جنسی اعضا کے نام لینے میں شرم خواتین کی صحت کے لیے کتنی خطرناک ہو سکتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 06, 2023

ڈاکٹروں نے متنبہ کیا ہے کہ جنسی اعضا کے ناموں سے جڑی شرمندگی خواتین کی صحت کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

ڈاکٹر عزیزہ سیسے کہتی ہیں کہ خواتین کے جسم اور اعضا کو ہائپر سیکسولائزیشن (محض جنسی عمل کے طور پر پیش کرنے) سے ’تہمت اور شرمندگی کے احساسات بڑھتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس سے خواتین طبی مدد حاصل کرنے سے گریز کرتی ہیں جس کی انھیں ضرورت ہوتی ہے۔

برطانوی ادارۂ صحت (این ایچ ایس) کی ڈاکٹر عزیزہ سوشل میڈیا پر ایسا مواد پوسٹ کرتی ہیں جس سے خواتین سیکس ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ زبان سے جڑی رکاوٹوں پر عبور حاصل کر سکیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ کام مشکل ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے سینسرشپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جب آپ کیپشن (عنوان) میں ولوا، وجائنا یا کلیٹروس لکھیں تو اینگیجمنٹ (پوسٹ پر ردعمل) کم ہو سکتا ہے کیونکہ الگورتھم خود بخود کا سمجھ لیتا ہے کہ یہ کوئی نامناسب چیز یا پورن ہے۔‘

آن لائن مواد میں اگر خواتین کی اناٹومی یا اعضا سے متعلق سادہ سی تصویر بھی لگائی جائے تو اسے ’حساس‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں لوگوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ متعلقہ تصویر ’پریشان کن‘ ہو سکتی ہے اگر انھوں نے اسے کھول کر دیکھا۔

ڈاکٹر عزیزہ نے بتایا کہ ’خواتین کو اپنے جنسی اعضا سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔‘

’یہ عام اعضا کی طرح ہیں، جیسے آپ کا سر، کندھے، گھٹنے یا پیر۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اکثر خواتین کی صحت کے مسائل کو نقصان دہ نہیں سمجھا جاتا اور یہ کہہ کر انھیں ٹوک دیا جاتا ہے کہ اس سے ان کی زندگی کو خطرہ نہیں۔ تاہم وہ اس اصطلاح کی مخالفت کرتی ہیں کیونکہ اس سے کسی کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کو کم ظاہر کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جنسی تعلق قائم کرنے سے قبل اور اس کے بعد مردوں اور خواتین کو حفظان صحت کی کون سی آٹھ عادات اپنانی چاہییں؟

ڈیجیٹل دور میں بچوں کو سیکس کی تعلیم کیسے دی جائے؟

اورل سیکس سے کئی انفیکشنز ہو سکتے ہیں لیکن ان سے کیسے بچا جائے؟

عالمی وبا کے بعد طبی امداد کے ان کیسز کو اہمیت دی جانے لگی جنھیں فوری توجہ درکار نہیں تھی۔ ان افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا جو کئی سال سے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ 2022 کی موسم گرما میں صورتحال قدرے بہتر ہوئی جب صرف ویلز میں آٹھ ہزار سے کم خواتین ایک سال سے زیادہ عرصے سے امراض نسواں میں اپنے پہلی اپائنٹمنٹ کی منتظر بتائی گئیں۔ اسی دوران طبی امداد کے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔

ڈاکٹر سیسے خواتین کے امراض کی ماہرین میں سے ایک ہیں جو 24 جون کو کارڈف کے ’ایووری وومن فیسٹیول‘ میں شرکت کریں گے۔ یہاں ماہواری سے مینوپاز تک مختلف موضوعات پر بات کی جائے گی۔

ڈاکٹر مشیل اولور این ایچ ایس میں جنسی صحت اور مینوپاز کی ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف مریض ہی زبان کی وجہ سے تنگی محسوس نہیں کرتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مینو پاز سے قبل اور مینو پاز کے دوران ایک علامت اندام نہانی کا خشک اور خارش زدہ ہونا ہے جبکہ مریض میں جنسی عمل کی خواہش بھی کم ہو جاتی ہے۔ یہ تمام علامات ایک ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’اندام نہانی میں سوجن کے باعث خواتین سیکس کرنا نہیں چاہیں گی۔ مگر اس پر کئی بار تحقیق ہوئی ہے کہ طبی عملہ سیکس کے بارے میں بات کرنے سے کتراتا ہے اور یہ نہیں پوچھ پاتا کہ اندام نہانی میں کدھر درد ہے۔‘

’پریشانی دینے کے انداز میں بات کرنا بعض اوقات مریض کے لیے فائدہ ہو سکتا ہے۔ اگر طبی عملہ سیکس کے بارے میں بات کرنے سے کترائے گا تو خواتین کے لیے بھی ان چیزوں پر بات کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ طبی عملے کی ہچکچاہٹ ختم کرنا ان کے کام کا حصہ ہے۔

’یہ میری بیٹیوں کے مستقبل کا سوال ہے‘

کولوریکٹل سرجن جولی کورنش نے اس فیسٹیول کی بنیاد رکھی جو کارڈف اور ویل ہیلتھ بورڈ کے لیے کام کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ شرمندگی کا باعث بننے والی علامات پر اکثر بات نہیں کی جاتی۔

’یہ غیر معمولی نہیں کہ آپ ان مریضوں سے ملیں جنھوں نے 10 سے 15 سال ان علامات کے ساتھ گزارے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ انھیں اپنا کام ترک کرنا پڑا یا ان کے (رومانوی) تعلقات ٹوٹ گئے۔‘

’لوگ جلدی ریٹائر ہوجاتے ہیں، کام بند کر دیتے ہیں اور لوگوں سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں۔ تاخیر کا مطلب اکثر یہی ہوتا ہے کہ حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔ پھر انھیں فزیو تھراپی، مخصوص غدائیت اور معمول میں تھوڑی بہت تبدیلی کے بجائے سرجری کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ مسائل پہلے ہی آسانی سے حل ہو سکتے تھے۔‘

وہ اس فیسٹیول کے ذریعے ان موضوعات پر بات کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان موضوعات پر بات کر کے ہی بہتر سہولیات دی جا سکتی ہیں۔ ’مجھے لگتا ہے کہ سماج کے کچھ گروہوں میں خود مختاری اور آواز بلند کرنا پہلے سے پایا جاتا ہے جن کے باعث خواتین کہتی ہیں کہ ’میں اس سے خوش نہیں، مجھے مدد درکار ہے‘۔‘

’مگر ویلز میں ایسی کئی برادریاں ہیں جہاں یہ اب بھی بڑا مسئلہ ہے۔ یہ خواتین کے لیے رکاوٹ کی مانند ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس موضوع کو لے کر جذباتی ہوں۔ یہ میری بیٹیوں کے لیے اہم ہے۔‘

’میں چاہتی ہوں کہ آگے جا کر وہ ایسی دنیا میں جی سکیں جہاں یہ گفتگو آسان ہو۔ جہاں وہ سہولیات تک رسائی حاصل کر سکیں اور بُرے معیار زندگی کو قبول نہ کریں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More