کیا آپ جانتے ہیں کہ سرجیکل ماسک اور ریسپائریٹر ماسک کس کام آتے ہیں؟

ہماری ویب  |  Jun 16, 2020

کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی خطرناک صورتحال کے پیشِ نظر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا نہایت ضروری ہوگیا ہے۔ کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کی مانگ میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے فیس ماسک کی مختلف اقسام استعمال کی جا رہی ہیں۔

1۔ سرجیکل ماسک

کررونا وائرس سے بچاؤ کے لئے سرجیکل ماسک کا استعمال زیادہ کیا جارہا ہے یہ عام طور پر کپڑے یا کاغذ کی تین تہوں سے بنایا جاتا ہے ۔

برطانیہ کی ایک یونیورسٹی کے مطابق سرجیکل ماسک کھانسی یا چھینک کی رطوبت میں موجود وائرس سے بچاؤ اور ہاتھ سے منہ تک اس کی منتقلی کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ لیکن عام استعمال کے لئے سرجیکل ماسک فضا میں موجود وائرس یا بیکٹیریا سے بچاؤ کے لئے بہت مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔ ان کی ناکامی کی وجہ ان کا ڈھیلا پن اور ہوا کی صفائی کے فلٹر کی عدم موجودگی ہے۔

2۔ ریسپائریٹر

ماسک کی دوسری قسم ریسپائریٹر ہے۔ یہ چہرے پر مضبوطی سے ٹھہر جاتے ہیں تاکہ ہوا کا اخراج نہ ہوسکے۔ دراصل ماسک پہن کر جب ہم سانس اندر کھینچتے ہیں تو ہوا ریسپائریٹر کے فلٹر میں سے ہوکر گزرتی ہے، جو ان ذرات کی تعداد گھٹا دیتے ہیں جو ہم اندر کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئےانھیں پہننے کا طریقہ بھی نسبتاً دقت طلب ہوتا ہے۔

ان ماسکس میں چند استعمال شدہ ماسک پھینکنے کے لئے ہوتے ہیں جبکہ کچھ کو جراثیم سے پاک کر کے دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

3۔ پاورڈ ایئر پیوریفائنگ ریسپائریٹر

پاورڈ ایئر پیوریفائنگ ریسپائریٹر (پی اے پی آر) ماسک جو ہیلمٹ جیسے نظر آتے ہیں۔ یہ این 100 یا ایف ایف پی 3 کی ہی طرح مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے ریسپائریٹر بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے مطابق یہ وائرس سے تحفظ کے لئے ایک اچھا حل ہے۔ اس میں چہرے پر ایک شیلڈ ہوتی ہے اور ایک نالی جو بیلٹ میں موجود ایک آلے سے منسلک ہوتی ہے۔ اس آلے میں ایک موٹر نصب ہوتی ہے جو ہوا کو پمپ کر کے فلٹر سے گزارتی ہے۔ یہ ایک سفید سوٹ کا حصہ ہوتا ہےچنانچہ یہ نہایت جامع تحفظ فراہم کرتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More