یہ آج سے 33 برس قبل کی بات ہے۔
نیپالی فٹ بال ٹیم کے سابق کپتان روپک راج شرما بطور ریفری 27 ستمبر 1992 کی شام ریلوے سٹیڈیم لاہور میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ یہ میچ ایشین کلب چیمپئن شپ کے سلسلے میں پاکستان اور مالدیپ کی دو کلب ٹیموں کے درمیان کھیلا جا رہا تھا۔
روپک راج شرما کی وفات کے بعد بننے والی روپک میموریل فاؤنڈیشن کے مطابق روپک شرما کئی روز سے پاکستان میں موجود تھے اور اگلے دن وطن واپسی کے لیے بے چین تھے۔ روپک کمار شرما کے ساتھ دیگر تین نیپالی اسسٹنٹ میچ ریفریز بھی تھے جنھیں اگلے روز واپس جانا تھا۔
اگلےروز 28 ستمبر 1992 کو روپک شرما نے لاہور سے کراچی کی فلائٹ لی جس کے بعد وہ کراچی سے کھٹمنڈو جانے والی پرواز پی کے 268 پر سوار ہوئے جو اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی کھٹمنڈو کے تری بھون انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کچھ دُور دشوار گزار پہاڑی سلسلے سے جا ٹکرائی۔
اس حادثے میں عملے کے 12 ارکان سمیت 167 مسافر جان کی بازی ہار گئے جن میں برطانوی، امریکی، نیپالی اور دیگر ممالک کے شہری بھی شامل تھے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو پیش آنے والے اس حادثے کو نہ صرف پی آئی اے بلکہ نیپال کی ایوی ایشن تاریخ کا بدترین حادثہ قرار دیا گیا۔ اس سے قبل پی آئی اے کا کراچی سے لندن جانے والا طیارہ قاہرہ ایئرپورٹ کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں 128 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے۔
28 ستمبر کو کیا ہوا تھا؟
نیشنل جیو گرافک نے اس طیارہ حادثے پر’کھٹمنڈو ڈیسنٹ پی آئی اے 268‘ کے نام سے ڈاکو مینٹری بنائی ہے۔
ڈاکو مینٹری کے مطابق 28ستمبر 1992 کی صبح کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر معمول کا فلائٹ آپریشن جاری تھا۔ کراچی سے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو جانے کے لیے پی آئی اے کی پرواز پی کے 268 کے لیے بھی بورڈنگ کا عمل جاری تھا۔
کراچی کا موسمفلائٹ آپریشن کے لیے موزوں تھا اور 49 سالہ کیپٹن افتحار جنجوعہ اور 38 سالہ فرسٹ آفیسر حسن اختر اُڑانبھرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
ڈاکو مینٹری کے مطابق کیپٹن افتحار جنجوعہ کا 13192 گھنٹے جبکہ فرسٹ آفیسر حسن اختر 5849 گھنٹےفلائنگ آورز کا تجربہ رکھتے تھے۔
’ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک‘ کے مطابق ایئر بس اے 300 طیارہ اُس وقت 16 سال پرانا تھا اور مجموعی طور پر 39 ہزار سے زائد گھنٹےپرواز کر چکا تھا۔ یہ طیارہ کویت اور مصر ایئر ویز کے زیر استعمال بھی رہ چکا تھا۔
فلائیٹ 163: کراچی سے جدہ جانے والا بدقسمت طیارہ جس کی لینڈنگ کے باوجود کوئی زندہ نہ بچ سکاپی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘’میں نے تو کلمہ پڑھ لیا تھا‘: ایک چھوٹا سا پرندہ ہوائی جہاز کو کیسے تباہ کر سکتا ہے؟وہ جنھیں موت کھینچ کر حادثے والے طیارے میں لے گئی
طیارے نے صبح 11 بج کر 13 منٹ پر کراچی اِیئرپورٹ سے اُڑان بھری، تقریباً تین گھنٹے کی اس فلائٹ کے دوران سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ پاکستان سے انڈین فضائی حدود کا سفر بھی پرسکون تھا۔ لیکن لینڈنگ سے کچھ دیر قبل یہ بدقسمت طیارہ کھٹمنڈو کے تری بھون انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ہمالیہ کی پہاڑی سے جا ٹکرایا۔ حادثے میں کوئی مسافر بھی زندہ نہ بچ سکا۔
دُشوار گزار پہاڑی سلسلے اور خراب موسم کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں کے دوران بھی شدید مشکلات درپیش رہیں۔
کھٹمنڈو کی مشکل اپروچ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کی پریشانی
نیپالی حکومت اور پی آئی اے کی جانب سے اس حادثے کی رپورٹ ابھی تک منظرِ عام پر نہیں لائی گئی۔ تاہم حادثے میں جان کی بازی ہارنے والوں کے لواحقین کو اس کی نقول فراہم کی گئیں جس کے مطابق یہ حادثہ پائلٹس کی غلطی اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کی کوتاہ نظری کی وجہ سے پیش آیا۔
کھٹمنڈو کا تری بھون انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہمالیہ کی پہاڑیوں کے اندر گھرا ہوا ہے اور اسے لینڈنگ کے لیے دنیا کے مشکل ترین ایئر پورٹس میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں موسم کے تیور بدلنے میں بھی دیر نہیں لگتی اور گہرے بادل کسی بھی وقت پائلتس کے لیے حدنگاہ کم کر سکتے ہیں۔
فضائی حادثات کی معللومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ ’بیورو آف ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹس آرکائیوز‘ کے مطابق کیپٹن افتحار جنجوعہ کو بھی اس نوعیت کے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
کھٹمنڈو ایئرپورٹ سے کچھ دُور گہرے بادلوں اور متوقع طوفان کے پیش نظر کیپٹن افتحار جنجوعہ نے ایئر ٹریفک کنٹرول سے اپروچ تبدیل کرنے کی درخواست کی۔
رپورٹ کے مطابق پائلٹ نے ہچکولوں کے پیش نظر مسافروں کو حفاظتی بند باندھنے کی ہدایت کی۔ یہ نیپال میں مون سون سیزن کا اختتام تھا، لیکن اس کے باوجود گرج چمک کے ساتھ بارشوں اور طوفان کی وجہ سے فلائٹ آپریشن میں ردوبدل معمول کی بات تھی۔
سنہ 1992 میں کھٹمنڈو ایئرپورٹ میں طیاروں کا ٹریک رکھنے کے لیے ریڈار کی سہولت موجود نہیں تھی اور پائلٹس خود اپنی بلندی اور پوزیشن سے متعلق ایئر ٹریفک کنٹرولر کو آگاہ کرتے تھے۔
رپورٹ کے مطابق کھٹمنڈو ایئرپورٹ کی اپروچ سیڑھی کی طرح ہے جس میں ایک طرح سے ہر سیڑھی اُترتے ہوئے پائلٹ اپنی بلندی سےمتعلق ایئر ٹریفک کنٹرولر کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے لیے پائلٹس کے پاس ایک اپروچ چارٹ ہوتا ہے جسے دیکھ کر وہ لینڈنگ کرتے ہیں۔
طیارہ جب ایئرپورٹ سے 16 ڈی ایم ای (ڈسٹنس میزرنگ ایکوئپمنٹ) کی دُوری پر تھا تو پائلٹ نے بتایا کہ وہ 11 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر ہیں۔ رن وے سے 10 ڈی ایم ای کی دُوری پر پائلٹ کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ 8200 فٹ کی بلندی پر ہیں۔
ڈی ایم ای ایک ایسا سسٹم ہے جو بتاتا ہے کہ جہاز رن وے سے کتنی دُوری پر ہے۔
ایئر ٹریفک کنٹرولر نے پائلٹ کو بتایا کہ وہ رن وے سے چارڈی ایم ای کی دُوری پر ایئر ٹریفک کنٹرولر کو اپنی بلندی سے متعلق آگاہ کریں۔
لیکن تین منٹ گزر جانے کے باوجود پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے کوئی رابطہ نہیں کیا جس پر ایئر ٹریفک کنٹرول کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ اس وقت تک پی کے 268 کی جانب سے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے رابطہ ہو جانا چاہیے تھا۔
ایئر ٹریفک کنٹرول بار بار یہ الفاظ دہرا رہے تھے۔۔۔ پاکستان 268 ٹاور۔۔۔ ۔پاکستان 268 ٹاور۔۔ لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ کیونکہ پی کے 268 ایئرپورٹ سے نو کلومیٹر جنوب میں ہمالیہ کی پہاڑی سے ٹکرا کر تباہ ہو چکی تھی۔
جہاز میں اُس وقت 20 ٹن تیل موجود تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے جہاز کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔
اس حادثے نے نیپال کو ہلا کر رکھ دیا، کیونکہ دو ماہ کے دوران پیش آنے والا یہ دوسرا بڑا فضائی حادثہ تھا۔ 31 جولائی کو تھائی ایئر ویز کی پرواز بھی اسی اپروچ کے دوران حادثے کا شکار ہو گئی تھی جس میں 113 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے۔
’جہاز کی دم کے علاوہ کچھ سلامت نہیں تھا‘
نینشنل جیو گرافک کی ڈاکو مینٹری کے مطابق کینیڈین ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کے ڈیوڈ میک نائر تھائی ایئر لائن حادثے کی تحقیقات کے لیے پہلے سے ہی نیپال میں موجود تھے۔
ڈاکیومینٹری میں گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دو ماہ کے دوران لینڈنگ سے قبل ایسے دو بڑے حادثات ہم سب کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھے۔
سطح سمندر سے سات ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑی سلسلے میں ہونے والے اس حادثے کی جگہ پر پہنچنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔
میک نائر کے ہمراہ ایک برطانوی تفتیش کار کو بھی تحقیقات کا حصہ بنایا گیا اور ان دونوں کو جائے حادثہ تک پہنچانے کے لیےنیپالی فوج کی خدمات حاصل کی گئیں۔
ڈیوڈ میک نائر بتاتے ہیں کہ جب وہ حادثے کی جگہ پر پہنچے تو سوائے جہاز کی دم کے کوئی بھی چیز سلامت نہیں بچی تھی۔ مسافروں کی مسخ شدہ لاشیں اور اُن کا سامان پورے علاقے میں بکھرا ہوا تھا۔
اُن کے بقول جائے حادثہ سے ملنے والے بلیک باکس کو ڈی کوڈنگ کے لیے فرانس بھجوایا گیا جبکہ دیگر شواہد کو جمع کر کے تحقیقات کو آگے بڑھایا گیا۔
دہشت گردی کا امکان نظرانداز
نینشنل جیو گرافک کی ڈاکو مینٹری کے مطابق جائے حادثہ سے ملنے والے شواہد کی بنا پر طیارے میں کسی تکنیکی غلطی کے امکان کو رد کیا گیا اور ایک موقع پر تمام تر توجہ کسی ممکنہ دہشت گردی یا ہائی جیکنگ کی طرف مبذول کی گئی۔
تحقیقات کاروں نے اس شبے کا اظہار کیا کہ ہو سکتا ہے کہ طیارے کو ہائی جیک کر لیا گیا ہو اور اس دوران پائلٹس اور ہائی جیکرز کے درمیان ممکنہ دھکم پیل کے دوران طیارہ پہاڑی سے جا ٹکرایا گیا ہو۔
اس حادثے سے تقریباً 11 برس قبل تین مارچ 1981 کو پی آئی اے کی پشاور سے کراچی جانے والی پرواز پی کے 326 کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا۔
اس ہائی جیکنگ کا الزام ’الذوالفقار‘ نامی تنظیم پر لگا تھا جس نے جنرل ضیا الحق کی حکومت سے کچھ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ پہلے جہاز کو کابل لیجایا گیا اور اس کے بعد شام کے دارالحکومت دمشق میں 14 مارچ کو اس ہائی جیکنگ کا ڈراپ سین ہوا۔
پاکستان کی حکومت نے ہائی جیکرز کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے جیلوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ رہنماؤں کو رہا کر دیا تھا۔
پی آئی اے نے اس ہائی جیکنگ کے بعد اپنے کچھ ہائی رسک روٹس پر اِیئر گارڈز تعینات کرنا شروع کر دیے تھے۔ تحقیقات کے دوران سامنے آیا کہ اس پرواز میں بھی پی آئی اے کے چار ایئر گارڈز موجود تھے۔
لیکن انوسٹی گیٹرز نے یہ تعین کیا کہ حادثے سے تقریباً 32 سیکنڈ پہلے فرسٹ آفیسر اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کے درمیان ہونے والی گفتگو بالکل نارمل تھی۔ لہذا کسی بیرونی مداخلت کا امکان کم تھا جس کے بعد دہشت گردی کے امکان کو نظرانداز کر دیا گیا۔
’پائلٹس ایک ہزار فٹنیچےپرواز کر رہے تھے‘
’بیورو آف ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹس آرکائیوز‘ کے مطابقپائلٹ کھٹمنڈو اِیئرپورٹ پر لینڈنگ کے لیے دیے گئے چارٹ کو درست طریقے سے نہیں دیکھ سکے۔
رپورٹ کے مطابق پائلٹس کی جانب سے اپروچ چارٹ پڑھنے میں غلطی اور دیگر کئی عوامل نے اس حادثے کی بنیاد رکھی جس پائلٹس کی تربیت، ایئر پورٹ کی مشکل اپروچ جیسے عوامل شامل تھے۔
حادثے کے وقت دھماکے کے مقام کو بادلوںنے گھیر رکھا تھا، جس کی وجہ سے پائلٹس کے لیے حدنگاہ بہت کم تھی۔ طیارے نے درست طریقے سے فائنل اپروچ شروع کی، لیکن بعدازاں بلندی سے متعلق غلط تخمینہ حادثے کی وجہ بنی۔ رن وے سے 16 ڈی ایم ای کی دُوری پر فرسٹ آفیسر نے ایئر تریفک کنٹرولر کو بتایا کہ وہ 11500 فٹ کی بلندی پر ہیں، حالانکہ وہ ایک ہزار فٹ کم یعنی 10500 فٹ پر پرواز کر رہے تھے۔پی آئی اے کے پائلٹس تواتر کے ساتھ کھٹمنڈو نہیں جاتے تھے اور ان پائلٹس نے بھی دو ماہ کے دوران کھٹمنڈو کا سفر نہیں کیا تھا۔
ایوی ایشن ایکسپرٹ اینڈریو رابنسن نے نیشنل جیوگرافک کو بتایا کہ کاک پٹ میں یہ چارٹ ایک چار انچ کے صفحے پر دیا گیا تھا اور کاک پٹ میں یہ پائلٹس سے کچھ فٹ کے فاصلے پر موجود تھا۔
اُن کے بقول لگتا یہی ہے کہپائلٹس کو دُوری کی وجہ سے یہ چارٹ پڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو اور اُنھیں جس بلندی پر ہونا چاہیے تھا، چارٹ کو غلط پڑھنے کی وجہ سے وہ درست بلندی پر نہیں تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پائلٹ جب اپروچ چارٹ دیکھ رہے ہوں تو اُن کا انگوٹھا 11500 فٹ بلندی والے گراف کے اُوپر ہو۔
اُن کے بقول رن وے سے 16 ڈی ایم ای کی دُوری پر اُنھیں 11500 فٹ پر پرواز کرنا تھی، لیکنوہ 10500 فٹ پر پرواز کر رہے تھے اور یہی ایک ہزار فٹ کا فرق حادثے کی وجہ بنا۔
برطانوی پارلیمنٹ میں گونج
اس حادثے میں 35 برطانوی شہریوں کی بھی جان گئی تھی اور اس واقعے کی رپورٹ عام نہ کرنے پر نیپالی حکومت اور ایئر لائن کو تنقید کو نشانہ بھی بنایا گیا۔
یہ معاملہ برطانوی رُکن پارلیمنٹ نائجل واٹرسن نے مئی 1995 میں برطانوی پارلیمنٹ میں اُٹھایا۔
اُنھوں نے کہا کہ رپورٹ عام نہ ہونے سے حادثے میں جان کی بازی ہارنے والوں کے لواحقین کو اپنے قانونی حقوق حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اُن کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت کی جانب سے نیپالی حکومت پر زور دینے کے بعد صرف اس رپورٹ کی نقل لواحقین کو فراہم کی گئی جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس میں پی آئی اے کے پائلٹس کو ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جب وہ غلط اپروچ رپورٹ کر رہے تھے تو ایئر ٹریفک کنٹرولر کو اس کی تصیح کرنی چاہیے تھے۔
نائجل واٹرسن کا کہنا تھا کہ اس حادثے میں درجنوں برطانوی شہری مارے گئے، لہذِا برطانوی حکومت کو چاہیے کہ عالمی سطح پر ایوی ایشن انڈسٹری میں پائی جانے والی خامیوں کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے پائلٹس اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کے درمیان ہم آہنگی مضبوط ہونی چاہیے۔
اس حادثے کی رپورٹ عام نہ کرنے سے متعلق بی بی سی نے پی آئی اے کے ترجمان سے رابطہ کیا، لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک اُن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
لواحقین کی نیپال آمد اور پی آئی اےمیموریلپارک
پی آئی اے نے حادثے میں جان کی بازی ہارنے والے برطانوی شہریوں کے لواحقین کو خصوصی پرواز کے ذریعے کھٹمنڈو لانے کا انتظام کیا۔
برطانوی اخبار ’دی انڈپینڈنٹ‘ کے مطابق یہ افراد اسی رن وے اپروچ سے کھٹمنڈو ایئر پورٹ پہنچے، تاہم برطانوی حکام نے اہلخانہ کو باڈیز کی شناخت سے منع کیا کیونکہ زیادہ تر لاشیں مسخ ہو چکی تھیں۔
حادثے کے مقام سے کچھ فاصلے پر پی آئی اے کے خرچے پر ایک یادگار بھی بنائی گئی جسے پی آئی اے میموریل پارک للی کا نام دیا گیا۔
اپنے قدرتی ماحول ہمالیہ کی پہاڑی کے دامن میں واقع یہ پارک کھٹمنڈو آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ سنہ 2012 تک پی آئی اے اس کی تزئین و آرائش کا خرچ برداشت کرتا رہا جس کے بعد اس کا انتظام ایک مقامی فاؤنذیشن نے سنبھال لیا۔
اس حادثے کے بعد ماہرین نے کھٹمنڈو ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے لیے پائلٹس کی مزید تربیت پر زور دیا جبکہ اس کے بعد اس ایئرپورٹ پر ریڈار سسٹم بھی نصب کیا گیا۔
’دماغ ہلا دینے والا حادثہ‘ جب دلی کی فضا میں دو طیارے آپس میں ٹکرا گئے’میں نے تو کلمہ پڑھ لیا تھا‘: ایک چھوٹا سا پرندہ ہوائی جہاز کو کیسے تباہ کر سکتا ہے؟پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘فلائیٹ 163: کراچی سے جدہ جانے والا بدقسمت طیارہ جس کی لینڈنگ کے باوجود کوئی زندہ نہ بچ سکانیپال طیارہ حادثہ: کاک پٹ کنٹینر میں پھنسا رہ گیا اور پائلٹ کی جان بچ گئی