یمنی بندرگاہ پر ’اسرائیلی ڈرون حملے‘ کا نشانہ بننے والے ٹینکر کا پاکستانی عملہ: ’ہمیں گن پوائنٹ پر آگ بھجانے کے لیے جہاز پر بھیجا گیا‘

بی بی سی اردو  |  Sep 28, 2025

رواں سال اگست میں ایرانی ایل پی جی ٹینکر ایم ٹی کلپر ایک نئے عملے کے حوالے کیا گیا تھا جن میں کپتان مختار اکبر اور چیف آفیسر چوہدری محمد عبدالطیف سمیت 24 پاکستانی شہری شامل تھے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ ہفتے حوثی کنٹرول والی یمنی بندرگاہ راس العیسی پر اس ٹینکر پر اسرائیلی ڈرون حملہ ہوا تھا۔

16 ستمبر کو اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ایک پیغام میں بتایا تھا کہ حوثی حملوں کے جواب میں یمن کے شہر حدیدہ میں حوثی فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کا الزام تھا کہ ’اس بندرگاہ کو ایرانی رجیم کی طرف سے ہتھیاروں کی منتقلی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

ادھر محسن نقوی نے ایکس پر ایک پیغام میں بتایا کہ حملے کے بعد ایل پی جی ٹینکر میں آگ لگ گئی تاہم آگ کو عملے نے بجھا دیا۔ ’حوثی کشتیوں نے ٹینکر کو روک کر پاکستانیوں سمیت 27 رکنی عملے کو یرغمال بنا لیا تھا۔‘

ایم ٹی کلپر 179 میٹر لمبا اور 24 میٹر چوڑا ایل پی جی ٹینکر بردار بحری جہاز ہے۔ عملے کے مطابق جس وقت اس ٹینکر پر ڈرون حملہ ہوا تب اس میں 21 ہزار میٹرک ٹن ایل پی جی گیس تھی۔

پاکستانی وزیر داخلہ کے مطابق سکیورٹی اداروں اور سعودی حکام کی مدد سے یرغمال بنائے گئے عملے کی بحفاظت رہائی ممکن ہوئی ہے جبکہ حوثیوں نے نہ صرف ٹینکر اور عملے کو اپنی تحویل سے آزاد کر دیا ہے بلکہ وہ اب یمنی پانیوں سے بھی نکل چکے ہیں۔

’ٹینکر پر چھ بار ڈرون حملے ہوئے‘

ایل پی جی ٹینکر ایم ٹی کلپر کے ساتھ 17 ستمبر سے لے کر اگلے 10 دن تک کیا واقعات پیش آئے، اس بارے میں جاننے کے لیے بی بی سی اردو نے ٹینکر پر سوار چیف آفیسر چوہدری محمد عبدالطیف سے بات کی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ سارا عملہ اس ٹینکر جہاز میں ایران سے سوار ہوا تھا۔ ’ہماری منزل یمن تھی جس کے لیے ہمیں پہلے مشرقی افریقی ملک جبوتی جانا تھا۔ یہاں کارگو اور جہاز کی مکمل تلاشی اور تسلی کے بعد اس کو یمن جانے کی اجازت ملی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم چھ ستمبر کو یمن پہنچے جہاں پر بندرگاہ پر جہاز پہلے سے لنگر انداز تھے۔۔۔ ہمیں 16 ستمبر کو بندرگاہ پر جگہ ملی جس کے بعد ہم لنگر انداز ہوئے اور کارگو اتارنے کا انتظار تھا۔‘

ایم ٹی کلپر کے چیف آفیسر چوہدری محمد عبدالطیف نے بتایا کہ 16 اور 17 ستمبر کی درمیانی شب ٹینکر پر ڈرون حملہ ہوا تھا۔ ’ایک زوردار دھماکہ ہوا، سب خوف کا شکار تھے۔ مگر اس حملے میں ہم معجزانہ طور پر مکمل محفوظ رہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ عالمی قوانین کے تحت مال بردار جہازوں پر حملے نہیں ہوتے بلکہ انھیں تحفظ دیا جاتا ہے۔ ’جنگوں میں بھی بنیادی ضرورت کی اشیا کی ترسیل ہوتی رہتی ہے۔ جہازوں کو بین الاقوامی ادارے سے مکمل چیکنگ کے نظام سے گزرنے کے بعد یمن جانے کی اجازت ملتی ہے۔‘

جبوتی میں اقوام متحدہ کا ویریفیکیشن اینڈ انسپیکشن میکنزم فار یمن واقع ہے۔ یہ ادارہ اُن بندرگاہوں پر جانے والے بحری جہازوں کی چیکنگ کرتا ہے جو یمنی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلے ڈرون حملے کے بعد بندرگاہ پر حوثی باغیوں کی سکیورٹی ٹیم پہنچ گئی تھی۔ ’انھوں نے مکمل معائنہ کیا مگر زیادہ نقصان نہیں ہوا حلانکہ یہ حملہ ہم سے دس میٹر کے فاصلے پر ہوا تھا۔‘

'ہم جس مقام پر کھڑے تھے اس کے قریب دوسرا حملہ ہوا اور جہاز میں آگ بھڑک اٹھی۔ ہم نے حفاظتی اقدامات شروع کیے تو تیسرا حملہ ہو گیا۔ اس موقع پر جہاز کے کپتان نے فیصلہ لیا کہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے جہاز سے نکلا جائے۔‘

’ہمارے پاس چند ہی سیکنڈز کا وقت تھا‘: پرتگالی کارگو جہاز امریکی فوج کے لیے ایندھن لے جانے والے بحری جہاز سے کیسے جا ٹکرایا؟یمن کے حوثی جنگجو کتنے طاقتور ہیں اور ان سے مذاکرات کرنا اِتنا مشکل کیوں ہے؟شاہ سے امام خمینی تک: کیا یمنی حوثی ’ایران کی کٹھ پتلی‘ ہیں؟متحدہ عرب امارات سے بحری جہاز کی مبینہ ہائی جیکنگ کے بعد ایران پہنچنے کی پراسرار کہانی

چوہدری محمد عبدالطیف کا کہنا تھا کہ ’ہم جہاز سے لائف بوٹ کے ذریعے دور جا رہے تھے کہ تین مزید حملے ہوئے۔ صبح کے قریب پانچ بج چکے تھے۔ کارگو میں بھی آگ لگی ہوئی تھی۔ انتظامیہ کے لوگ ہمیں لے کر ساحل پر آگئے تھے۔ مگر ہمیں نہیں پتا تھا کہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔‘

آگ بجھانے کے لیے عملے کو زبردستی واپس جہاز پر بھیجا

ایل پی جی ٹینکر کے عملے میں شامل چوہدری محمد الطیف کہتے ہیں کہ انتظامیہ نے ’عملے کے سات لوگوں کو آگ بجھانے کے لیے زبردستی جہاز پر واپس بھیجا۔۔۔ مجبوری کے عالم میں ہم لوگ جہاز پر گئے۔‘

’ہمارے پاس آگ بھجانے کے لیے مناسب انتظامات نہیں تھے۔۔۔ ہم نے جہاز کے آگ بھجانے والے سسٹم بھی آن کر دیے مگر آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ وہ (انتظامیہ) ہمیں واپس ساحل پر لے آئے۔‘

عملے کے مطابق بعض افراد کو ہوٹلوں میں رکھا گیا تھا مگر کچھ کو حوثی باغی اپنے فوجی بیرکوں میں لے گئے تھے۔ جب آگ کی شدت میں اضافہ ہوا تو انھیں جہاز بجھانے کے لیے واپس لے جانے کا حکم دیا گیا۔ ’وہ ہمیں گن پوائنٹ پر وہاں لے گئے۔‘

چوہدری محمد الطیف کو خدشہ تھا کہ ’ٹینکر میں ایل پی جی ہونے کی وجہ سے دھماکہ ہو سکتا ہے۔ بندرگاہ پر کھڑے دوسرے جہازوں کو بھی خطرہ تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ حکام کے پاس دو راستے تھے: یا تو جہاز کو وہیں ڈبو دیں یا عملے کو سزا کے طور جہاز پر بھیج دیں۔ ’انھوں نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا تھا۔‘

چوہدری محمد الطیف یاد کرتے ہیں کہ ’ہمیں کہا جا رہا تھا کہ جہاز پر جائیں اور ہم انکار کر رہے تھے۔‘

وہ دعویٰ کرتے ہی کہ ’اس دوران ان کے ایک فوجی کمانڈر نے بالکل میرے قریب آ کر زمین پر فائرنگ کی۔۔۔ (ہمیں لگا کہ) ہم نے انکار کیا تو وہ گولی مار دیں گے اور ان کو کون پوچھنے والا تھا۔‘

جہاز کے عملے نے آپس میں بات چیت کر کے یہ فیصلہ کیا کہ جہاز پر جانے سے انھیں مزید کچھ وقت مل سکتا ہے کہ وہ آگ پر قابو پا سکیں۔ ’کپتان اور میں نے مزید مذاکرات کیے اور ہماری کوشش کامیاب رہی۔ انھوں نے وعدہ کر لیا کہ جہاز کو چلا کر ہم دور لے جائیں اور وہ ہمیں واپس لے آئیں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سوچ چکے تھے کہ ان کے ہاتھوں گولی کھائیں گے تو فوری مر جائیں گے اور اگر جہاز پر جائیں گے تو کچھ وقت مل جائے۔ انھوں نے واپس لانے کا بھی وعدہ کر لیا تھا۔

’جب ہم جہاز پر پہنچے اور جہاز کو دور لے گئے تو انھوں نے جہاز پر کچھ سکیورٹی گارڈ اتارے اور کہا کہ آگ کو ہر صورت بجھانا ہوگا اور ہمیں یہ ایل پی جی چاہیے۔‘

’ہمیں بچنے کی امید نہیں تھی‘

عبدالطیف یاد کرتے ہیں کہ جہاز پر آگ بجھانے کے سوا عملے کے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سکیورٹی گارڈ موبائل فون اور ہینڈی کیم کے ساتھ ہماری لمحہ بہ لمحہ ویڈیو بنا رہے تھے۔ ان کی کشتیاں جہاز سے کچھ دور کھڑی تھیں۔

’ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ ایل پی جی تھی، انتہائی خطرناک۔ اس میں کسی بھی وقت دھماکہ ہوسکتا تھا۔‘

وہاں واپس پہنچنے پر عملے نے دیکھا کہ ڈرون حملے کے بعد آگ بجھانے کے لیے انھیں تین چیزوں پر قابو پانا تھا: آگ کا ذریعہ، درجہ حرارت اور ہوا۔ ’آگ چھوٹی ہو یا بڑی، اس پر قابو پانے کے لیے ان تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو کاٹنا ہوتا ہے۔ ہم ہوا کو نہیں روک سکتے تھے۔۔۔ آخری راستہ یہ تھا کہ ہم آگ کے ذریعے پر قابو پائیں جو کہ ایل پی جی گیس تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کارگو کے ٹینک نمبر ایک کو نقصان پہنچ چکا تھا اور اس کا سیفٹی والو متاثر ہوا تھا۔ ’آگ کے شعلے اونچائی پر واقع سیفٹی والو تک پہنچ چکے تھے۔‘

عملے نے آگ بجھانے کے لیے جہاز کے کمپریسر کی مرمت کی جو کہ گیس کو منفی 40 ڈگری کے درجہ حرارت تک ٹھنڈا رکھتا ہے۔ جب کارگو میں موجود ایل پی جی گیس ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی تو آگ پھیلنے کا سلسلہ کٹ گیا۔‘

ٹینکر کے چیف آفیسر نے بتایا کہ ’ہم ایک، ایک کر کے آگ کا ذریعہ ختم کرتے گئے۔ پہلے ہم نے ایک ٹینک کو بحال کیا اور پھر دوسرے کو۔ ہم تیسرے ٹینک کو بحال نہیں کر سکے کیونکہ اس میں سے (گیس کے) بخارات نکلتے رہے تھے۔‘

اس دوران عملے کو ’کوئی امید نہیں تھی کہ ہم بچ سکتے ہیں۔ وہاں پر کسی بھی وقت دھماکہ ہوسکتا تھا۔۔۔ اگر ایک بھی دھماکہ ہوتا تو جہاز کے پرخچے اُڑ جاتے۔‘

عبدالطیف کہتے ہیں کہ اگر عملے کو ’گن پوائنٹ پر نہ لایا جاتا تو ہم کبھی نہ آتے مگر جب ہمارے سر پر پڑی تو ہم نے ہمت کی اور پھر ناممکن ممکن ہوگیا۔

’کمپریسر کو ٹھیک کر کے سٹارٹ کیا تو اس وقت چار لوگوں نے الگ الگ کمپرسر کے بٹن دبانے سے پہلے کلمے پڑھ لیے تھے۔‘

انھیں خدشہ تھا کہ آگ بجھنے کی بجائے مزید پھیل سکتی ہے کیونکہ ’جس راستے سے گیس کے بخارات بن رہے تھے، اگر اسے تھوڑی سی بھی حرارت مل جاتی تو دھماکہ ہو سکتا تھا۔‘

’مگر یہاں پر قدرت مہربان ہوئی اور ہم آگ پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔‘

ٹینکر اور عملے کی واپسی

ایم ٹی کپلر پر سوار عبدالطیف کا کہنا تھا کہ آگ بجھانے کے بعد عملے کو ٹینکر سمیت واپس جانے کی اجازت مل گئی تھی اور کمپنی سے بھی رابطہ ہو گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یمن میں جس کمپنی کی ایل پی جی تھی، اس نے ہمیں کہا کہ ایل پی جی آگ لگنے کی وجہ سے اب ان کے کسی کام کی نہیں رہی۔ ہم اس کو وصول نہیں کر رہے۔ جہاز اس کو واپس لے کر جاسکتا ہے۔

’ہمیں حوثی باغیوں کی جانب سے بھی کہا گیا کہ چلے جائیں۔ انھوں نے جہاز سے سکیورٹی ٹیم اتار دی تھی۔‘

عبدالطیف بتاتے ہیں کہ 28 ستمبر کی صبح ’بندرگاہ سے چند میل دور چلنے کے بعد ہمارا انجن خراب ہو گیا تھا۔ ہمارے انجینیئر کرتے رہے جس کے بعد ہم یمن کی حدود سے نکل سکے۔

’اب ہماری منزل جبوتی ہے جہاں ہم ممکنہ طور پر 20 گھنٹوں میں پہنچ جائیں گے۔‘

شاہ سے امام خمینی تک: کیا یمنی حوثی ’ایران کی کٹھ پتلی‘ ہیں؟یمن کے حوثی جنگجو کتنے طاقتور ہیں اور ان سے مذاکرات کرنا اِتنا مشکل کیوں ہے؟تیل کی ترسیل صرف نجی آئل ٹینکرز پر کیوں؟متحدہ عرب امارات سے بحری جہاز کی مبینہ ہائی جیکنگ کے بعد ایران پہنچنے کی پراسرار کہانی’ہمارے پاس چند ہی سیکنڈز کا وقت تھا‘: پرتگالی کارگو جہاز امریکی فوج کے لیے ایندھن لے جانے والے بحری جہاز سے کیسے جا ٹکرایا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More