دنیا کی دوسری بلند وبالا کے ٹو پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے مشہور کوہ پیما اور پاکستان کا بیٹا محمد علی سدپارہ کی لاش آخر کار گذشتہ روز مل ہی گئی۔
5 ماہ سے محمد علی سدپارہ کی لاش لاپتہ تھی اور گمان یہ کیا جا رہا تھا کہ اب وہ پہاڑوں میں ہی دفن ہوچکے ہیں جس کے بعد ان کی لاش ملنا ناممکن ہے۔
محمد علی سدپارہ کے لاش ان کے ساتھی اور غیر ملکی کوہ پیماہ آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جوان پابلو موہر کی لاشیں بھی مل گئی ہیں جو ان کے ملک بھیج دی جائیں گی۔
محمد علی سدپارہ نے اپنی زندگی میں ہی اس خواہش کا اظہار کردیا تھا کہ وہ کے ٹو کی بلند ترین چوٹی سر کرلیں گے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے لیکن عین موقع پر ان کے حوالے سے ان کی موت کی اطلاعات نے سب کو افسردہ کر دیا تھا۔
گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات فتح اللہ خان نے نجی ٹی چینل سے گفتگو میں بتایا کہ صبح ایک لاش ملی جس کی شناخت غیر ملکی کوہ پیما جان اسنوری سے ہوئی، ان کی شناخت جو یلو اور سیاہ کپڑوں کے باعث ہوئی جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ مہم کے دوران اسی رنگ کا لباس پہن کر گئے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ محمد علی سدپارہ کی شناخت بھی ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسری لاش دوپہر 12 بجے ملی تھی تاہم تیسری لاش کس کی ہے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائی جا سکیں۔
وزیر اطلاعات گلگت بلتستان فتح اللہ نے مزید بتایا کہ کوہ پیماؤں کی لاشیں کے-ٹو کے ‘بوٹل نیک’ سے 400 میٹر کے فاصلے پر تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ تینوں لاشیں علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کی قیادت میں تلاش کرنے والی ٹیم نے برآمد کی ہیں، ان کی ٹیم میں کینیڈا کے فلم ساز ایلیا سیکیلے اور پاسنگ کاجی شیرپا بھی شامل تھے۔
واضح رہے علی سدپارہ ایک بہادر کوہ پیما تھے جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کیے بغیر قاتل پہاڑ سر کرنے کا ارادہ کیا تھا۔علی پاکستان کی چھوٹی بڑی تقریباً ہر چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کی وہ بھی بغیر آکسیجن کے جو کہ دنیا میں صرف 2٪ لوگوں نے کیا ہے، جن میں سب سے زیادہ چوٹیاں کرنے کا اعزاز بھی علی سدپارہ کے نام ہی ہے۔
علی کوہ پیمائی کے علاوہ کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے اور اپنے گھر کا خرچہ کھیتی باڑی کرکے بھی پورا کرتے تھے۔
خیال رہے کہ محمد علی سدپارہ رواں برس فروری میں دنیا کی دوسری بلند ترین اور پاکستان کی سب سے بلند ترین چوٹی کے-ٹو (٨ ہزار چھ سو گیارہ)میٹر بلند سر کرنے کی کوشش کے دوران محمد علی سدہ پارہ اور ان کے 2 ٖغیرملکی ساتھی جان اسنوری اور چلی کے جوآن پابلو موہر 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب کو بیس کیمپ تھری سے چوٹی تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کیا تھا۔
پھر یہ خبر سامنے آئی کہ 18 فروری کو تینوں کوہ پیماؤں کی لاشیں لاپتا ہوگئی ہیں بعد ازاں محمد علی سد پارہ، جان اسنوری اور جان پابلو کی موت کی تصدیق کی جا چکی تھی۔