مسجد میں مردوں کے مجمع سے خاتون کا خطاب، پشتون معاشرے میں روایت شکن عمل زیرِبحث

اردو نیوز  |  Oct 11, 2025

بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقے کی ایک مسجد کے صحن میں مردوں کے درمیان کھڑی ایک خاتون کی تقریر کرتے ہوئے تصویر ان دنوں سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

روایتی لباس میں ملبوس یہ خاتون پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی نوجوان رہنما اور صوبائی نائب صدر وڑانگہ لونی ہیں جن کی مسجد میں موجودگی اور سیاسی خطاب نے بلوچستان خاص طور پر پشتون معاشرے میں خواتین کے محدود عوامی کردار کے پس منظر میں بحث چھیڑ دی ہے۔

یہ تصویر لورالائی کے نواحی علاقے کلی باور کنوبی کی ایک مسجد کی ہے جہاں وڑانگہ لونی بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں کے درمیان واحد خاتون کے طور پر اپنی پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل سابق صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال کی موجودگی میں خطاب کر رہی ہیں جبکہ مردوں کا مجمع انہیں غور سے سنتا دکھائی دیتا ہے۔

وڑانگہ لونی کے مطابق یہ تصویر چند روز پرانی ہے جب وہ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ سات اکتوبر کو لورالائی میں ہونے والے جلسے کے لیے عوامی رابطہ مہم چلا رہی تھیں۔ ان کے بقول ’یہ میرا لوگوں کے سامنے ایک عام خطاب تھا لیکن اس مقام کی نوعیت نے شاید اسے زیادہ اہم بنا دیا۔‘

اردو نیو زسے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’ہماری پارٹی کے علاقائی رہنماؤں نے یہ نشست مسجد میں رکھی کیونکہ دیہی علاقوں میں مسجد نہ صرف عبادت بلکہ ایک سماجی مرکز بھی ہوتی ہے۔ یہاں لوگ پانچ وقت نماز پڑھنے کے علاوہ شام کو بیٹھتے ہیں، ایک دوسرے کی خیریت پوچھتے ہیں، مہمانوں کو بھی وہی ٹھہراتے ہیں جن کے لیے محلے کے لوگ اپنے اپنے گھروں سے کھانا لاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مسجد اللہ کا گھر ہے اور ہم سب کا مشترکہ مرکز۔ اسلام انسانیت، امن اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے۔ ہم اسی امن، اتحاد اور اپنے خطے میں جاری خونریزی کے خاتمے کا پیغام دینے گئے تھے۔‘

سینیئر صحافی سلیم شاہد کے مطابق قوم پرست جماعتوں کے لیے مساجد میں سرگرمیاں آسان نہیں۔ فائل فوٹو: فیس بک

وڑانگہ لونی کے مطابق ’پشتون معاشرہ اتنا قدامت پسند یا تنگ نظر نہیں تھا۔ فوجی آمر ضیاء الحق کے دور میں خواتین کا سیاست اور معاشرے میں کردار محدود کیا گیا اب تبدیلی کی بات کرنا چیلنج ہے اور اس میں بہت ساری مشکلات ہیں مگر ہم اپنے لوگوں کی حمایت سے ان مشکلات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔‘

وڑانگہ لونی سمجھتی ہیں کہ ’پشتون معاشرے کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ سیاست میں خواتین کو نظر انداز کرنا ہے اس لیے خواتین کا ہر شعبے خاص کر سیاست میں شمولیت اور کردار بڑھانا ہوگا۔‘

یہ تصویر منظرعام پر آتے ہی سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔ کئی صارفین نے وڑانگہ لونی کے اس اقدام کو ’تبدیلی‘ قرار دیا اور خواتین کی سیاسی شرکت کی علامت کے طور پر سراہا۔ تاہم کچھ حلقوں نے مسجد کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور خاتون کے مردوں سے خطاب کرنے پر تنقید بھی کی اور اسے پشتون و سماجی روایات کے منافی قرار دیا۔

ژوب سے تعلق رکھنے والے رفیع اللہ مندوخیل نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ ’وڑانگہ لونی اس مردانہ غلبے والے سماج سے تعلق رکھتی ہیں جو عورتوں کو عام طور پر اُن مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی جہاں مرد جمع ہوں، مسجد تو بہت دور کی بات ہے۔ موجودہ شورش اور تشدد کے ماحول میں ان کا یہ اقدام غیر معمولی اور جرات مندانہ ہے۔‘

کوئٹہ کے سینیئر صحافی سلیم شاہد کے مطابق مذہبی جماعتیں مساجد کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں لیکن قوم پرست جماعتیں کے مردوں کے لیے کبھی مسجد میں سیاسی سرگرمی کرنا آسان نہیں۔ ’اسی طرح بلوچستان کے قبائلی خصوصاً پشتون معاشرے میں خواتین کا گھروں سے نکلنا، پیشہ ورانہ یا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا خود ایک چیلنج ہے۔ ایسے میں ایک خاتون کا مسجد میں مردوں کے سامنے خطاب کرنا غیر معمولی اور منفرد بات ہے۔ میں نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘

اپنے بھائی ارمان لونی کی موت کے بعد وڑانگہ لونی نے سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ فائل فوٹو: سکرین گریب

وڑانگہ لونی پشتون ادیب، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سابق رہنما ابراہیم ارمان لونی کی بہن ہیں جو فروری 2019 میں لورالائی میں ایک احتجاج کے دوران پراسرار طور پر ہلاک ہوئے تھے۔ پی ٹی ایم نے ان کی موت کے لیے پولیس کو ذمہ دار قرار دیا تھا تاہم پولیس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے موت کو طبعی قرار دیا تھا۔

اگرچہ وڑانگہ لونی پہلے بھی بھائی کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں لیکن بھائی کی موت کے بعد وہ زیادہ نمایاں ہوئیں۔ وہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے فعال رہیں، جلسوں اور احتجاج میں نہ صرف حصہ لیتی رہی بلکہ ان اجتماعات سے خطاب بھی کرتی رہی ہیں۔

پشتون خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار خدائے نور ناصر کے مطابق وڑانگہ لونی پشتون معاشرے میں ایک منفرد مثال ہیں جنہوں نے کئی سماجی پابندیوں اور روایتی تصورات کو توڑا ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کی تاریخ میں شاید ہی کوئی پشتون خاتون نظر آئے جس نے اپنے بھائی کی موت پر قبرستان میں کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کیا ہو۔

انہوں نے کہا کہ ارمان لونی کی موت کے بعد وڑانگہ نے نہ صرف بلوچستان بلکہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بھی جا کر مساجد اور حجروں میں مردوں کے اجتماعات میں شرکت کی۔ وہ باقی خواتین کی طرح صرف خواتین تک محدود نہیں رہتیں بلکہ مردوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی گفتگو کرتی ہیں۔

خدائے نور ناصر کے بقول اس کا سہرا ان کے بھائی ارمان لونی کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی بہن کو سیاست میں آگے بڑھایا۔ پی ٹی ایم کے جلسوں میں وہ خود زمین پر بیٹھتے اور وڑانگہ سٹیج پر خطاب کرتی تھیں۔ ارمان کی ناگہانی موت کے بعد عوامی ہمدردی نے وڑانگہ کو قبولیت دی ورنہ قدامت پسند ماحول میں یہ اتنا آسان نہ ہوتا۔

وڑانگہ لونی نے ماضی میں پی ٹی ایم کے جلسوں سے بھی خطاب کیا۔ فائل فوٹو: فیس بک

وڑانگہ لونی کا تعلق بلوچستان کے ضلع زیارت کی تحصیل سنجاوی سے ہے جو لورالائی سے متصل علاقہ ہے۔ ’وَڑانگہ‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی روشنی، اُجالے یا کرن کے ہیں جبکہ لونی ان کے قبیلے کا نام ہے۔

بھائی اور بہن کی روایات شکنی اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے خاندان کو اپنے آبائی علاقہ سے نقل مکانی بھی کرنا پڑی۔ وڑانگہ لونی بتاتی ہیں کہ ’آبائی علاقے سنجاوی میں جب تعلیم حاصل کر رہی تھی تو لڑکیوں کا سکول نہ ہونے کے باعث میں لڑکوں کے سکول میں پڑھنے جاتی تھی۔ اس کی علاقے کے بعض لوگوں نے بہت مخالفت کی تو ہمیں کوئٹہ آنا پڑا۔‘

ان کے بقول پھر ’جب ہم نے سیاسی سرگرمیاں شروع کیں تو حالات اور مشکل بنا دیے گئے، جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں اس کے بعد ہمیں جان بچانے کے لیے نقل مکانی اور مختلف شہروں میں روپوشی اختیار کرنی پڑی۔‘

رواں سال جون میں وڑانگہ لونی کو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی صوبائی نائب صدر منتخب کیا گیا۔ یہ تقرری اس لحاظ سے اہم ہے کہ پارٹی کی پانچ دہائیوں پر مشتمل تاریخ میں پہلی بار خواتین کو باقاعدہ پارٹی عہدے دیے گئے۔ گزشتہ برس پارٹی آئین میں ترامیم کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ خواتین کارکنوں کو تنظیمی ڈھانچے میں نمائندگی دی جائے گی۔

کیمبرج یونیورسٹی سے وابستہ سکالر اور تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے پشتون معاشرے میں پدرشاہی نظام گہری جڑیں رکھتا ہے جس کا عکس یہاں کی سیاسی جماعتوں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ تاریخی طور پر اس خطے میں سیاسی جماعتوں میں خواتین کی شمولیت اور شراکت داری نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔

وڑانگہ لونی مقامی خواتین سے بھی سیاسی رابطوں میں رہتی ہیں۔ فائل فوٹو: فیس بک

وہ کہتے ہیں کہ ماضی قریب میں دو سیاسی تحریکوں نے اس رجحان کو کسی حد تک بدلنے کی کوشش کی۔ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) میں نوجوانوں کے ساتھ خواتین کی نمایاں شرکت اور بلوچ علاقوں میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں ابھرنے والی تحریک نے خواتین کے سیاسی کردار کو نئی جہت دی ہے۔

رفیع اللہ کاکڑ کے مطابق ان تحریکوں کے اثرات کے باعث اب سیاسی جماعتیں دباؤ میں ہیں کہ خواتین کو حقیقی نمائندگی دی جائے۔ ’کچھ حالات نے بھی سیاسی جماعتوں کو سبق سکھا دیا ہے کہ خواتین کی شمولیت کی کیا اہمیت ہے۔ اب امید کی جانی چاہیے کہ اگلے مرحلے میں یہ جماعتیں حقیقی فیصلہ سازی کے عمل میں بھی خواتین کو شریک کریں گی۔‘

ان کے بقول اس پس منظر میں وڑانگہ لونی جیسی سیاسی کارکنوں کا ابھرنا ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ ’اگر خواتین اس طرح عوامی سطح پر سیاسی عمل میں سرگرم رہیں یہ تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More