انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کا سیاحوں پر حملہ، 24 ہلاک

اردو نیوز  |  Apr 22, 2025

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے سیاحوں پر حملے میں 24 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ارے اے ایف پی کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ یہ گذشتہ ایک برس کے دوران کا بدترین حملہ ہے۔

انٖڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کی اس ’مذموم اقدا،‘ کی مذمت کی۔

نریندر مودی نے عزم ظاہر کیا کہ حملہ آوروں کو ’انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘

پہلگام کشمیر کا مشہور سیاحتی مقام ہے۔

ایک ٹور گائیڈ  وحید نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ گولیاں چلنے کی آواز سن کر جائے وقوعہ پر پہنچا اور کئی زخمیوں کو گھوڑے پر ہسپتال منتقل کیا۔

’میں نے کچھ لوگوں کو زمین پر گرے ہوئے دیکھا جو مردہ لگ رہے تھے۔‘

یہ حملہ پہلگام میں سیاحوں پر کیا گیا، جو سڑک کے ذریعے سری نگر سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

علاقے کے ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ یہ قتل عام ہے جس میں کم از کم 24 افراد مارے گئے ہیں۔

تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم مسلم اکثریتی اس خطے میں خطے کی آزادی کے لیے عسکریت 1989 سے سرگرم ہیں۔

حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں کمی کے باعث کشمیر میں موسم گرما میں ہزاروں سیاح آتے ہیں۔

کشمیر کی وادی، جس پر انڈیا اور پاکستان دونوں دعویٰ کرتے ہیں لیکن اسے جزوی طور پر کنٹرول کرتے ہیں، سنہ 1989 میں شروع ہونے والی انڈین مخالف بغاوت کے بعد سے عسکریت پسندی کا شکار ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں تشدد میں کمی آئی ہے، لیکن ہزاروں افراد اس تنازع کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

گذشتہ برسوں میں کشمیر میں سیاحوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں کمی آئی ہے تاہم یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں زائرین پر آخری بڑا حملہ گذشتہ برس جون میں ہوا تھا، جس میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 33 زخمی ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب  عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ہندو یاتریوں کو لے جانے والی بس ایک گہری کھائی میں جا گری تھی۔

انڈیا نے سنہ 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور ریاست کو دو وفاقی علاقوں (یونین ٹیریٹریز) جموں و کشمیر اور لداخ، میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس اقدام سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More