معروف تاجر برادری کی دولت کی گواہی دینے والی سو سال پرانی حویلیاں ویرانی کی داستان کیسے بنیں؟

بی بی سی اردو  |  Apr 06, 2023

میں انڈیا کی ریاست تمل ناڈو کے شہر کارائے کوڈی میں ٹرین سے اُتری تو شام ہو چکی تھی اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔

میں ٹیکسی میں روانہ ہوئی تو راستے میں مجھے سینکڑوں شکستہ حویلیاں دکھائی دیں جن کو ’چتی نند‘ حویلیاں کہا جاتا ہے۔

لیکن ان انتہائی خوبصورت عمارتوں میں سے بیشتر آج مکمل طور پر خالی ہیں۔

اس خطے میں تقریباً دس ہزار ایسی حویلیاں ہیں۔ ہر ایک تقریبا کئی ایکڑوں پر محیط ہے۔

ان حویلیوں کو یہاں کی امیر تاجر برادری ’نتوکوٹائی چیتیار‘ کمیونٹی نے تعمیر کروایا تھا جنھوں نے قیمتی پتھروں کی بیرون ملک تجارت سے خوب پیسہ کمایا۔

19ویں صدی کے اواخر اور 20ویں صدی کے آغاز پر اس برادرینے اپنی معاشی طاقت کا عروج پایا اور یہی وہ وقت تھا جب ان حویلیوں کو تعمیر کروایا گیا۔

تاہم دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو تجارت ٹھپ ہو گئی اور اس برادری کی دولت میں کمی واقع ہوئی۔

یہ ان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھا جب اس برادری کے افراد کو ملازمت کی تلاش میں اپنا شہر اور ملک تک چھوڑنا پڑا۔

آج اس شہر کی چکن ڈش اور نوادرات تو مشہور ہیں لیکن تقریباً 73 دیہات پر پھیلی یہ حویلیاں سیاحوں کی نظروں سے دور ہیں۔

اکثریت کھنڈروں کا منظر پیش کرتی ہیں جبکہ چند کو ان کے مالکان نے حویلیوں کو ہوٹل یا میوزیم کی شکل دے رکھی ہے، شاید یہ تاجر اپنی کہانی کو زندہ رکھنے میں دلچسی رکھتے ہیں۔

میں کاناڈوکاٹھن گاؤں پہنچی جہاں ایک سو سال پرانی چیتی ناڈو حویلی میں بنے ہوٹل میں مجھے دو دن قیام کرنا تھا۔ ادھیڑ عمر مالک نے میرا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اس حویلی کی تزئین و آرائش ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا پسندیدہ کام تھا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میرے دادا نے یہ حویلی 1902 سے 1912 کے درمیان تعمیر کروائی اور یہاں میرے خاندان سمیت ہماری چار نسلیں رہیں۔ مجھی اپنی میراث پر فخر ہے اور اس کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے۔‘

43 ہزار سکوائر فٹ پر پھیلی اس حویلی کے متعدد کمروں اور دالانوں میں گھومتے ہوئے میں اس کی شاندار تعمیر کو سراہے بنا نہ رہ سکی۔

میری نظر ایک دالان میں موجود ستونوں پر پڑی جن پر نیلا رنگ تھا۔ ایک تنگ سیڑھی مجھے ایک ہوا دار مقام پر لے آئی جہاں مہمانوں کو ٹھہرانے کے لیے کمرے موجود تھے۔

چندرامولی نے مجھے بتایا کہ اس حویلی کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والی لکڑی برما سے آئی تھی۔ ’شیشہ اور فانوس بیلجیئم سے جبکہ فرش کے لیے سنگ مرر اٹلی سے خریدا گیا۔‘

’ہال میں موجود ستونوں کے لیے گرینائٹ سپین سے اور مرکزی دالان میں ستونوں کے لیے انگلینڈ سے سامان منگوایا گیا۔‘

حویلیوں کی تعمیر ایک سنجیدہ معاملہ تھا جس کے لیے اس برادری نے اپنا پیسہ بھی لگایا اور خوابوں کے محل کی تعمیر میں اپنا دل بھی۔

ان کو یورپ کا طرز تعمیر اچھا لگتا تھا اور انھوں نے دنیا بھر سے سامان منگوایا جس کی جھلک یہاں نظر آتی ہے۔ تاہم تمل طرز تعمیر بھی کھلے دالانوں اور برآمدوں کی شکل میں واضح ہے۔

ڈاکٹر سیتھا راجیو کمار تمل ناڈو کے ادھیامان انجینیئرنگ کالج میں شعبہ آرکیٹیکچر کی سربراہ ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں کی عمارتیں بتاتی ہیں کہ کس طرح باہر سے خیالات کی مدد سے مقامی طرز تعمیر کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمدہ تعمیر کی جا سکتی ہے اور اسی وجہ سے یہ اتنی خاص ہیں۔‘

ہر حویلی میں اوسطا 50 کمرے ہیں اور تین سے چار دالان۔ اکثریت ایک ایکڑ سے زیادہ رقبے پر تعمیر ہیں اور تقریباً پوری گلی پر محیط ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو مقامی لوگ ’بڑے گھر‘ کہتے ہیں۔

چندرا مولی بتاتے ہیں کہ ’ہمارے آباؤاجداد نے اتنے بڑے گھر اس لیے بنائے تھے کہ پورا خاندان یہاں رہے گا۔ چونکہ مرد کاروبار کے لیے زیادہ تر باہر رہتے تھے تو یہ ضروری تھا کہ خواتین اور بچے خود کو ان کی غیر موجودگی میں محفوظ سمجھیں۔‘

ایک زمانے میں ہر حویلی میں 70 سے 80 لوگ رہا کرتے تھے۔

اگلے دو دن میں نے درجنوں حویلیوں کا دورہ کرنے میں صرف کیے۔ ہر ایک کی اپنی تاریخ تھی۔

پہلے میں نے ایک گاؤں میں موجود حویلی کا دورہ کیا جسے ’اٹھنگوڈی محل‘ کہا جاتا ہے۔ اس حویلی کو اب میوزیم کا روپ دیا گیا ہے جسے دیکھ کر میں دنگ رہ گئی۔

اطالوی سنگ مرر سے بنا فرش، ہسپانوی گرینائت کالم، بیلجیئم کے شیشوں سے بنی کھڑکیاں اور مغل طرز کی بالکونی۔۔۔یہ عمارت تو کسی بادشاہ کے لیے بنی تھی۔

اس کے بعد میں نے علاقے کے ثقافتی ہوٹل بنگلا کا دورہ کیا۔ یہاں آنے کا مقصد مقامی پکوان کی کلاس لینا تھا لیکن میں اس حویلی کی تاریخ سے متاثر ہوئی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ حویلی باقی حویلیوں کی طرح خاندانی گھر نہیں تھا بلکہ ایم ایس ایم ایم خاندان نے اسے تقریبات کے لیے بنایا تھا جہاں صرف مرد ہی آ سکتے تھے۔ اس حویلی میں خواتین کا داخلہ منع تھا۔

تاہم اب اس حویلی کی دیکھ بھال میناکشی میاپن کرتی ہیں جو اسی خاندان کی بہو ہیں۔

89 سالہ میناکشی مقامی پکوانوں پر ایک کتاب بھی لکھ چکی ہیں۔

میرے دورے کے دوران چند حویلیوں میں رہنے والے مالکان نے مجھے دعوت بھی دی جبکہ کچھ ایسی حویلیاں بھی تھیں جن کے دروازوں پر تالے پڑے ہوئے تھے۔

چند حویلیاں مقدمات کی وجہ سے کھنڈر میں بدل رہی تھِں جب کہ چند اس لیے ویران تھیں کہ ان کو اپنی اصل شکل میں بحال کرنے کی لاگت اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔

راجیو کمار نے بتایا کہ ان حویلیوں کو بحال کرنے کا خرچہ ہزاروں ڈالر تک ہو سکتا ہے اور ’یہ صرف ایک بار کا خرچہ نہیں ہے کیوں کہ ان کو دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

چندرامولی کا کہنا ہے کہ اب تک صرف 10 فیصد حویلیوں کو دوبارہ سے سیاحوں کے لیے اصل شکل میں بحال کیا گیا ہے جبکہ 30 فیصد مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔

’ہمارا کام ہے کہ باقی 60 فیصد کو مل کر بحال کریں۔‘

میاپن مقامی تاریخ اور ثقافت میں ازسر نو دلچسپی پیدا کرنے اور ان تباہ حال حویلیوں میں نئی زندگی ڈالنے کے لیے پر امید ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اگست اور ستمبر میں مقامی میلے کے ذریعے اس جانب پہلا قدم اٹھایا جائے گا۔

اگرچہ یہ مقام انڈیا میں بھی زیادہ تر لوگوں کی نظر سے دور ہے تاہم چندرا مولی اور میاپن جیسے مقامی افراد کی کوششوں سے ان بھولی بسری حویلیوں میں ایک نئی جان پیدا ہو رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More