پنجاب میں انتخابات: کیا حکومت پارلیمان کی مدد سے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد سے بچ سکتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 06, 2023

سپریم کورٹ کی جانب سے 14 اپریل کو پنجاب میں الیکشن کروانے کے حکم کی تعمیل پر وفاقی حکومت کی شدید اعتراض کے باوجود بدھ کے روز الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔

الیکشن شیڈول جاری ہونے کے باوجود اب تک یہ واضح نہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں انتخابات مقررہ وقت پر ہو پائیں گے یا نہیں۔ اس ابہام کی وجہ وفاقی حکومت کی جانب سے سامنے آنے والا یہ مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ اقلیتی فیصلہ ہے جس پر اطلاق حکومت پر لازم نہیں۔

گذشتہ رات وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ’وزارت قانون نے یہ رائے دی تھی کہ تین ممبر بینچ کا فیصلہ اقلیتی فیصلہ ہے اور چار معزز ججز کا فیصلہ اصل فیصلہ ہے جس کی رو سے سو موٹو نوٹس خارج تصور ہو گا۔‘

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’کابینہ نے اس رائے کی منظوری اتحادیوں جماعتوں کے سربراہان سے لی ہے جہاں فیصلہ ہوا ہے کہ اس رائے پر پارلیمنٹ کی منظوری لی جائے۔‘

’جب پارلیمان کی رائے ہو گی کہ فیصلہ چار تین سے ہے تو پھر تین ججز کا فیصلہ اقلیتی فیصلہ ہو گا جس پر عمل نہیں کروایا جا سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کابینہ نے اپنے حتمی فیصلے کو پارلیمان کی رائے سے مشروط کیا ہے اور اگر پارلیمنٹ ایک قرارداد کے ذریعے ایک عمل کو منظور کرتی ہے تو وہ حکومت پر بائنڈنگ ہو گا۔‘

ایک سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’اگر تین ججز کا بینچ پوری پارلیمان کو گھر بھیجنا چاہتا ہے تو یہ بھی ہو جانا چاہیے۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے اس اصرار کے باعث ناصرف الیکشن کے بروقت اور عدالتی احکامات کے تحت انعقاد پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے بلکہ حکومتی حکمت عملی کے باعث پارلیمان اور عدلیہ میں ایک نئی محاذ آرائی کا خدشہ جنم لے چکا ہے۔

تاہم اہم سوال یہ ہے کہ آیا حکومت کی جانب سے عدالتی حکم کے خلاف پارلیمانی قرارداد کا سہارا لینے کی حکمت عملی کو قانونی اور آئینی ماہرین کس نظر سے دیکھتے ہیں کیوںکہ پاکستان کی تاریخ میں متعدد بحرانوں کے باوجود اپنی نوعیت کا یہ الگ سا بحران ہے جس میں عدلیہ خود تقسیم کا شکار ہے۔

EPA

کیا حکومت پارلیمان کی مدد سے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد سے بچ سکتی ہے؟ اس کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر حکومت اس حکمت عملی کے تحت سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کرتی ہے تو عدالت کے پاس کیا راستہ باقی بچے گا؟

تاہم قانونی ماہرین بھی اس معاملے پر تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت کے مطابق الیکشن کا انعقاد ایک جانب تو آئینی معاملہ ہے تو دوسری جانب اس کے انعقاد میں مالی مسائل بھی رکاوٹ ہیں جبکہ ملک کی سکیورٹی صورتحال کو بھی بطور جواز پیش کیا جا رہا ہے۔

اس معاملے پر جب بی بی سی نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’سپرم کورٹ کا حکم اس حد تک بائنڈنگ ہوتا ہے کہ اگر اس کو سپر سیڈ کرنا ہو تو صرف آئینی ترممیم سے کیا جا سکتا ہے۔‘

دوسری جانب سابق اٹارنی جنرل اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر کا ماننا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے حکم کی حیثیت اس وقت ہوتی ہے جب وہ کسی قانون یا آئین کے تحت دیا جائے جبکہ یہ فیصلہ صرف تین ججوں کا ہے جن کو یہ آئینی اختیار ہی نہیں کہ وہ الیکشن کی تاریخ دیں۔‘

اس معاملے میں پہلے جسٹس وجیہہ الدین کی رائے جانتے ہیں۔

جسٹس وجیہہ کے مطابق ’کسی عدالتی حکم کو، جو حتمی شکل اختیار کر چکا ہو، آرڈیننس یا ایکٹ سے بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘

قومی اسمبلی کی قرارداد کی حیثیت پر بات کرتے ہوئے جسٹس وجیہہ کا کہنا تھا کہ ’آئین اور قانون میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں، یہ ایک سیاسی عمل تو ہو سکتا ہے لیکن آئینی اور قانونی طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔‘

واضح رہے کہ جسٹس وجیہہ الدین احمد تحریک انصاف کا حصہ بھی رہے ہیں اور دو بار صدارتی امیدوار بھی بنے تاہم 2016 میں انھوں نے تحریک انصاف کو خیر آباد کہہ دیا تھا۔

جب جسٹس وجیہہ الدین سے حکومت کے اس موقف پر رائے لی گئی کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اقلیتی فیصلہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اقلیتی فیصلہ نہیں ہے۔‘

’جب چیف جسٹس کی جانب سے بینچ کی دوبارہ تشکیل کے لیے تمام ججوں کے دستخط ہوئے تو اس کا مطلب ہے کہ پہلے کوئی حکم موجود نہیں تھا اور جب چیف جسٹس نے دوبارہ بینچ بنا دیا تو ایک نیا بینچ تھا جس کے بعد جو کچھ پہلے ہوا وہ ختم ہو گیا۔‘

جسٹس وجیہہ نے بحیثیت ایک سابق جج مؤقف پیش کیا تاہم جب عرفان قادر سے بی بی سی کی بات ہوئی تو ان کا مؤقف بلکل متضاد تھا۔

عرفان قادر، جو اس مخصوص کیس میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی بھی کر رہے تھے، کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کی حیثیت تب ہوتی ہے جب وہ کسی قانون یا آئین کے تحت ہو۔‘

’قانون اور آئین میں سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ انھوں نے جو حکم دیا وہ ایسے ہی تھا جیسے پانامہ کیس میں نیب کو ریفرنس بنانے کا حکم دیا گیا۔‘

عرفان قادر نے کہا کہ ’اس فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں۔‘ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر چوری کی سزا پینل کوڈ میں 13 سال ہے اور سپریم کورٹ کہتا ہے کہ 14 سال کی سزا دیں گے تو وہ سزا نہیں ہو سکتی کیوںکہ وہ مروجہ قانون کے تحت نہیں دی گئی۔‘

یہ بھی پڑھیے

سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی کے لیے ’پاکستان کی فتح‘ تو کسی کے لیے ’آئینی بحران سنگین‘ ہونے کا پیش خیمہ

چیف جسٹس کا ’ازخود نوٹس کا اختیار‘ جو عدلیہ میں تقسیم کی وجہ بنا

عمر عطا بندیال: ’دھیما مزاج‘ رکھنے والے پاکستان کے چیف جسٹس کون ہیں؟

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کرنا بہتر قانونی راستہ نہیں ہو گا تو ان کا دو ٹوک جواب تھا: ’نظر ثانی کی کوئی ضرورت نہیں، حکومت کو اس حکم کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ سپریم کورٹ ایسا حکم دے ہی نہیں سکتی، یہ سپریم کورٹ کا نہیں، تین ججوں کا حکم ہے۔‘

اگر حکومت اپنے موقف پر قائم رہتی ہے اور پارلیمانی قرارداد کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے انکار کرتی ہے تو عدالت کے پاس کیا قانونی راستہ ہو گا؟

جسٹس وجیہہ الدین کا ماننا ہے کہ ’عدالت نے ایسے معاملات میں ہمیشہ تحمل اور برداشت سے کام لیا ہے۔‘

لیکن کیا یہ تحمل تمام تر سیاسی تنقید کے باوجود برقرار رہے گا؟

جسٹس وجیہہ کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں جو لوگ باتیں کر رہے ہیں عدلیہ کے بارے میں، چیف جسٹس کے بارے میں، ان کو سنی ان سنی کر دیا جاتا ہے، اور یہی رویہ درست ہو گا۔‘

مگر سپریم کورٹ الیکشن کے انعقاد کو کیسے یقینی بنائے گی؟

جسٹس وجیہہ کا کہنا تھا کہ ’اگر ضرورت ہوئی تو توہین عدالت کی کارروائی کی جا سکتی ہے جو صرف ان لوگوں تک محدود ہو گی جن کا الیکشن کے انعقاد میں کوئی براہ راست کردار ہے۔‘

’جو متعلقہ بیوروکریسی کے سربراہان ہیں، جنھوں نے یہ سب کام کرنے ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے عدالت ان تک محدود رہے۔‘

جب ان کے سامنے رانا ثنا اللہ کا یہ موقف رکھا گیا کہ سپریم کورٹ کو پوری پارلیمان کو گھر بھیجنا ہو گا تو ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ ایسا نہیں کرے گی۔‘

تو اگر حکومتی حکمت عملی قانونی اور آئینی دائرہ کار کے تحت نہیں تو اس کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟

جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے محاذ آرائی ہو تاکہ خود کو مظلوم ثابت کیا جا سکے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔‘

’میں نہیں سمجھتا کہ عدالت ان کو وہ موقع دے گی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More