لڑکیاں بھی بائیک چلائیں گی بناء کسی رُکاوٹ کے ۔۔ جانیئے وہ کون سی بائیک ہے جو لڑکیاں بآسانی چلاسکتی ہیں

ہماری ویب  |  Aug 31, 2021

ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے انسان بس، رکشہ، ٹیکسی یا کسی گھر والے کا انتظار کرتا ہے جو اسے موٹر سائیکل یا گاڑی میں بٹھا کر چھوڑ جائے اور خصوصاً لڑکیوں کو تو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے اور آنے کے لئے سب سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، کبھی گھر میں ابو یا بھائی نہ ہو تو پبلک / لوکل بسوں کا انتظار کرو، ان میں دھکے کھاؤ، ان میں لٹک کر جاؤ اور پھر سڑک پر کھڑے ہو کر ہزاروں راہ گیروں کی باتیں سنو۔ اب یہ سب دور ہوچکا ہے پُرانا اور زمانہ بھی بالکل بدل گیا ہے۔

کل تک جہاں موٹر سائیکل صرف اور صرف لڑکے چلاتے دکھائی دیتے تھے، وہیں اب لڑکیاں بھی اس میدان میں پیش پیش ہیں اور اب اپنی موٹر سائیکل اور سکوٹی دوڑاتی سڑکوں پر نظر آ رہی ہیں جس کے لئے وہ باقاعدہ ٹریننگ کلاسز بھی لے رہی ہیں۔ جو لڑکیاں بائیک چلانے سے ڈرتی ہیں ان کے لئے سکوٹیاں بھی موجود ہیں اور اب تو آٹومیٹیکل سکوٹیاں بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔

ہماری ویب کے ویڈیو نمائندے نے کراچی میں موجود جولٹا بائیک شو روم کے منیجر سے بات کی، جہاں انہوں نے پاکستان کی جانب سے بنائی گئی ایسی الیکٹرک بائیک لڑکیوں اور خواتین کے لئے دکھائی ہے، جس کو چلانے کے لئے آپ کو نہ تو پیٹرول پمپ پر گھنٹوں کھڑے ہو کر پیٹرول بھروانے کا انتظار کرنا پڑے گا اور نہ انجن کے خراب ہونے یا گاڑی کے رُکنے کی دکت ہوگی کیونکہ اس میں ایسا بیٹری سسٹم لگایا گیا ہے جس کا پلگ گھر کے کسی بھی سوئچ میں لگا سکتے ہیں اور آسانی سے آپ کی بائیک چارج ہو جائے گی۔

اس کی رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے ہے اور بیٹری صرف 3 گھنٹے میں مکمل چارج ہوتی ہے، اس میں آگے اور پیچھے دو سیکشن ہیں جہاں آپ اپنا سامان بھی رکھ سکتی ہیں اور ساتھ ہی اس میں لاک بھی ہے کہ آپ سامان رکھ کر لاک کردیں تو کوئی اس کو نکال کر بھاگ نہیں سکے گا۔۔

اس کا شیپ بھی خواتین کے حساب سے ہے اور پنک کے علاوہ بھی کلرز موجود ہیں۔ ٹائر اور انڈیکیٹر کے ساتھ فُٹ ریس بھی مضبوط موجود ہے اور اس کی کپمنی کی پرائز اور ٹیکس سمیت 1 لاکھ 5 ہزار روپے کی ہے۔ اس بائیک کی باڈی بیرون ممالک سے منگوائی گئی ہے، البتہ اس کی الیکٹریکل مشینری تمام تر پاکستانی ہے اور یہ ایک مکمل پیکج ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More