کورونا وائرس اب ایک ایسا لفظ بن چکا ہے جس سے ہر شخص واقف ہے، اسی طرح ہر فرد قرنطینہ سے بھی خوب واقف ہے، لیکن قرنطینہ کا لفظ اور مطلب چاہے ہمیں پتہ اب لگے ہوں لیکن ہمیں قرنطینہ میں رہتے ہوئے تو ساری زندگی ہو چکی ہے۔
کورونا وائرس سے قبل بھی ہم خود کی قید یعنی خود کے بنائے ہوئے قرنطینہ میں تھے۔ گھر میں موجود ہوتے ہوئے موبائل فون کے ذریعے قرنطینہ کا شکار، اگر باہر کہیں دوستوں وغیرہ کے ساتھ ہیں تو موبائل کا استعمال (تصاویر لینا، سوشل میڈیا پر اسٹیٹس ڈالنا ) کرتے ہوئے خود کو قرنطینہ میں ڈال کر آس پاس کے ماحول سے بے خبر ہونا۔ اسی طرح وہ اپنے رویوں میں بھی قرنطینہ اختیار کرلیتا ہے۔ گھر میں اس کی لاتعلقی اور بیگانگی تک، یہ سب سماجی قرنطینہ ہی کی صورتیں ہیں۔
تاہم اگر آج کی صورتحال پر نظرثانی کریں تو جب کسی مریض کو قیدِ تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ خود کو بھیڑ میں بہتر پاتا ہے، حالانکہ اسے معلوم ہے کہ وہ دیگر لوگوں کو اس مرض میں مبتلا کرسکتا ہے، مگر نارمل حالات میں وہ خود کو تنہا کرنے میں دیر نہیں کرتا۔
اس کے علاوہ بھی آج کی جنریشن سوشل میڈیا حد سے زیادہ استعمال کرتی ہے، بے شک مصروفیات پہلے کے لوگوں سے زیادہ ہیں لیکن ٹائم مینیجمنٹ بالکل نہیں ہے۔
سونے کا کوئی ٹائم مقرر نہیں ہے، راتوں کو دیر تک جاگنا، صبح دیر سے بیدار ہونا۔
یہ وہ عادتیں ہیں جنہیں ہم قرنطینہ میں رہ کر چھوڑ سکتے ہیں تاکہ جب یہ دور ختم ہو تب آپ کو اپنے وقت کی درست طور پر قدر ہو۔