Getty Images
’یہ بالکل فضول بات ہے۔‘
سائنسدان پوڈیٹا بغان کا ردعمل کچھ ایسا تھا، جب انھیں اُن کی ایک ساتھی نے بتایا کہ سکاٹ لینڈ کی ایک خاتون، جو کہ ریٹائرڈ نرس ہیں، کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانی جسم کی بُو سونگھ کر کسی میں بھی پارکنسنز نامی بیماری کی تشخیص کر سکتی ہیں۔
74 سالہ ریٹائرڈ نرس جوائے میلن نے سنہ 2012 میں بغان کے کولیگریسرچر ٹیلو کنتھ سے رابطہ کیا تھا جو اُس وقت یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں نیورو سائنسدان تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’وہ (خاتون) ضعیف افراد کو سونگھتی ہیں اور اُن میں پارکنسنز بیماری کی علامات کی شناخت کر سکتی ہیں۔‘
74 سالہ ریٹائرڈ نرس جوائے میلن نے بتایا کہ انھیں اپنی اس صلاحیت کا اندازہ اُس وقت ہوا جب اُن کے شوہر کے جسم سے مشُک کی طرح کی بُو آنے لگی اور پھر کئی برسوں کے بعد اُن میں پارکنسنز کی بیماری کی تشخیص ہوئی۔
بغان جو اُس وقت یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے وابستہ تھیں، انھوں نے کہا کہ ’ہم نے اُس ریٹائرڈ نرس کی اس صلاحیت (بیماری کی تشخیص کرنا) کو جانچنے کا فیصلہ کیا۔‘
انھوں نے نرس میلن کو 12 ٹی شرٹس دیں، جن میں چھ ایسے مریضوں نے پہنیں تھیں جو پارکنسنز بیماری میں مبتلا تھے۔
میلن نے ٹی شرٹس کو سونگھ کر تمام چھ مریضوں کی صحیحشناخت کر لی اور انھوں نے ایک ایسے مریض کی بھی شناخت کی جیسے ایک سال سے بھی کم عرصہ قبل اس بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔
پوڈیٹا بغان کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت ہی زبردست تھا۔‘
سنہ 2015 میں 74 سالہ ریٹائرڈ نرس جوائے میلن کی جسم کی بُو سونگھ کر بیماری کا پتہ لگانے کی اس غیر معمولی صلاحیت کا دنیا بھر چرچا ہوا۔
نرس میلن کی یہ حِس اتنی غیر معمولی نہیں ہے، جتنا بظاہر لگ رہی ہے۔ انسانی جسم سے مختلف قسم کی بُو آتی ہے اور ایک نئی پیدا ہونے والی بُو اس بات کی نشاندہی کر سکتی ہے کہ کچھ بدل گیا ہے یا جسم میں کچھ غلط چل رہا ہے۔
اب، سائنسدان ان تکنیکوں پر کام کر رہے ہیں تاکہ منظم انداز میں جسم کی بُو سے متعلق کچھ نشانیوں کا پتہ لگایا جا سکے جو پارکنسنز، دماغی امراض سے لے کر کینسر تک مختلف بیماریوں کی تشخیص کے عمل کو تیز کر سکتی ہیں۔
مختلف بیماریاں اور اُن کی مخصوص بُو
اندریاس ماشن ماہر طبعیات ہیں اور وہ ReakNose.ai نامی کمپنی کے شریک بانی ہیں۔ اُن کی کمپنی ایک روبوٹک ناک تیار کر رہی ہے جو بُو سونگھ کر بیماری کا پتہ لگا سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ پاگل پن ہے کہ لوگ مر رہے ہوتے ہیں اور ہم انھیں سوئیاں چبھو کر یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ انھیں پروسٹیٹ کینسر ہے یا نہیں۔ حالانکہ سگنل (بیماری کے) پہلے سے موجود ہوتا ہے اور کتوں کے ذریعے اس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔‘
یہ ٹیکنالوجی اس لیے ضروری ہے کیونکہ نسبتاً کم لوگوں میں سونگھنے کی حِس اس قدر تیز ہوتی ہے کہ وہ اُن بائیو کیمیکلز کا پتہ لگا سکیں جو بیماری کے ابتدائی مراحل میں ظاہر ہوتے ہیں۔
جوائے میلن نامی نرس اُن چند نایاب افراد میں سے ایک ہیں، جو قدرتی طور پر ہائپروسمیا کی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں، یہ ایک خاصیت ہے جس میں سونگھنے کی حس اوسط انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ تیز ہوتی ہے۔ یا دیگر الفاظ میں اُن کی سونگھنے کی حس کافی ایڈوانس ہوتی ہے۔
Getty Imagesجسم کی بُو سونگھ کر پارکنسنز نامی بیماری کا پتہ لگانے کی غیر معمولی صلاحیت نے نرس جوائے میلن کو مقبول بنا دیا
کچھ بیماریاں ایسی ہوتی جن میں مخصوص بُو ہوتی ہے اور زیادہ تر انسان انھیں سونگھ سکتے ہیں۔
ذیابیطس کے شکار افراد کی سانس یا جلد کو ہائپوگلیسیمک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسے افراد کے قریب سے پھلوں یا خراب سیب جیسی خوشبو آتی ہے۔
یہ بُو اُس وقت آتی ہے جب خون میں تیزابیت کے سبب پھلوں کی خوشبو جیسا کیمیکل ’کیٹونز‘ پیدا ہوتا ہے۔ کیٹونز اُن وقت بنتے ہیں جب جسم گلوکوز کے بجائے چربی کو میٹابولائز کرتا ہے۔
آپ کی ناک کا میل آپ کی صحت کے بارے میں کیا بتاتاہے اور یہ بیماریوں سے لڑنے میں کیسے مددگار ثابت ہوتا ہے؟کیا ٹوائلٹ سیٹ سے آپ کو بیماریاں لگ سکتی ہیں؟
جگر کے مرض میں مبتلا افراد کی سانس اور پیشاب میں سے سلفر جیسی بُو آتی ہے اور اگر کسی انسان کے سانس سے ایمونیا، مچھلی یا پیشاب جیسی بو آئے تو یہ گردے کی خرابی کی علامات ہیں۔
ہائپروسمیا افراد میں سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔
کچھ انفیکشنز کا بھی بُو کی مدد سے پتہ چل جاتا ہے۔ اگر پاخانے سے میٹھی میٹھی بُو آئے تو یہ ہیضے کے انفیکشن کی علامت ہے۔ دوسری جانب ٹی بی کے مریض کی سانس سے باسی بیئر اور جلد سے گیلے گتے کی سی بُو آتی ہے۔
اگرچہ دیگر دوسری بیماریوں کی تشخیص کے لیے سونگھنے کی خصوصی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر کتوں میں سونگھنے کی حس انسانوں کے مقابلوں کئی سو گنا زیادہ ہوتی ہے اور سائنسدان نے کتوں کو مختلف نوعیت کے کینسرز کی تشخیص کے لیے تیار کیا ہے۔
Getty Imagesہائپروسمیا افراد میں سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے
مثال کے طور پر کتے کسی انسان میں پروسٹیٹ کینسر کی پیشاب کے نمونوں کے ذریعے تشخیص 99 فیصد کامیابی سے کر لیتے ہیں۔ آنے والے ادوار میں کتوں کو تربیت دی گئی کہ وہ پارکنسنز کی بیماری، ذیابیطس اور ملیریا کی ابتدائی علامات کا سونگھ کر پتہ لگا سکیں۔
ایسا نہیں ہے کہ سارے کتے بیماریوں کو سونگھ سکتے ہیں بلکہ کچھ خاص کتوں کو بھی اس کی مخصوص تربیت دی جاتی ہے۔
بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کتوں اور نرس میلن جیسی سونگھنے کی اس خصوصی حس کو لیبارٹری میں تیار بھی کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک سویب پر نمونہ بھیجا جائے اور لیبارٹری میں اس کا تجزیہ کیا جائے۔
بغان کا کہنا ہے کہ وہ کرومیٹوگرافی اور ماس سپیکٹرومیٹری کی مدد سے پارکنسنز کے مریضوں کے سیبم (انسان جلد میں موجود خلیہ) کا معائنہ کر رہے ہیں۔
خوراک اور پرفیوم انڈسٹری میں پہلے ہی یہ تکنیک جسم کی بُو کے تجزیے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
انسانی جلد کے خلیوں میں 25 ہزار کمپاؤنڈ موجود ہوتے ہیں جن میں تین ہزار ایسے ہیں جو صرف پارکنسنز کے مریضوں میں مختلف طریقے سے ظاہر ہوتے ہیں۔
بغان کے مشاہدات کے مطابق ’ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اب ہم انھیں کم کر کے تیس تک آ گئے ہیں۔ یہ وہ کمپاؤنڈ ہیں جو پارکنسنز کے تمام مریضوں میں باقی افراد سے مختلف ہیں۔‘
انسانی جلد میں موجود زیادہ تر یہ کمپاؤنڈلیپڈ یا چربی ہیں اور فیٹی ایسڈ کی چینز ہیں۔
’ہم جانتے ہیں کہ جسم میں زیادہ لیپڈ گردش کر رہے ہیں، اور ان میں سے کچھ جلد کے ذریعے خارج ہوتے ہیں، اور ہم نے ان ہی کی پیمائش کی۔‘
سائنسدانوں کی ٹیم سکن سویب ٹیسٹ تیار کر رہی ہے جو ابتدائی سٹیچ میں پارکنسنز کی تشخیص کر سکے گی، اگرچہ اس میں کچھ وقت درکار ہے۔
جسم کی بُو میں مالیکیولز کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
لیکنبیماریوں سے جسم کی بُو کیوں بدل جاتی ہے؟ اس کی وجہ وہ مالیکیولز ہیں جنھیں ولیٹائل اورگینک مالیکیولز کہتے ہیں۔
زندہ رہنے کے لیے ہمارا جسم خوارک اور پانی کو توانائی میں تبدیل کرتا رہتا ہے، خوراک میں موجود شوگر جسم کو توانائی دیتی ہے اوراس سارے عمل کے دوران جسم میں کیمکل ری ایکشن ہوتا ہے۔
اسی کیمکل ری ایکشن میں مالیکیولز بنتے ہیں اور اُن میں سے کچھ ولیٹائل ہوتے ہیں یعنی وہ ہوا میں اڑ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بُو آتی ہے۔
سنہ 2016 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ایک چوہیا کے دماغ میں لگنی والی شدید چوٹ کے بعد اُس کے جسم سے مخصوص بو آئی، جیسے ساتھ موجود دوسری چوہیا نے محسوس کیا۔
Getty Imagesانسانوں کے مقابلے میں کتوں میں سونگھنے کی حِس کئی گنا تیز ہوتی ہے
ایک نئی تحقیق کے مطابق، کیمبل کا کہنا ہے، دماغی ہلچل کے پہلے چند گھنٹوں کے دوران انسانی پیشاب میں مخصوص کیٹونز کا مشاہدہ کیا گیا۔
اس طرح کی چوٹوں کے بعد جسم سے مخصوص بُو کیوں آتی ہے یہ واضح نہیں ہو سکا ہے، لیکن ایک نظریہ یہ ہے کہ دماغ مسئلے کو حل کرنے لیےVOCsیعنی ولیٹائل آرگینگ مالیکیولز کا اخراج کرتا ہے۔
کیمبل کا کہنا ہے کہ ’ہم نے جس قسم کے کیٹونز کا مشاہدہ کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دماغی چوٹ سے نمٹنے کے لیے زیادہ توانائی فراہم کرنے کی کوشش یا کم از کم اُس خرابی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ دماغی چوٹ کے بعد کیٹونز توانائی کے متبادل ذرائع کے طور پر کام کر سکتے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نیورو پروڈکٹیو خصوصیات فراہم کرتے ہیں۔
جسم کی بُو سے یہ بھی پتہ چل سکتا ہے کہ کیا کسی کو کیا ملیریا ہوا ہے۔
سنہ 2018 میں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے متاثرہ بچوں کی جلد سے ایک مخصوص بو آتی ہےجو انھیں مچھروں کے لیے پرکشش بناتی ہے۔
مغربی کینیا میں 56 بچوں سے حاصل ہونے والے نمونوں کا مطالعہ کرتے ہوئے، سائنسدانوں نے اُن کے جسسم سے ’پھل اور گھاس‘ کی بُو کو محسوس کیا، جو مکھیوں اور کاٹنے والے کیڑوں کے لیے بہت پُرکشش ہوتی ہے۔
Getty Imagesملیریا میں مبتلا افراد کے جسم سے آنے والی بُو مچھروں کے لیے پُرکشش ہوتی ہے
ان نمونوں کے مزید معائنے سے ان میں موجود مختلف کیمکلز کا پتہ لگایا گیا جو مخصوص بُو کا سبب بنتے ہیں۔
اس تحقیق کو ملیریا کی تشخیص کے لیے ایک نیاٹیسٹ تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سائنسدان پُرامید ہیں کہ وہ ایسی جعلی بُو بنا کر اسے مچھروں کو ختم کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
اندریاس ماشن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے تعاون سے جسم کی بُو سے پروسٹیٹ کینسر کیتشخیص کرنے والے آلہ بنا رہے ہیں۔
بُو پہچاننے والے آلات
RealNose.ai نامی کمپنی ایسے آلات پر کام کر رہے جو جسم سے آنے والی مختلف بُو کو پہچان سکیں۔
ان آلات کی بنیاد سونگھنے کی حِس پر ہے۔ انھیں لیب میں سٹیم سیل کی مدد سے تیار کیا جا رہا ہے اور یہ پروسٹیٹ کینسر کی وجہ سے جسم میں بُو پیدا کرنے والے مالیکولیز کا پتہ لگا سکتی ہے۔
مشین لرننگ، مصنوعی ذہانت کی ایک شکل ہے۔ ماشن کا کہنا ہے کہ ’ایک نمونے کے اندر موجود اجزا کو جاننا کافی نہیں ہے۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ کیک میں موجود اجزا ہمیں اس کے ذائقے یا بو کے بارے میں بہت کم بتاتے ہیں۔ یہ جبھی ممکن ہے کہجب آپ کے سینسر اور اس میں موجود کمپاؤنڈ کا کچھ تعلق ہو اور اس معلومات کو آپ کا دماغ ایک تجربے میں تبدیل کر دے۔‘
نرس جوائے میلن اب سائنسدان بغان کی ریسرچ ٹیم کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور پارکنسنز سمیت دوسری بیماریوں کی تشخیص کے لیے مختلف ٹیسٹوں پر کام کر رہی ہیں۔
بغان کا کہنا ہے کہ ’ہم انھیں اب زیادہ جسم کی بو سے تشخیص کے لیے استعمال نہیں کر رہے اور ایک دن میں وہ زیادہ سے زیادہ 10 نمونوں کا تجزیہ کر سکتی ہیں۔ یہ جذباتی طور پر بھی مشکل ہے۔ اُن کی عمر 75 سال ہے اور وہ ہمارے لیے بہت قیمتی ہیں۔‘
تاہم اگر بغان کی تکنیک جوائے میلن کی صلاحیت کو نقل کر سکتی ہے اور پارکنسنز کی بیماری کو اس کے ابتدائی مراحل میں تشخیص کر سکیں، تو یہ جوائے اور ان کے شوہر لیس کا ایک عظیم ورثہ ہو گی۔
آپ کی ناک کا میل آپ کی صحت کے بارے میں کیا بتاتاہے اور یہ بیماریوں سے لڑنے میں کیسے مددگار ثابت ہوتا ہے؟سِنگل یا غیرشادی شدہ افراد کے جسم سے الگ سی خوشبو کیوں آتی ہے؟کیا ٹوائلٹ سیٹ سے آپ کو بیماریاں لگ سکتی ہیں؟سکرین ٹائم سے بچوں کے ذہنوں کو پہچنے والا نقصان اندازوں سے زیادہ پیچیدہ عمر کے ساتھ بدلتی جسم کی بُو ہمارے بارے میں دوسروں کو کیا بتاتی ہے