ہے جس میں ہم حال میں لڑ رہے ہیں تاکہ مستقبل کے لیے ایک مخصوص تصور تیار کر سکیں لیکن مسخ کرنا اس کتاب کا اصول نہیں ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
شہنشاہ اکبر کی ’آیا‘ ماہم انگہ: مغل سلطنت کی طاقتور ترین خاتون جن کے زوال کا باعث ان کا بیٹا بنا
ہمایوں: جب ایک ’شکست خوردہ‘ مغل شہنشاہ کی موت سیڑھیوں پر پاؤں پھسلنے سے ہوئی
احمد شاہ بہادر: وہ مغل شہنشاہ جس کی حکومت ایک خواجہ سرا نے چلائی
’کشمیر فائلز‘ جیسی متنازع فلم بنانے والے وویک اگنی ہوتری نے لکھا: ’میں ہندوستانی دانشوروں کے مغلوں سے اس خصوصی انس کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ مغلوں نے ہندوستان کے لیے کیا کیا؟ کیا انھوں نے سکول، کالج، ہسپتال بنائے۔۔۔ نہیں، انھوں نے حرم بنائے۔ کیا انھوں نے معیشت کی تعمیر کی۔۔۔ نہیں، انھوں نے اسے 40 فیصد عالمی جی ڈی پی سے کم کر کے تقریباً 15 فیصد اور انگریزوں کے جانے تک یہ 2 فیصد تک ہو گئی۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’عیاش مغلوں نے ہندوستان کو اتنا کمزور کر دیا کہ انگریزوں نے بغیر کوششوں کے ہمیں نوآبادیات بنا لیا۔ ہندو شدید غربت اور ناخواندگی کا شکار تھے۔ مغلیہ دور ظلم و ستم کا مظہر ہے۔ ایک سائنسی، ترقی پسند اور لبرل معاشرے سے ہم راسخ العقیدہ، پدرانہ اور متضاد معاشرہ بن گئے۔ ہندوستان کی تہذیب، ثقافت، سائنسی مزاج اور عدالتی انصاف سب نیچے کی طرف چلا گیا۔ یہ ایک بہت طویل مضمون ہوسکتا ہے کہ انھوں نے ہندوستان کو کس طرح تباہ کیا۔‘
’صرف ایک تاج محل کی وجہ سے جو غریب ہندوستانیوں کے خون سے تعمیر کیا گیا ہے ان کی تعریف کرنا بہت مجرمانہ ہے۔ اتنا جھوٹ پھیلا کر تم لوگ کیسے سو سکتے ہو؟‘
https://twitter.com/vivekagnihotri/status/1644311079596740614
اس کے جواب میں بہت سے لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کہیں ہیں اور لکھا ہے کہ برا لگے گا لیکن انھوں نے آپ کو کپڑے پہننا سکھایا۔
امیت بہیرے نے لکھا: ’مغلوں سے خصوصی محبت کرنے والے صرف بھگوا والے ہیں۔ آپ ہی ہیں وہ جو مستقل بابر اور اورنگزیب کی باتیں کرتے ہیں۔ نان سٹاپ تھکے بغیر 24 گھنٹے اور ساتوں دن۔ اور اس کی وجہ ہے کہ وہ لوگ تمہارا دھندا ہیں دھندا۔‘
https://twitter.com/_amitbehere/status/1644493150642159618
بہر حال ان سب باتوں سے قطع نظر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انڈیا مغلوں کے دور میں دنیا کا سب سے امیر ملک ہوا کرتا تھا اور دنیا کی تقریبا ایک چوتھائی دولت یہاں ہی تھی۔
اسی لیے پورا یورپ، برٹش سے لے کر ڈچ تک، اس تک پہچنے کے لیے ایک عرصے تک برسرپیکار رہا جس میں فتح برٹش راج کو حاصل ہوئی۔