دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک اور اختیارات کے لحاظ سے دنیا کے طاقتور ترین شخص کے درمیان لفظی گولہ باری نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبزول کرلی ہے۔
ہر شخص یہ سوچنےپر مجبور ہے کہ دو ہاتھیوں کی لڑائی کا انجام کیا ہوگا اور کیا اس میں چونٹیوں کے ساتھ ساتھ کسی ایک ہاتھی پر بھی کاری ضرب لگے گی۔
حکومتی استعداد کار میں اضافے کا محکمہ بد دلی کے ساتھ چھوڑنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ پر سنگین ترین الزام لگایا ہے۔
بغیر ثبوت پیش کیے ایلون مسک نے الزام لگایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام جنسی اسکینڈلز میں بدنام جیفری ایپسٹین کی فائل میں موجود ہے۔وہی جیفری ایپسٹین جو کمسنوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کئی واقعات میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔
جیفری ایپسٹین امریکا سمیت مختلف ممالک کی اہم ترین شخصیات کا دوست تھا اور ایک عرصہ تک اسکا برطانیہ کے شہزادہ اینڈریو سے تعلق بھی شہ سُرخیوں کی زینت بنا رہا تھا۔ وہ امیر اور طاقتور شخصیات کو اپنے گھر پارٹیوں میں مدعو کرتا تھا۔جہاں جنسی تعلق کیلئے کمسنوں سمیت شہرت اور دولت کی پجاری لڑکیاں جمع کی جاتی تھیں۔
سن 2019 میں جیفری ایپسٹین پراسرار طورپر جیل میں مردہ پایا گیا تھا تاہم اس کے کلائنٹس کے نام آج بھی صیغہ راز میں ہیں۔
ایلون مسک کا الزام ہے کہ ایپسٹین کی فائل میں ٹرمپ کا نام ہونےکی وجہ سے یہ دستاویز سامنے نہیں لائی جارہی ۔
ایلون مسک نے کہہ کہ لکھ کر رکھ لیں، حقیقت سامنے آکر رہے گی۔ساتھ ہی ٹیسلا کے مالک نے مطالبہ کیا ہے کہ صدر کا مواخذہ کرکے جے ڈی وینس کو امریکی صدر بنایا جانا چاہیے۔
ایلون مسک نے صدر ٹرمپ کو یہ کہہ کر بھی اشتعال دلایا کہ اگر دنیا کا امیر ترین شخص مدد نہ کرتا تو ٹرمپ سن 2024 کا الیکشن ہار جاتے۔ڈیموکریٹس ایوان میں اکثریت حاصل کرلیتے اور سینیٹ میں ری پبلکنز کو صرف ایک ووٹ سے برتری ملتی۔ ایلون مسک نے کہا کہ ٹرمپ نے نا شُکری کی انتہا کر دی۔
ایلون مسک نے انتخابی مہم کےدوران پنسلوینیا میں قاتلانہ حملے کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کی توثیق کی تھی اور ری پبلکنز کوانتخابی مہم چلانےکیلئے 290 ملین ڈالر عطیہ کیے تھے۔ وہ کئی موقعوں پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ریلیوں میں بھی شریک ہوئے تھے۔
ایلون مسک کا دعویٰ اپنی جگہ، صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ پنسلوینیا ہر صورت جیت لیتے، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ریاست کے گورنر جوش شپیرو کو کاملا ہیریس نے نائب صدارتی امیدوار نہیں چنا تھا۔ ٹرمپ کی اس بات کا ایلون مسک نے تمسخر اڑایا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایلون مسک کی ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ٹیسلا کے سربراہ جس شخص کو ناسا کا سربراہ دیکھنا چاہتے تھے وہ ڈیموکریٹ تھا اورانہوں نے اسی لیے جیرڈ آئزکمین کی نامزدگی مسترد کر دی تھی۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایلون مسک کا ای وی مینڈیٹ چھین لیا جس کی وجہ سے ہر شخص الیکٹرک کاریں خریدنے پر مجبور تھا۔اس اقدام پر ارب پتی ایلون مسک پاگل ہوگئے ہیں۔
ٹرمپ کی جانب سے ایلون مسک کو دھمکی
صدرٹرمپ نے ساتھ ہی دھمکی دی کہ وہ اسپیس ایکس اور ٹیسلا کے حکومت سے معاہدے بھی ختم کردیں گے کیونکہ بجٹ میں رقم بچانے کا آسان ترین طریقہ یہی ہےکہ سبسڈی اور کنٹریکٹ ختم کیے جائیں۔
ایلون مسک نے صدرٹرمپ کو چیلنج کیا ہے کہ اگر وہ یہ اقدام کرسکتے ہیں تو کرکے دکھائیں۔ساتھ ہی مسک نے ڈریگون اسپیس کرافٹ کو فوری معطل کرنے کی دھمکی دیدی۔ڈریگون ہی کی بدولت ناسا کے خلا باز عالمی خلائی اسٹیشن جاتے ہیں اور پہلے سے موجود خلا بازوں کو سپلائی مہیا کی جاتی ہے۔
ایلون مسک اور ٹرمپ کے اختلافات کب شروع ہوئے؟
ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کے تعلقات مئی کے آخری ہفتے تک اچھے خاصے تھے۔ اختلافات اخراجات میں کٹوتیوں سے متعلق ایلون مسک کی تجاویز پر عمل نہ ہونے سے پیدا ہوئے۔
عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو جس حکومتی استعداد کار بڑھانے سے متعلق نئے محکمہ ڈوج کا سربراہ بنایا تھا، اس نے ٹیکس اور اخراجات بل کی مخالفت کی تھی۔ مسک نےعوام سےمطالبہ کیا تھا کہ وہ اراکین کانگریس پر زور دیں کہ بل مسترد کردیا جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بل کو بڑا اور اچھا کہنے پر ایلون مسک نے کہا کہ تھا تہذیب کی تاریخ میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی قانون بڑا ہو اوراچھا بھی ہوا۔یا تو قانون بڑا اور بدنما ہوتا ہے یا مختصر اور اچھا۔اس لیے قانون کو مختصر اور اچھا ہونا چاہیے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہےکہ ایلون مسک مجوزہ قانون سے پوری طرح واقف تھے مگر اعتراض اسی وقت شروع کیا جب انتظامیہ کو خیر باد کہہ دیا۔ جس پر ایلون مسک نے ٹرمپ کی بات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے دعوی کیا تھاکہ بل انہیں کبھی دکھایا ہی نہیں گیا تھا۔
ایلون مسک کےبقول بل رات کے اندھیرے میں اتنی تیزی سے ایوان نے منظور کیا کہ کسی رکن نے پڑھا تک نہیں۔
دونوں کی لفظی گولہ باری کا باقاعدہ آغاز ہونے سے پہلے ایلون مسک نے ڈوج کی سربراہی سے 2 دن پہلے استعفی دے دیا تھا۔تاہم صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو وائٹ ہاؤس بلا کر انہیں وائٹ ہاؤس کی جمبو سائز چابی علامتی طورپر دی تھی اور کہا تھا کہ مسک کی بطور مشیرحیثیت برقرار رہے گی۔
اب ایک دوسرے کےخلاف زہر اگلنےکا موقع آیا ہے تو صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ خود انہوں نےایلون مسک کو حکم دیا تھا کہ وہ انتظامیہ سے علیحدہ ہوجائیں۔ جس پر ایلون مسک نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ بہت بڑا بم گرا دیا جائے۔
صدر ٹرمپ بظاہر یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ ایلون مسک ان کے خلاف بول رہے ہیں۔ امریکی صدر کے بقول جب لوگ انتطامیہ اور وائٹ ہاؤس کے خوبصورت دفتر کو چھوڑتے ہیں تو اگلی صبح انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ سارا گلیمر ختم ہوگیا، دنیا تبدیل ہوگئی جس پر وہ اشتعال انگیز رویہ اپنا لیتے ہیں۔
ممکن ہے ایسا ہو اور شاید یہی ذہن میں ہو کہ ایلون مسک نے ایکس پر سروے کرایا ہےجس میں پوچھا گیا ہے کہ آیا امریکا میں ایک نئی سیاسی جماعت بنائی جانی چاہیے جو اسی فیصد مڈل کلاس کی نمائندگی کرتی ہو؟ یعنی دائیں بازو کی ری پبلکنز اور بائیں بازو کی طرف جھکاو رکھنےوالی ڈیموکریٹس کے مقابلے میں تیسری جماعت بنائی جائے۔
ایلون مسک چونکہ خود کو اکثر سینٹریسٹ قرار دیتے رہے ہیں۔اس لیے یہ غیرمعمولی نہیں ہوگا کہ ماضی کے پلے بوائے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ارب پتی بزنس مین ایلون مسک بھی سیاست میں طبع آزمائی کریں اور خود کو صدارتی الیکشن کیلئے امیدوار کے طورپر پیش کریں۔
آخر ایلون مسک نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس صرف ساڑھے 3 سال باقی ہیں جبکہ ان کے پاس 40 سال سے بھی زیادہ موجود ہیں۔