BBCماہم علی اسلام آباد کی رہائشی ہیں اور پچھلے پندرہ سال سے کمیونکیشن ایکسپرٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں
’تمھیں فرنٹ ڈیسک پر ہونا چاہیے۔ صبح صبح موڈ اچھا ہو جایا کرے گا، اتنا سج دھج کر کس کے لیے آفس آئی ہو۔۔۔ یہ لڑکیاں پہلے ریپ انجوائے کرتی ہیں پھر ’می ٹو‘ مہم چلاتی ہیں۔۔۔ ارے میں تو مذاق کر رہا تھا، تم تو بہت اچھی گاڑی چلاتی ہو۔‘
ایسی تضحیک آمیز باتوں کا سامنا اکثر خواتین کو اپنی روزمرہ زندگی میں کرنا پڑتا ہے۔ انگریزی میں اسے ’مِسوجنی‘ اور اردو میں ’عورتوں سے نفرت‘ کرنا کہا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں بی بی سی سے بات کرنے والی کئی خواتین نے یہ اعتراف بھی کیا کہ انھیں پہلے پہل سمجھ ہی نہیں آیا کہ ان کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے یا ان کی تضحیک کی جا رہی ہے۔
حال ہی میں جب پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ سیاستدان نبیل گبول کا ایک ویڈیو انٹرویو سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا تو اس انٹرویو میں نبیل گبول کی جانب سے دی گئی ایک مثال نے کئی لوگوں کو طیش دلا دیا۔
یہ انٹرویو دراصل رواں سال جنوری میں براڈ کاسٹ کیا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں کہے گئے الفاظ یہاں نہیں دہرائے جا سکتے لیکن نیبل گبول کے بیان پر تنقید کے دوران ایک سوال ضرور ذہن میں آتا ہے کہ کیا خواتین کی تضحیک ہماری عام بول چال کا اتنا گہرا حصہ بن چکی ہے کہ اسے عام بات سمجھا جاتا ہے یا کوئی ایسی باتوں کو ٹوکنا بھی نہیں چاہتا؟
’آفس تیار ہو کر گئی تو باس نے کہا آپ مجھ سے پروموشن لینے آئی ہیں‘
ماہم علی اسلام آباد کی رہائشی ہیں اور پچھلے پندرہ سال سے کمیونکیشن ایکسپرٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہ پاکستان کے پسماندہ اضلاع میں تعلیم عام کرنے کی مہم کا بھی حصہ ہیں۔
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ماہم نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک دور میں وہ پبلک سیکٹر میں کام کرتی تھیں اور ایک دن آفس تھوڑا تیار ہو کر چلی گئیں۔
’آفس سے اندر داخل ہوتے ہی مجھے میرے باس نے کہا کہ آپ مجھ سے پروموشن لینے آئی ہیں یا کوئی اور کام ہے؟‘
ماہم نے کہا کہ ’بطور خاتون آپ کو بچپن سے ہی بتایا جاتا ہے کہ آپ کو سب سے تمیز سے بات کرنی ہے لیکن اس تمیز اور عزت کا کیا جس کی میں مستحق ہوں؟‘
BBCنازیبا باتوں کی وجہ سے ’فیملی واٹس ایپ گروپ چھوڑ دیا‘
پاکستانی میڈیا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ’مجھے جیسے ہی ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ بنایا تو میرے تمام مرد کولیگز نے احتجاجاً کہا کہ ہم لڑکی کے ماتحت کام نہیں کریں گے۔‘
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتونِ خانہ نے بتایا کہ ’جب لوگ خواتین سے بدتمیزی کرتے ہیں یا ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو وہ ان کی تربیت اور معاشرے کی عکاس ہوتی ہے۔ جب میرا بچہ کسی سے بدتمیزی کرتا ہے تو میں اسے وہیں ٹوکوں گی لیکن اگر گھر کا ماحول ہی ایسا ہو گا تو بہت مشکل ہوگا ایسی نازیبا باتوں کو روکنا۔‘
ایک کالج کی طالبہ نے بتایا کہ انھوں نے اپنے خاندان کا واٹس ایپ گروپ چھوڑ دیا۔
’جب عورت مارچ شروع ہوا تھا تب بدتمیزی کی انتہا ہو گئی تھی۔ ہمارے فیملی واٹس ایپ گروپ میں ایک انکل نے لکھاکہ پہلے تو خواتین ریپ انجوائے کرتی ہیں اور پھر ’می ٹو‘ مہم چلاتی ہیں۔ میں نے فوراً خود کو اس گروپ سے نکال لیا۔‘
مردوں سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو زیادہ تر نے مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے خواتین کی عزت کے بارے میں بات کی۔
ایک نوجوان نے کہا کہ ’ایسے واقعات میں تبھی اضافہ ہوتا ہے جب دین سے دوری اختیار کی جاتی ہے کیونکہ اسلام تو خواتین کی عزت کا درس دیتا ہے۔‘
BBCسماجی کارکن اور اداکار عدیل افضل کہتے ہیں کہ اس ملک میں سیلاب اور زلزلے کا ذمہ دار بھی خواتین کے لباس کو سمجھا جاتا ہے‘’سیلاب اور زلزلے کا ذمہ دار بھی خواتین کے لباس کو سمجھا جاتا ہے‘
سماجی کارکن اور اداکار عدیل افضل نے معاشرے کے اس دہرے معیار کو کچھ یوں بیان کیا کہ ’کچھ تو کیا ہو گا۔۔۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ جملہ ہمیں زیادہ تر تب سننے کو ملتا ہے جب خواتین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں بات کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کا یہ عمومی رویہ بن چکا ہے کہ جب بھی خواتین اپنے ساتھ ہونے والی کسی ناانصافی یا تشدد، یہاں تک کہ ریپ کی شکایت کرتی ہیں تو بجائے قصوروار کو ڈھونڈنے کے مظلوم پر الزام لگایا جاتا ہے۔‘
’ہم ظالم کا گریبان پکڑنے کے بجائے مظلوم سے ہی سوالات کرنا شروع ہو جاتے ہیں کہ تم پہلے کیوں نہیں بولیں؟ تم اکیلی باہر کیوں نکلیں؟ تم نے کیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے؟ یہ رویہ کسی عام آدمی یا کسی جاہل کی طرف سے نہیں اپنایا جاتا بلکہ یہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
خواتین کو ترقی کے لیے مردوں سے زیادہ محنت کیوں کرنی پڑتی ہے؟
پراعتماد عورت سے لوگوں کو مسئلہ کیوں؟
میرا جسم میری مرضی، عورت مارچ کے لیے نعرے، بینر اور پوسٹر تخلیق کرنے والی خواتین پر کیا گزری؟
عدیل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے دانشوروں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور پڑھے لکھے طبقے کی طرف سے بھی ایسے جملے سننے کو مل جاتے ہیں۔ ہم تو اس ملک میں آنے والے سیلاب اور زلزلے کا ذمہ دار بھی خواتین کے لباس کو سمجھتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا ان رویوں کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ ’ہم خواتین کو بطور انسان یا فرد تسلیم کرنے اور اسے اس کا مقام دینے کو تیار نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قصوروار کو سزا دیں۔ اگر کوئی اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی شکایت لے کر آئے تو اسے سنیں۔ ہمیں اپنے علم و ادب کے نظام کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
جبکہ ماہم علی نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا احتجاج عورت مارچ کے انعقاد کے دوران دیکھنے میں آیا تھا۔ لوگوں کو یہی مسئلہ ہے کہ خواتین کیسے اپنے حق کی بات کر سکتی ہیں، تو ان کا مذاق اڑا کر ان کو اپنی جگہ یاد دلاؤ۔‘