BBCآج کے دور میں خواتین کا پٹرول پمپوں پر کام کرنا ایک عام سی بات ہے لیکن اس پیٹرول پمپ کی خاصیت یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر خواتین چلاتی ہیں۔
لکشمی انڈین ریاست تلنگانہ کے نارائن پیٹ ضلع میں سنگرام ایکس روڈ پر ایک پٹرول پمپ پر کام کرتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں اب ہر ماہ 13 ہزار روپے کما رہی ہوں۔ میری بڑی بیٹی زراعت میں بی ایس سی کرنا چاہتی ہے۔ پہلے میں سوچتی تھی کہ میں اسے پڑھا سکوں گی یا نہیں لیکن اب میرے پاس اسے پڑھانے کا اعتماد اور ہمت دونوں ہیں۔‘
آج کے دور میں خواتین کا پٹرول پمپوں پر کام کرنا ایک عام سی بات ہے لیکن اس پیٹرول پمپ کی خاصیت یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر خواتین چلاتی ہیں۔
تلنگانہ میں پہلی بار ضلع کی دیہی ترقی ایجنسی اور مہیلا سماکھیا (خواتین کا ایک سیلف ہیلپ گروپ) کے زیراہتمام خواتین کے ذریعہ چلائے جانے والے ایک پٹرول پمپ کا آغاز کیا گیا ہے۔
دن بھر گاڑیوں کی آمد
بی بی سی کی ٹیم یہ دیکھنے کے لیے نارائن پیٹ پہنچی کہ اس پیٹرول پمپ پر کام کیسے ہوتا ہے۔ یہ پیٹرول پمپ نارائن پیٹ حیدرآباد ہائی وے پر ہے جہاں صبح سے شام تک گاڑیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔
نارائن پیٹ کے رہنے والے محمد حسین کا کہنا ہے کہ پیٹرول پمپ پر اعتماد بڑھا کیونکہ اسے خواتین چلا رہی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں حیدرآباد، محبوب نگر، وجئے واڑہ، بنگلورو۔۔۔ ہر جگہ جاتا ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ اس پیٹرول پمپ کا معیار اچھا ہے۔‘
اس پیٹرول پمپ کا افتتاح تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی نے 21 فروری 2025 کو کیا تھا۔
BBCخواتین کی قیادت میں شروع کیا گیا یہ تجربہ اب پورے ضلع کے لیے مشعل راہ بن گیا ہے
جب سال 2025 میں مہیلا سماکھیا کو اس پٹرول پمپ کے قیام کا خیال آیا، اس وقت کویا سری ہرشا نارائن پیٹ ضلع میں کلیکٹر تھے۔
پمپ کی مینیجر چندر کلا کوٹاکونڈا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسی صورت حال میں حیدرآباد روڈ کے قریب خالی زمین ضلعی دیہی ترقی کے ادارے کو دی گئی۔ پھر بی پی سی ایل کمپنی سے پیٹرول پمپ قائم کرنے کے لیے بات چیت ہوئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ہرشا کے ٹرانسفر کے بعد تین ماہ تک کام نہیں بڑھ سکا۔ جب یہ تجویز نئی کلیکٹر سکتہ پٹنائک کے سامنے رکھی گئی تو انھوں نے بی پی سی ایل سے بات کی اور آگے کی کارروائی شروع کی۔
چندرکلا نے بتایا کہ ’ہم نے سوچا تھا کہ اب سب کچھ رُک جائے گا۔ ہمارا پیٹرول پمپ یہاں خواب ہی رہے گا۔ لیکن سکتہ میڈم نے پہل کی اور کام آگے بڑھا۔‘
وہ گاؤں جہاں سینکڑوں شوہر اپنی بیویوں کے ہاتھوں قتل ہوئےجب ڈیٹنگ کی ایک ’محفوظ‘ ایپ ہیک ہونے سے ہزاروں خواتین کی تصاویر اور لوکیشن لیک ہو گئیں’ڈیجیٹل ریپ‘ کیا ہے اور انڈیا میں اسے روکنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت کیوں پڑی؟ تدفین سے چند لمحے قبل دکھائی دینے والا خون کا دھبہ جو مقتولہ کے شوہر اور بیٹے کی گرفتاری کی وجہ بنا’ہم نے ہمت نہیں ہاری‘
اس وقت اس پیٹرول پمپ پر 10 لوگ کام کرتے ہیں۔ ان میں چھ خواتین اور چار مرد شامل ہیں۔ خواتین اسے دن میں چلاتی ہیں جبکہ مرد رات کو کام سنبھالتے ہیں۔
چندرکلا کہتی ہیں کہ ’سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اور افسران کے مشورے پر رات کی ذمہ داری مردوں کو دی گئی ہے۔‘
بی پی سی ایل نے پمپ لگانے کے لیے ایک کروڑ دس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی اور مہیلا سماکھیا نے پیٹرول اور ڈیزل خریدنے اور زمین کو برابر کرنے کے لیے 35 لاکھ روپے خرچ کیے۔
چندرکلا کہتی ہیں کہ ’ہم نے اس پیٹرول پمپ کو حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کی۔ بہت سے لوگوں نے یہ کہہ کر ہماری حوصلہ شکنی کی کہ کئی سالوں تک کوشش کرنے کے بعد بھی آپ کو پیٹرول پمپ نہیں مل سکے گا، ٹینڈر میں مسائل ہوں گے۔ ‘
’انھوں نے یہ کہہ کر ہمارا مذاق اڑایا کہ ہم خواتین ہیں، کچھ نہیں کر پائیں گی۔۔۔ لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا خواب پورا کیا۔‘
نقصان سے منافع تک
شروع میں نقصانات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بعد میں جب پیٹرول پمپ میں انتظامات مکمل ہو گئے تو یہ منافع بخش ہو گیا۔
چندرکلا اس سے قبل ضلعی مہیلا سماکھیا کی صدر رہ چکی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ابتدائی طور پر آپریشنل وجوہات کی وجہ سے نقصان ہوا تھا۔ لیکن ہم سمجھ گئے کہ نقصان کہاں سے ہو رہا ہے اور اسے روک کر اب ہم منافع میں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر روزانہ 1500 لیٹر پٹرول اور ڈیزل فروخت ہوتا تھا۔ ’اگر ہم ماہانہ بنیادوں پر دیکھیں تو پیٹرول کی بہت زیادہ کمی ہے۔‘
اب یہاں روزانہ چار سے پانچ ہزار لیٹر پیٹرول اور ڈیزل فروخت ہو رہا ہے۔
BBCخواتین کی وجہ سے پیٹرول پمپ پر لوگوں کا اعتماد بڑھا
ڈیزل پر 2.05 روپے فی لیٹر اور پیٹرول پر 3.43 روپے فی لیٹر کمیشن ملتا ہے۔
چندرکلا نے کہا کہ ’ہم ہر ماہ دو سے تین لاکھ روپے کا منافع کما رہے ہیں۔ ہم نے پچھلے چھ ماہ میں 13 لاکھ ہزار روپے کا منافع کمایا ہے۔‘
نارائن پیٹ کے ایڈیشنل کلیکٹر سنچیت گنگوار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خواتین پیٹرول پمپ چلانے میں کامیاب رہی ہیں۔ مہیلا سماکھیا اور خواتین کی محنت کی وجہ سے یہ پمپ منافع بخش ہو گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ ضروری تعاون فراہم کر رہی ہے۔
’مجھے اب ڈر نہیں لگتا‘
پمپ پر کام کرنے والی خواتین میں لکشمی بھی شامل ہیں۔ ان کے شوہر مزدوری کرتے ہیں۔
لکشمی کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کو صرف سیزن میں ہی کام ملتا تھا۔ آف سیزن میں گھر چلانا مشکل تھا۔ اب پیٹرول پمپ ان کا سہارا بن گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے 10ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ میری بیٹی زراعت میں بی ایس سی کرنا چاہتی ہے۔ پہلے مجھے فکر تھی کہ میں اسے پڑھا نہیں سکوں گی۔ لیکن اب مجھے ڈر نہیں لگتا۔‘
اس وقت انھیں 13 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔
BBCشروع میں 1500 لیٹر یومیہ فروخت کرنے پر نقصان ہوتا تھا لیکن آج یہ پمپ منافع بخش ہے
ایک اور خاتون انجمہ نے بتایا کہ وہ مزدوری کرتی تھیں اور تین بچوں کو پڑھانے میں دشواری کا سامنا تھا۔ ’اب میں مالی طور پر مضبوط ہوں اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہی ہوں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سارا دن کھڑے ہو کر کام کرنا مشکل ہے تو انھوں نے کہا کہ ’اگر یہ سوچیں کہ اس میں رسک ہے تو یوں ہر کام پُرخطر لگے گا۔ ہم ایسا نہیں سوچتے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں ایک شناخت چاہیے تھی اس لیے ہم مضبوطی سے کھڑے رہے۔‘
سی این جی سینٹر کی طرف قدمBBCیہاں لکشمی جیسی خواتین 13000 روپے ماہانہ تنخواہ حاصل کرتی ہیں
چندرکلا بتاتی ہیں کہ 8 ستمبر 2025 کو پمپ کی فروخت ایک دن میں دو لاکھ روپے تک پہنچ گئی۔
لیکن پیٹرول پمپ کی کامیابی نے کچھ حریفوں کو پریشان کر دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ ہمارے پمپ سے پیٹرول بھرتے ہیں اور پھر بوتل میں کہیں اور سے پیٹرول لا کر کہتے ہیں کہ ’دیکھو! یہاں جعلی پیٹرول ملتا ہے۔‘
’پھر ہم فوراً اسے چیک کر کے بتاتے ہیں کہ ہمارا پیٹرول کیسا ہے اور ان کا کیسا ہے۔ اس کے بعد وہ خاموشی سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ہم نے احتجاج کا سامنا کیا مگر آگے بڑھتے رہے۔
مستقبل میں مہیلا سماکھیا سی این جی فلنگ سینٹر اور ٹی سٹال جیسی سہولیات شروع کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
گاؤں میں 450 روپے سے شروع ہونے والا اچار کا کاروبار جس سے اب لاکھوں روپے کی آمدن ہوتی ہےجب ڈیٹنگ کی ایک ’محفوظ‘ ایپ ہیک ہونے سے ہزاروں خواتین کی تصاویر اور لوکیشن لیک ہو گئیںوہ گاؤں جہاں سینکڑوں شوہر اپنی بیویوں کے ہاتھوں قتل ہوئےتدفین سے چند لمحے قبل دکھائی دینے والا خون کا دھبہ جو مقتولہ کے شوہر اور بیٹے کی گرفتاری کی وجہ بنا’ڈیجیٹل ریپ‘ کیا ہے اور انڈیا میں اسے روکنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت کیوں پڑی؟