آج 6 ستمبر ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب 1965 میںرات کے اندھیرے میں بھارت نے پاکستان پر بزدلانہ حملہ کیا تھا۔ اس وقت بھارت کو لگتا تھا کہ پاکستان دفاع کے لئے تیار نہیں ہوگا لیکن پاک فوج کے جوان جو ہر لمحہ سرحد کی حفاظت کے لئے چوکنا رہتے ہیں، دشمن کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔ تب سے ہر سال پاکستان اس دن کو یومِ دفاع کے طور پر مناتا ہے۔
آج ہم اس دن کی مناسبت سے پاکستان کے سب سے بڑے قومی اعزاز نشانِ حیدر کے بارے میں بتائیں گے۔ یہ پاکستان کا سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا اعزاز ہے جو صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو وطن کی راہ میں اپنی جانیں قربان کر کے شہادت کا درجہ پاتے ہیں۔ پاکستان میں اب 11 شہیدوں کو نشانِ حیدر سے نوازا جاچکا ہے جس میں صرف راشد منہاس کا تعلق پاک فضائیہ سے تھا جب کہ باقی شہداء پاک فوج کا حصہ تھے۔
نشانِ حیدر کا نام
نشان ِ حیدر کا نام حضرت علی کے لقب “حیدر کرار“ پر رکھا گیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہادری اپنی مثال آپ تھی یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے سب سے بڑے اعزاز کا نام ان کے لقب پر حیدر رکھا گیا۔ نشانِ حیدر یعنی بہادری کا نشان۔
نشانِ حیدر دشمن کی کس چیز کو توڑ کر بنایا جاتا ہے؟
بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ نشانِ حیدر کی بناوٹ میں دشمن ملک کی فوج کی ہار بھی شامل ہوتی ہے۔ جی ہاں اس عظیم اعزاز کو بنانے کے لئے ہاری ہوئی دشمن فوج کا اسلحہ توڑ کر استعمال کیا جاتا ہے اور اسے ہی شہداء کے لئے تمغے کی صورت دی جاتی ہے۔ نشانِ حیدر کی بناوٹ میں 88 فیصد کاپر، 10 فیصد سونا اور 2 فیصد زنک استعمال کیا جاتا ہے۔